ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں گئو رکشا نے نام پر ہونے والی لنچنگ اور قتل معاملوں کی مذمت کرتے ہوئے حکومت سے کہا کہ فرقہ وارانہ بیان بازی پر پابندی لگائی جائے اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی: حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے
منگل کو جاری ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت ہند کو نام نہاد گئورکشا کے نام پر اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے محافظ گروہوں کے تشدد کو روکنا چاہیے اور ان پر قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ہیومن رائٹس نے104 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ-
Violent Cow Protection in India : Vigilante Groups Attack Minorities گائے کے گوشت کا استعمال کرنے اور جانوروں کے کاروبار سے جڑے لوگوں کے خلاف تشدد آمیز مہم چھیڑنے کے لئے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ممبروں کے ذریعے استعمال کی جانے والی فرقہ وارانہ بیان بازی کے بارے میں بتاتی ہے۔ مئی 2015 سے دسمبر 2018 کے درمیان کم سے کم 44 لوگ مارے گئے جن میں 36 مسلم تھے۔ پولیس نے اکثر حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کو مسدود کیا، جبکہ کئی بی جے پی رہنماؤں نے عوامی طورپر حملوں کو صحیح ٹھہرایا۔
ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گانگولی نے تنظیم کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا کہ، ہو سکتا ہے کہ گئورکشا کا اعلان ہندو رائے دہندگان کو متوجہ کرنے کے لئے شروع ہوا ہو، لیکن یہ بھیڑ کے لئے اقلیتی گروہ پر تشدد آمیز حملے اور ان کے قتل کرنے کی کھلی چھوٹ میں بدل گیا ہے۔ حکومت ہند کو ان حملوں کو اکسانے یا صحیح ٹھہرانے، متاثرین کو قصوروار ٹھہرانے یا ملزموں کی حفاظت پر روک لگانی چاہیے۔
رپورٹ میں11معاملوں، جس میں 14 لوگوں کی موت ہوئی، اور چار ہندوستانی ریاستوں-ہریانہ، اتر پردیش،راجستھان اور جھارکھنڈ میں حکومت کے ذریعے کی گئی کارروائیوں کی تفصیل ہے۔ان ریاستوں کا انتخاب اس لئے کیا گیا کیونکہ یہاں بڑی تعداد میں بھیڑ کے حملوں کے معاملے سامنے آئے تھے۔
واضح ہو کہ 2016 میں، گئورکشک گروہ نے ایک مسلم مویشی کاروباری اور ایک بارہ سال کے لڑکے کو پیٹ پیٹکرماردیا تھا۔ یہ جھارکھنڈ کے جانوروں کے میلہ میں جا رہے تھے۔ ان کی لاش بہت بری حالت میں درخت سے لٹکے پائے گئےتھے۔ لڑکے کے والد جھاڑی میں چھپکر یہ حملہ دیکھتے رہے ،ان کا کہنا تھا کہ ،اگر میں باہر نکلتا، تو وہ مجھے بھی مار ڈالتے۔ میرا بیٹا مدد کے لئے چیخ رہا تھا، لیکن میں اتنا ڈر گیا تھا کہ چھپ گیا۔
غور طلب ہے کہ ہندوستان میں زیادہ ترریاستوں میں گائے ذبیحہ پر پابندی ہے۔ لیکن حال کے سالوں میں، کئی بی جے پی حکومتی ریاستوں نے ایسے سخت قوانین اور پالیسیوں کو اپنایا ہے جو اقلیتی طبقے کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔فروری 2019 میں، حکومت نے گئورکشا کے لئے ایک نیشنل کمیشن کا اعلان کیاتھا۔
ہیومن رائٹس واچ نے مزید کہا کہ،ان پالیسیوں اور گئورکشک گروہوں کے حملوں نے ہندوستان کے مویشی کاروبار اور دیہی زرعی معیشت کو برباد کر دیا ہے۔ ساتھ ہی، زراعت اور ڈیری سیکٹر سے جڑے چمڑا اور گوشت امپورٹ کرنے والی صنعت پر بھی اس کا اثر پڑا ہے۔ یہ حملے اکثر ایسے گروہوں کے ذریعے کئے جاتے ہیں جو بی جے پی سے جڑے ہندوتوادی تنظیم ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے حملوں کے شکار زیادہ تر مسلم یا دلت اور قبائلی کمیونٹی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ ان حملوں پر حکومت کی ناکافی کارروائی ہندوؤں سمیت ان طبقات کو نقصان پہنچا رہی ہے جن کا کاروبار مال مویشی سے جڑا ہوا ہے، ان میں کسان، چرواہے، جانور ٹرانسپورٹر، گوشت کاروباری اور چمڑا صنعت کے مزدور شامل ہیں۔
رپورٹ میں درج تقریباً تمام معاملوں میں، پولیس نے شروع میں تفتیش کو مسدود کیا، کارروائی کو نظرانداز کر دیا یا یہاں تک کہ وہ قتل معاملوں پر پردہ ڈالنے میں بھی شامل رہی۔ راجستھان کے ایک سبکدوش سینئر پولیس افسر نے کہا،پولس کو گئورکشکوں کے متعلق ہمدردی رکھنے، کمزور تفتیش کرنے اور ان کو کھلی چھوٹ دینے کے لئے سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان گئورکشکوں کو سیاسی پناہ اور مدد ملتی ہے۔
تنظیم کے مطابق کئی معاملوں میں، ہندو توادی گروہوں کے سیاسی رہنماؤں اور بی جے پی کے عوامی نمائندوں نے ان حملوں کا بچاؤ کیا۔ دسمبر میں، اتر پردیش کے بلندشہر میں بھیڑ نے ایک پولیس تھانہ میں آگ لگا دی اور کئی گاڑیوں کو جلا دیا۔ یہ تشددمبینہ طور پر گئو کشی کے بعد ان کے آثار ملنے کی وجہ سے ہوا تھا۔ بھیڑ کا سامنا کرنے والے ایک پولیس افسر سمیت دو لوگ مارے گئےتھے۔تشدد کی مذمت کرنے کے بجائے وزیراعلیٰ نے ان قتل معاملوں کو ‘حادثہ’بتایا اور پھر خبردار کیاکہ ‘پوری ریاست میں نہ صرف گئوکشی بلکہ غیر قانونی جانوروں کا ذبیحہ ممنوع ہے۔’
ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ جانچ کرنے والے گئو کشی پر قانونی کارروائی کرنے کے لئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا، گائےکے قاتلوں کو سزا دلانا ہماری اولین ترجیح ہے۔ قتل اور فساد کا معاملہ فی الحال ہماری ترجیح نہیں۔
میناکشی گانگولی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ،’ہندوستانی پولیس کے ذریعے بھیڑ کے حملوں کی تفتیش میں مظلوم اورمتاثر اقلیتوں پر ہی الزام لگائے جانے کا اندیشہ رہتا ہے کیونکہ پولیس کو سرکاری روابط والے گئورکشکوں پر کارروائی نہیں کرنی ہوتی ہے۔ مرکز اور ریاست کے افسروں کو اپنے انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے منھ موڑنے کے بجائے بھیڑ کے ذریعے کیے جانے والے قتل معاملوں کے خلاف سپریم کورٹ کی ہدایتوں پر عمل کرنا چاہیے۔’