آخر کیوں کسانوں کی تحریک نے مودی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا؟

02:28 PM Nov 24, 2021 | اجے آشیرواد مہاپرشست

مرکزی حکومت کسانوں کی مانگوں کے سامنے جھکنےکو تیار نہیں تھی، خود وزیر اعظم نے پارلیامنٹ میں مظاہرین کو توہین آمیز طریقے سے‘آندولن جیوی’ کہا تھا۔ بی جے پی کی مشینری نے ہر قدم پر تحریک کو بدنام کرنے اور کچلنے کی کوشش کی،لیکن کسان تحریک کو جاری رکھنے کے عزم  پر قائم رہے۔

ٹکری بارڈر پر جشن مناتے کسان۔ (فوٹو: یاقوت علی/دی وائر)

نئی دہلی: جمعہ کی صبح وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی حکومت کے تین متنازعہ زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کےفیصلے کا اعلان کیا۔تاریخ میں اس کوایک سال طویل چلی کسانوں کی تحریک کی عظیم الشان جیت کے طور پر یاد کیا جائےگا۔

ابھی تک مرکزی حکومت کسانوں کی مانگوں کے سامنے بالکل بھی جھکنے کوتیار نہیں تھی اور خود نریندر مودی نے کہیں اور نہیں پارلیامنٹ میں احتجاج کر رہے کسانوں کو توہین آمیز طریقےسے‘آندولن جیوی’ کہا تھا۔ بی جے پی مشینری نے کسانوں کی تحریک کو‘خالصتانی علیحدگی پسندوں کی قیادت میں دہشت گرد گروپوں کی مالی اعانت سے چلنے والی تحریک’کے طور پر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔

لیکن کسان ان سب کے بیچ تینوں قوانین جو ان کے حساب سے کارپوریٹ حامی اور کسان مخالف تھے کو پوری طرح سے رد کرنے کی اپنی  مانگ کےحق  میں ڈٹےرہے۔

مرکزی حکومت کے دعوے کے برعکس کہ ان قوانین کو پاس کرنے سے پہلے کسانوں سے مشورہ لیا گیاتھا، کسانوں نے لوگوں کو یہ یاد دلایا کہ یہ قانون سب سے پہلے جون، 2020 میں آرڈیننس کی شکل میں لائے گئے تھے، جو ان کے حساب سے ان قوانین کو چور دروازے سے ان پر تھوپنے جیسا تھا۔

بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے تحریک کے ہرمرحلے میں اس کو کچلنے کی کوشش کی۔ سب سے زیادہ دل دہلا دینے والامعاملہ لکھیم پور کھیری، اتر پردیش میں پیش آیاجہاں گاڑیوں کے قافلے نے کسانوں کو کچل دیا۔ اس معاملے میں مبینہ طور پر وزیر مملکت برائے داخلہ اجئے مشرا کا بیٹا بھی شامل تھا۔

ان مظاہروں کے دوران 600 سے زیادہ کسانوں کی موت ہو گئی۔ کئی لوگوں پر سخت قوانین کے تحت مقدمے دائر کئے گئے۔ حکومت نے اپنی پولیس مشینری کا استعمال تحریک کومنتشر کرنے کے لیےکیا۔

دہلی کےسنگھو اور ٹکری بارڈر کو، جہاں کسانوں نے اپنا ڈیرہ جمایا تھا، اس کو عملی طور پر کھلے جیلوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔اس سال کی شروعات میں کسانوں کےیوم جمہوریہ کےپریڈ کے دوران پولیس نے کچھ کسان لیڈروں  پر طاقت کا استعمال کیا۔ لیکن ان سب کے باوجود کسان تحریک کو جاری رکھنے کے اپنےعزم پر قائم رہے۔

دسمبر 2020 میں سنگھو بارڈر پر کسان۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

ان کا عزم اتنا مضبوط تھا کہ یوم جمہوریہ کے پریڈ کے بعد دہلی کے غازی پور بارڈر پر بھارتیہ کسان یونین کے لیڈر راکیش ٹکیت پر کارروائی نےتحریک کوآب حیات دینے کام کیا اور اس نے مظاہروں کی آگ کو یوپی بھر میں پھیلا دیا، جہاں اگلے سال کی شروعات میں انتخاب ہونے والے ہیں۔

ان قوانین کورد کرنے کے وزیر اعظم کے فیصلے کا واضح اشارہ ہے کہ کسانوں کی تحریک نے مرکزی حکومت کو گھٹنے پر لا دیا ہے۔

پچھلے سات سالوں میں مودی حکومت کی امیج عوامی تحریکوں کو نظر اندازکرنے والی بن گئی ہے۔ یہاں تک کہ احتجاج کرنے والے گروپوں کی مانگوں کو سننے کو بھی حقارت کی نظر سے سے یا مضبوط اور فیصلہ کن ہونے کا دم بھرنے والی حکومت کی کمزوری کی علامت کے طور پر دیکھا گیا۔

مانگوں کو بالکل ان سنا کر دینے کے اس رویے نے مودی حکومت کو اکثر تاناشاہی فیصلے لینے کی طرف دھکیلنے کام کیا ہے۔ دوسری طرف اپنی شروعات کے بعد سے کسانوں کی تحریک فطری طور پرفروغ پاتی  گئی۔

شروعات میں یہ تحریک پنجاب تک سمٹی ہوئی تھی۔ لیکن وقت کے ساتھ  اس کی توسیع ملک گیرتحریک کے طور پر ہو گئی، جس میں مختلف کسان گروہوں نے اپنے اختلافات کو پرے رکھتے ہوئے ایک مشترکہ محاذتیار کیا اور اس عمل میں کمیونٹی اوربرادری کے کئی تضادات دھندلے پڑ گئے۔ ہر بار جھٹکا کھانے کے بعد یہ تحریک اور مضبوط ہوکر ابھری۔

تمام ایجی ٹیشن سائٹس پر سنائی دینے والا ‘کسان ایکتا زندہ باد’ کا نعرہ بھی کئی کسانوں کے لیے ایک بلاوے جیسا تھا، جنہیں مظاہروں میں فعال طور پر شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا۔

پچھلے کچھ مہینوں میں کسانوں کی  اس تحریک نے آگے بڑھ کر بی جے پی کے پولرائزیشن کی ترکیبوں کے خلاف ایک سیاسی تحریک کی صورت اختیار کر لی۔

اس نے مغربی اتر پردیش میں جاٹوں اور مسلمانوں کے بیچ کشیدگی پر مرہم لگانے کا کام کیا 2013 کے مظفرنگر دنگوں کے بعد دونوں کمیونٹی کے بیچ درار آ گئی تھی۔

اس سے پہلے کسان لیڈروں نے مغربی  بنگال میں بی جے پی کے خلاف بڑے پیمانے پر پرچار کیا اورصوبے میں ہوائی قلعے بنا رہے بھگوا دل کی توہین آمیز شکست میں ایک اہم رول  نبھایا۔ ایسے کئی واقعات سامنے آئے، جن میں لوگوں نے بی جے پی لیڈروں کو اپنے گاؤں میں پرچار تک کرنے نہیں دیا۔ اس تحریک کی وجہ سےکئی صوبوں میں نچلی سطح کےکئی لیڈربی جے پی سے نکل کر دوسری پارٹیوں میں بھی شامل ہو گئے ۔

ہر پہلو سے اس تحریک نے ایک مثال پیش کی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر سماج کو پولرائز کرنے کی سیاسی پارٹیوں کی کوششوں کو ناکام کرنے کا راستہ دکھانے کا کام کیا۔

مظفرنگر دنگوں کے بعد جاٹوں اور مسلمانوں کے بیچ رنجش کا مکمل فائدہ بی جے پی کو پہنچا تھا۔ ہریانہ میں بالادستی والے جاٹوں کے خلاف چھوٹے طبقوں کو کھڑا کیا۔اس کے لیےپولرائزیشن کی انہی خاردار ترکیبوں کو کام میں لایا گیا،انتخاب جیتنے کے لیے جن کا استعمال بی جے پی زیادہ تر صوبوں میں کرتی ہے۔

کسانوں کی تحریک کے لیے ہر ممکن  طریقے سے ہتک آمیز رویہ دکھانے کے بعد تینوں متنازعہ قوانین کو واپس کرنے کا اعلان بھی اسی طرح سے توہین آمیز نظر آیا۔ تحریک کو کچلنے کی تمام کوششوں کے باوجود وزیر اعظم نے کسانوں کی مدد کرنے کے لیے‘ہرممکن قدم اٹھانے’کی بات کی۔

انہوں نے کسانوں کی بہبود کے لیےحکومت کے عزم کا ذکر کیا، لیکن قانون کو رد کرتے ہوئے کسانوں کو ‘سچائی سمجھا پانے میں’ ناکام رہنے کی بھی بات کی۔

ان کا فیصلہ ہندوستان  کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے اتر پردیش اور پنجاب میں ہونے والے بےحد اہم اسمبلی انتخابات سے بس کچھ مہینے پہلے آیا ہے۔ اتر پردیش میں بی جے پی دوبارہ اقتدارمیں آنے کے لیے زور آزمائش کر رہی ہے، وہیں پنجاب میں اس نے کسانوں کی تحریک کے درمیان اپنا سب سے بھروسےمند ساتھی شرومنی اکالی دل بادل کو کھو دیا ہے۔

دونوں ہی صوبوں میں پارٹی کی ڈگر مشکل نظر آ رہی ہے، ایسے میں ان قوانین کو رد کرنے کا مودی کا فیصلہ صرف انتخابی نفع نقصان کے حساب سے متاثر نظر آتا ہے۔

دونوں ہی صوبوں میں اپوزیشن نے بی جے پی کے خلاف غصے کی لہر پر سوار ہوکر اپنی حالت مضبوط کر لی ہے۔ کئی انتخابی سروے میں مغربی اتر پردیش میں بی جے پی کو ہو رہے بھاری نقصان کی بات سامنے آئی ہے جو اس کا سب سے مضبوط گڑھ ہے۔

اسی طرح سے مودی کے قدم نے پنجاب میں ایک بار پھر بی جے پی شرومنی اکالی دل کے ساتھ یا کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کے ساتھ اتحاد کے دروازے کو کھول دیا ہے۔ امریندر سنگھ نے کہا تھا کہ اگر مرکزی حکومت کسانوں کے مدعے کا حل کر دیتی ہے تو وہ بی جے پی کے ساتھ انتخاب سے قبل اتحادکے لیے تیار ہیں۔

مودی کا فیصلہ آنے والے انتخابات میں بی جے پی کو تھوڑا فائدہ ضرور پہنچائےگا۔ اس کا مقصد پارٹی کو ہو رہے نقصان کو بڑھنے سے روکنا ہے۔

انہوں نے اپنے فیصلے کو گرونانک کے یوم پیدائش کے موقع پر کسانوں کو تحفے کے طور پر بھلے پیش کیا ہو، لیکن یہاں اس بات کو نہیں بھلایا جا سکتا ہے کہ کسانوں کی تحریک انہیں یہاں تک لےکر آئی، جہاں سے وہ کوئی دوسرا فیصلہ نہیں لے سکتے تھے۔ اس حساب سے دیکھیں تو کسانوں کی تحریک کی جیت، پچھلے سات سالوں میں مودی حکومت کی پہلی حقیقی شکست کے کے طور پر بھی آئی ہے۔

 (اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)