اترکاشی کی مسجد کے خلاف ہندوتوا گروپوں کی مہاپنچایت، ’لو اور لینڈ جہاد‘ کے خلاف متحد ہونے کی اپیل

06:49 PM Dec 03, 2024 | دی وائر اسٹاف

اتوار کو اترکاشی میں پولیس کی سخت سیکورٹی کے درمیان دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے منعقد مہاپنچایت نےشہر کی دہائیوں پرانی مسجد کے خلاف ضلع گیر احتجاج کے منصوبے کا اعلان کیا، ساتھ ہی ‘لینڈ جہاد’ سے نمٹنے کے لیے ‘بلڈوزر’ کے استعمال کی بات کہی گئی۔

اترکاشی میں ہندو مہاپنچایت۔ (تصویر بہ شکریہ: فیس بک/ سریش سنگھ چوہان)

نئی دہلی: اتراکھنڈکے اترکاشی میں اتوار کو پولیس کی سخت حفاظت کے درمیان ہندوتوا گروپوں کی جانب سے ایک مہاپنچایت کا انعقاد کیا گیا، جس کے دوران اتراکھنڈ شہر میں دہائیوں پرانی مسجد کے خلاف ضلع گیر احتجاج کے منصوبے کا اعلان کیا گیا، جس کے بارے میں  ان کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد غیر قانونی طور پر بنائی گئی ہے۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، مہاپنچایت کے مقررین نے ہندوؤں سے ‘لو جہاد اور لینڈ جہاد’ کے خلاف متحد ہو کر لڑنے کی اپیل کی اور ریاست میں ہونے والی آبادی کی تبدیلی پر تشویش کا اظہار کیا۔

اترکاشی ضلع انتظامیہ کی جانب سے گرین سگنل دینے کے بعد مہاپنچایت کا انعقاد کیا گیا تھا، حالانکہ کچھ دن پہلے اتراکھنڈ حکومت نے ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ اس تقریب کے لیے کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔ کیس کی اگلی سماعت 5 دسمبر کو ہوگی۔

مہاپنچایت کی اجازت کئی شرائط کے ساتھ دی گئی تھی، جس میں ہیٹ اسپیچ نہ دینے، ریلیاں نہ نکالنے، ٹریفک میں رکاوٹ نہ ڈالنے، مذہبی جذبات کونہ  بھڑکانے اور امن برقرار رکھنے کی با ت کہی گئی تھی۔

منتظمین نے کہا کہ پروگرام کے دوران تمام شرائط پر عمل کیا گیا۔

مہاپنچایت میں تلنگانہ کے بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ بھی شامل ہوئے، جو فرقہ وارانہ بیانات دینے کی وجہ سے تنازعات میں رہے ہیں۔ راجہ سنگھ نے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی سے اپیل کی  کہ وہ ‘لینڈ جہاد’ سے نمٹنے کے لیے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے تحریک لیں۔ سنگھ نے مشورہ دیا کہ دھامی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ‘بلڈوزر استعمال کرنے’ پر غور کریں۔

سنگھ نے کہا، ‘وزیر اعلیٰ دھامی کو یوگی آدتیہ ناتھ سے چائے پر چرچہ کرنی چاہیے۔ جس طرح یوگی جی اتر پردیش میں ‘لینڈ جہادیوں’ کو سبق سکھاتے ہیں، اسی طرح دھامی کو بھی بلڈوزر چلانا چاہیے۔ ہم جہادیوں کو اتراکھنڈ میں لینڈ جہاد میں شامل نہیں ہونے دیں گے۔ ملک بھر کے ہندو امید کر رہے ہیں کہ اتراکھنڈ کے لوگ ایک مثال قائم کریں گے۔’

انہوں نے ہندوؤں سے اپیل کی کہ وہ اس مسئلہ کے خلاف متحد ہوجائیں۔

وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے ریاستی صدر انج والیا نے مسجد کے خلاف ضلع گیر احتجاج اور ایک مہینے میں اترکاشی کے رام لیلا میدان میں ایک اور مہاپنچایت کے منصوبے کا اعلان کیا، جس میں پورے اتراکھنڈ سے ہندو کارکنوں سے شرکت کی اپیل کی گئی۔

والیا نے کہا، ‘یہ ہماری جدوجہد کا آغاز ہے۔ ہم ان کی زبان میں جواب دیں گے اور ان طاقتوں کو اتراکھنڈ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔’

اس موقع پر گنگوتری کے ایم ایل اے سریش سنگھ چوہان نے بھی اترکاشی میں گوشت اور شراب کی دکانوں پر پابندی لگانے کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے شہر کا مذہبی کردار محفوظ رہے گا۔

انہوں نے کہا، ‘کچھ لوگ اس مذہبی شہر کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہم انہیں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ اترکاشی میں بہت سے اہم مندر ہیں اور یہ ہمارے عقیدے کا مرکز ہے۔ اسے ایک حقیقی مذہبی شہر بنے رہنا چاہیے۔ یہاں گوشت، انڈے یا شراب کی کوئی دکان نہیں ہوگی۔’

انہوں نے کہا کہ جو لوگ طویل عرصے سے شہر میں رہ رہے ہیں اور مقامی جذبات کا احترام کرتے ہیں انہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اترکاشی میں مسلم کمیونٹی کے لوگوں نے اخبار کو بتایا کہ انہیں ایسی مہاپنچایت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بشرطیکہ وہاں نفرت، اشتعال یا تشدد کی بات نہ ہو۔ ان رہائشیوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی اورکہا کہ کمیونٹی اپنے حقوق اور مسجد کے لیے قانونی لڑائی جاری رکھے گی، جو قانونی طور پر تعمیر کی گئی ہے۔

اتوار کی مہاپنچایت کے منصوبے کو ابتدائی طور پر اجازت نہیں دی گئی تھی، اس وقت کے اترکاشی ایس پی امت سریواستو نے بدھ کو کہا تھا کہ اسے عوامی جگہ پر منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم، اسی دن سریواستو کا تبادلہ کر دیا گیا۔

گزشتہ 24 نومبر کو مہاپنچایت کو روکنے اور علاقے میں مناسب سیکورٹی کو یقینی بنانے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاست کو مسجد کے ارد گرد سخت سیکورٹی کو یقینی بنانے کی ہدایت دی تھی۔

درخواست گزاروں اقلیتی کمیٹی کے چیئرمین مشرف علی اور اشتیاق احمد نے مسجد اور مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنا کر دھمکیاں دینے اورنفرت انگیز مہم چلانے کا الزام لگایا تھا۔ ان کے مطابق، 1969 میں خریدی گئی زمین پر بنی اور 1987 میں وقف جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ مسجد پر کچھ گروپوں کی جانب سےغیر قانونی ہونے کے بے بنیاد الزامات لگائے گئے تھے۔

درخواست گزاروں نے الزام لگایا کہ 27 اگست کو ضلع مجسٹریٹ کے دفتر نے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت غلط معلومات فراہم کیں، جس میں کہا گیا تھا کہ مسجد کے نام پر کوئی نزول، فری ہولڈ یا لیز پر دی گئی جائیداد رجسٹرڈ نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 6 ستمبر کو اترکاشی میں ایک ریلی کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں غلط معلومات پھیلائی گئی تھی کہ مسجد سرکاری زمین پر ہے۔

سنیوکت سناتن دھرم رکشا سنگھ اور وی ایچ پی جیسے گروپوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین نے مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ کیا اور تقاریر کیں جنہیں عرضی گزاروں نے ہیٹ اسپیچ بتایا۔

غورطلب  ہے کہ یہ تنازعہ ستمبر میں شروع ہوا تھا، جب سنیوکت سناتن دھرم رکشا سنگھ اور وشو ہندو پریشد سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے کچھ لوگوں نے مبینہ طور پر مسجد کو منہدم کرنے کی دھمکی دی۔ اس سے شہر میں تناؤ پیدا ہوا، جو بالآخر پتھراؤ اور توڑ پھوڑ پر منتج ہوا ، جس کے نتیجے میں 24 اکتوبر کو قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے۔

مختلف گروہوں کے اتحاد سنیوکت سناتن دھرم رکشا سنگھ نے 9 ستمبر کو ڈی ایم مہربان سنگھ بشٹ کو ایک میمورنڈم پیش کیا، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ مسجد ریونیو ریکارڈ میں درج نہیں ہے اور اسے منہدم کیا جانا چاہیے۔

جواب میں، ڈی ایم نے دعووں کی تحقیقات کے لیے ایس ڈی ایم بھٹواری کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی۔ کمیٹی نے پایا کہ مسجد قانونی طور پر بنائی گئی تھی اور اس نے سرکاری اراضی پر قبضہ نہیں کیا تھا۔ تاہم، سنیوکت سناتن دھرم رکشک سنگھ نے کمیٹی کے نتائج کو مسترد کر دیا اور اصرار کیا کہ مسجد غیر قانونی ہے اور اسے منہدم کیا جانا چاہیے۔

گزشتہ 24 اکتوبر کو مسجد کے خلاف احتجاجی ریلی کے دوران ہاتھا پائی اور پتھراؤ میں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔