بی جے پی نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کو لے کر کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت پر حملہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی، حالانکہ اس نے اقتدار میں آتے ہی پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں کو کم کرنے کا اپنا وعدہ پورا نہیں کیا اور اس کے لیے بین الاقوامی عوامل کو ذمہ دار ٹھہرانے لگی ۔
نئی دہلی: مئی 2012 میں وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے اس وقت کی حکومت کی طرف سے ایندھن کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کو کانگریس کی قیادت والی یو پی اے کی ناکامی کی سب سے بڑی مثال کے طور پر پیش کیا تھا۔
بی جے پی اور اس کے لیڈروں نے منموہن سنگھ حکومت پر حملہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ انہوں نے وعدہ کیا تھاکہ اگر بی جے پی اقتدار میں آتی ہے تو ایندھن کی قیمتوں میں کمی لائیں گے۔
برسوں بعد، اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھنا شہریوں کے لیے صرف ایک دور کا خواب لگتا ہے کیونکہ مودی حکومت نے ایندھن کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کردیاہے۔
2014 کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی کی طرف سے جاری کیا گیا ایک پوسٹر۔ (فائل فوٹو ، بہ شکریہ: بھارتیہ جنتا پارٹی)
گزشتہ دس دنوں میں نو بار ملک میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بدھ 30 مارچ کو پٹرول کی قیمت میں 80 پیسے کا اضافہ ہوا۔ اس طرح ایک ہفتے کے دوران پٹرول کی قیمت میں 5.60 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ دہلی میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت اب 101.01 روپے ہے۔
گزشتہ ایک ہفتے میں ڈیزل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ دہلی میں ایک لیٹر ڈیزل کی قیمت اب 92.27 روپے ہے۔
کھانا پکانے والی گیس کی قیمت میں بھی 50 روپے کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ قومی راجدھانی میں 14.2 کلوگرام وزن کےغیر سبسڈی والے سلنڈر کی قیمت اب 949.50 روپے ہوگی۔
جیسا کہ کئی عالمی تنظیموں اور اپوزیشن جماعتوں نے
پیش گوئی کی تھی کہ پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے بعد پٹرول، ڈیزل اور کھانا پکانے والی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا جائے گا، اور ٹھیک ایسا ہی ہوا۔ انتخابی موسم میں ایندھن کی قیمتیں تقریباً ساڑھے چار ماہ تک مستحکم رہیں۔
انتخابات کے پانچویں مرحلے سے پہلے کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے 5 مارچ کو ٹوئٹ کیا تھا، اپنی پٹرول ٹنکیاں بھروالیں۔ مودی حکومت کی ‘انتخابی’ پیشکش (آفر)ختم ہونے والی ہے۔
یہ سمجھاتے ہوئے کہ ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کیسے بی جے پی کی انتخابی سیاست سے جڑا ہوا ہے، شیوسینا کی راجیہ سبھا ایم پی پرینکا چترویدی نے حال ہی میں ٹوئٹر پر لکھاتھا، الیکشن کمیشن سے گزارش ہے کہ برائے مہربانی آئندہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات کا شیڈول فوراً اعلان کریں۔ اس سے ایندھن کی قیمتیں خود بخود ریگولیشن موڈ سے نکل کر قابو میں آجائیں گی اور ہندوستانیوں کو بڑھتی ہوئی قیمتوں سے راحت دلائیں۔ الیکشن = ایندھن کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں۔
سال 2014 سے پہلے اور بعد میں ایندھن کی قیمتوں پر بی جے پی کا موقف
سال 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے پر بی جے پی کا بیان۔
اپوزیشن میں رہتے ہوئے بی جے پی نے قیمتوں میں اضافے، بالخصوص ایندھن کے معاملے پر حکومت پر حملہ کرنے کا موقع کبھی نہیں چھوڑا، اور کانگریس کے خلاف اس مسئلے کو اپنا اہم ہتھیار بنالیا تھا۔
نمونے کے طور پر 2014 میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے بی جے پی اور اس کے رہنماؤں کے ان بیانات پر نظر ڈالیں:
وزیر اعظم بننے سے پہلے ایندھن کی بڑھتی قیمتوں پر نریندر مودی کا بیان۔
تاہم، اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر لگام نہیں لگا پائی ہے۔ ‘حکومت کی ناکامی’ کے بجائے پارٹی اب ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے لیے ‘تیل کے عالمی بہاؤ میں آئی رکاوٹوں’ کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے۔
2014 میں نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے پر بی جے پی کا بیان۔
ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر حکومت کے دفاع میں وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو تک کی حکومت کو اپنے دفاع میں پیش کیا۔
اس معاملے پر
سیتارمن نے لوک سبھا میں کہا، 1951 میں بھی پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا تھا کہ کوریا کی جنگ نے ہندوستانی مہنگائی کو متاثر کیا ہے…لیکن اگر آج عالمی سطح پر جڑی ہوئی دنیا میں ہم یہ کہیں کہ یوکرین (جنگ) ہم پر اثر انداز ہو رہا ہے، تو اسے قبول نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے
کہا،ہم اضافی بوجھ نہیں لائے۔ عالمی حالات، جنگ جیسی صورتحال وہ وقت نہیں جب ہم مقابلے کی طرف دیکھیں۔ اس کا الیکشن کے وقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر تیل بازار کمپنیاں یہ سوچتی ہیں کہ وہ 15 دن کی اوسط سے زیادہ نرخوں پر خریداری کر رہی ہیں تو ظاہر ہے کہ ہمیں زیادہ قیمتوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
جہاں ایک طرف بڑھتی ہوئی قیمتوں پر خاموشی ہے وہیں دوسری طرف بی جے پی لیڈران وقتاً فوقتاً آسمان چھوتی قیمتوں کی وجہ بتاتے ہوئے کٹھ دلیلی پیش کر رہے ہیں۔
اکتوبر 2021 میں تنازعہ کو ہوا دیتے ہوئے اس وقت کے پٹرولیم اور قدرتی گیس کے مرکزی وزیر رامیشور تیلی نے کہا کہ حکومت کو کووڈویکسین فراہم کرانے میں مدد کرنے کے لیےمتوسط طبقے کو بڑی قیمتوں کی تکلیف برداشت کرنی چاہیے۔
تیلی نے کہا،تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوا ہے لیکن اس میں لگایا گیا ٹیکس بھی شامل ہے۔مفت میں ویکسین تو آپ نے لگوایا ہی ہوگا، اس کےپیسے کہاں سے آئیں گے؟ آپ نے پیسے ادا نہیں کیے، اب اس طرح وصول کیے جا رہے ہیں۔
درحقیقت بی جے پی کے کئی مرکزی اور ریاستی وزیروں کی جانب سےبنا کسی شرم کے اس طرح کا تاثر دیا جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے نوٹ بندی کے بعد کیاتھا، جس نے کروڑوں ہندوستانیوں کو پریشانیوں میں دھکیل دیا تھا،جس کا مقابلہ کرنابہت مشکل تھا۔
ایندھن کی قیمتوں کی وضاحت کے لیے بی جے پی کے دفاع میں ایک اور دلیل پیش کی جاتی ہے کہ کانگریس کی پچھلی حکومت نے ملک کے مالی حالات کو اس قدر خراب حالت میں چھوڑا تھا کہ موجودہ حکومت کے پاس پٹرول اور ڈیزل پر زیادہ ٹیکس لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
اگرچہ مودی حکومت ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے لیے بین الاقوامی حالات کو ذمہ دار ٹھہرا سکتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی حکومت بین الاقوامی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتیں اب تک کی کم ترین سطح پرآنے کے باوجود ٹیکس وصولی کی اعلیٰ شرح کو بنائے ہوئی تھی۔
مئی 2014 میں، جب یو پی اے حکومت نہیں رہی اور مودی نے اقتدار سنبھالا، تو ہندوستانی بازار میں خام تیل کی قیمت 113 ڈالر فی بیرل تھی۔
تاہم، جنوری 2015 کے چھ ماہ کے اندر خام تیل کی قیمتیں 50 ڈالر فی بیرل تک گر گئیں۔ جنوری 2016 میں، وہ29 ڈالر فی بیرل پر تھیں۔
لیکن مودی حکومت نے صارفین کو راحت دینے کے لیے قیمتوں میں کمی نہیں کی۔ اس کے برعکس اس نے
سب سے زیادہ ٹیکس لگادیا۔
اندازوں کے مطابق، مئی 2014 سے ستمبر 2017 کے درمیان اور اس کے بعد کے سالوں میں بھی پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی میں 12 بار اضافہ کیا گیا۔
مارچ اور مئی 2020 کے درمیان جب کووڈ-19 کی وبا نے بہت سے لوگوں کو غربت کی طرف دھکیل دیا، تب مودی حکومت نے مارچ اور مئی 2020 کے درمیان پٹرول پر 13 روپے اور ڈیزل پر 15 روپے فی لیٹر
ایکسائز ڈیوٹی بڑھا دی تھی۔ درحقیقت، وبائی امراض کے دوران اپریل 2020 میں ہندوستانی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 19 ڈالر فی بیرل تھی۔
اگرچہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو بین الاقوامی حالات کی بنیاد پر اپنی قیمتیں طے کرنے کی اجازت ہے، لیکن قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے لگائے جانے والے ٹیکس ہیں۔
(جانکاری کے مطابق 2010 میں منموہن سنگھ حکومت نے تیل کمپنیوں کو پٹرول کی قیمت مقرر کرنے کی آزادی دی تھی اور پٹرول کو حکومتی کنٹرول سے آزاد کر دیا تھا، پھر مودی حکومت نے 2015 میں ڈیزل کی قیمتوں کو حکومتی کنٹرول سے آزادکربازار کے حوالے کر دیا تھا۔)
مثال کے طور پر، دہلی میں ایک صارف 100 روپے کے پٹرول پر 45.3 روپے ادا کرتا ہے، جس میں مرکزی ٹیکس کے طور پر 29 روپے اور ریاستی ٹیکس کے لیے 16.3 روپے شامل ہیں۔
اسٹیٹس آف انڈیا کے اعدادوشمار کے مطابق، مختلف ریاستوں میں 100 روپے پٹرول پر ٹیکس کی شرح مختلف ہے، مہاراشٹر میں 100 روپے کے پٹرول پر 52.5 روپے، آندھرا پردیش میں 52.4، تلنگانہ میں 51.6، راجستھان میں 50.8، مدھیہ پردیش میں 50.6 روپے ٹیکس، کیرالہ میں 50.2 اور بہار میں 50 روپے ٹیکس کے طور پر وصول کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔