اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کےحتمی فیصلے کے انتظار میں متعدد طالبات نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ نہ تو کلاس جائیں گی اور نہ ہی پریکٹیکل امتحانات دیں گی۔ اب اس معاملے پر وزیر تعلیم بی سی ناگیش کا کہنا ہے کہ وہ غیر حاضر طالبات کے لیے دوبارہ امتحان نہیں لیں گے، طالبات اگر چاہیں تو سپلیمنٹری امتحانات میں شامل ہو سکتی ہیں۔
فوٹو بہ شکریہ: Twitter/@masood_manna)
نئی دہلی: کرناٹک میں حجاب تنازعہ کی وجہ سے جن طالبات کو حجاب کے باعث اسکول اور کالج میں داخل ہونے سے منع کردیا گیا تھا اور جس کی وجہ سے وہ اپنا امتحان نہیں دے پائی تھیں، ان کے بارے میں ریاستی حکومت کا کہنا ہےکہ ان طالبات کےلیےدوبارہ امتحانات نہیں ہوں گے۔
بتادیں کہ اس معاملے میں کرناٹک ہائی کورٹ کے حتمی فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے متعددطالبات نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ نہ تو کلاس جائیں گی اور نہ ہی اپنا پریکٹیکل امتحان دیں گی۔ انہیں امید تھی کہ عدالت ان کے حق میں فیصلہ دے گی۔
حالاں کہ عدالت کا حتمی فیصلہ اس کے عبوری فیصلے کی طرح ہی تھا، جس میں اس نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔
کرناٹک کے پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بی سی ناگیش نے
دی ہندو کو بتایا کہ ریاست میں کبھی بھی غیر حاضر طلبا کے لیےدوبارہ امتحان نہیں ہوا، پھر چاہے وجہ کچھ بھی ہو، اور ہم بھی اس شروعات نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا، ہم غیر حاضر لڑکیوں کے لیے دوبارہ امتحانات کروا کر کوئی نئی مثال قائم نہیں کریں گے۔ وہ سب کی طرح سپلیمنٹری امتحانات میں شرکت کر سکتی ہیں۔
غور طلب ہے کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے کرناٹک کے اُڈوپی ضلع کے ایک گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا جب پچھلے سال دسمبر میں حجاب پہنے چھ لڑکیاں ایک کلاس میں داخل ہوئیں اور انہیں کالج میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
ان کے ردعمل میں ہندو طالبعلم بھگوا اسکارف پہن کر کالج آنے لگے۔ رفتہ رفتہ یہ تنازعہ ریاست کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا، جس سے کئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پھیل گئی۔
اس تنازعہ کے درمیان ان چھ طالبعلموں میں سے ایک نے کرناٹک ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی گزارش کی گئی تھی۔
ہائی کورٹ نے اس سلسلے کی عرضیوں کو خارج کرتے ہوئے
حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔ اس وقت معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔