آڈیو: وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کی طرف سے لائے گئے متنازعہ عدالتی اصلاحات کے خلاف اسرائیل میں ہو رہے مظاہروں کو وہاں کےسرکردہ فلمساز ڈینی بین –موشے ڈاکیومنٹری کی شکل میں درج کر رہے ہیں ۔ ان کے ساتھ بات چیت۔
سدھارتھ بھاٹیہ اور ڈینی بین–موشے۔
نئی دہلی: گزشتہ دنوں شہریوں نے بینجامن نیتن یاہو کی طرف سے لائے گئے متنازعہ
عدالتی اصلاحات کے خلاف اسرائیل میں بڑے
مظاہرے کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے عدالتوں کی آزادی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی اور ملک میں آمریت کا راج ہو گا۔
سرکردہ اسرائیلی فلمساز ڈینی بین–موشے ملک میں ہونے والے ان مظاہروں کی شوٹنگ کرکے ایک دستاویزی فلم بنا رہے ہیں۔ دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ بھاٹیہ کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا، اسرائیل میں اس سے زیادہ شدت پسند اتحاد کبھی نہیں ہوا۔ وہ ججوں کی تقرری کرنا چاہتے ہیں اور ان کے پاس قانون کو کچلنے کے اختیارات بھی ہیں۔ سپریم کورٹ کافی ایکٹوسٹ نما رہا ہے، اس لیے وہ اسے پسند نہیں کرتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ نیتن یاہو حکومت نے گزشتہ جنوری میں قانونی تبدیلیوں کا
اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایگزیکٹو اور عدالتی شاخوں کے درمیان توازن بحال کرنے کی ضرورت ہے اور یہ دعویٰ کیاتھا کہ جج بہت زیادہ مداخلت کرنے لگے ہیں۔
عدالتی اصلاحات حکومت کو ججوں کے انتخاب کا حق دے گی اور سپریم کورٹ کے قوانین کو ختم کرنے کے اختیارات کو محدود کر دے گی۔
قانون میں تبدیلی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ دائیں بازو کا حکمران اتحاد اسرائیل میں اختیارات کی علیحدگی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ملک کو آمریت کی طرف لے جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو خود بھی کرپشن کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ خود کو بچانے کے لیے عدالت گرانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ،صرف عوام ہی نہیں ، بلکہ ماہرین اقتصادیات نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر یہ تبدیلیاں کی گئیں تو کمپنیاں اسرائیل سے چلی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ہی ملٹری ریزروسٹ بھی احتجاج میں یہ کہتے ہوئے شامل ہو گئے ہیں کہ وہ آمریت کے لیے کام نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ اسرائیل کے لیے اقتصادی اور سلامتی کا بحران ہے۔
اس پوری بات چیت کو نیچے دیے گئے لنک پر سن سکتے ہیں۔