کارگل جنگ میں شامل رہے سابق فوجی افسر محمد ثناء اللہ نے کہاگر کسی مسلمان کو حراستی کیمپ میں نہیں بھیجا جا رہا ہے تو شاید میں بھی مسلمان نہیں ہوں۔
محمد ثناءاللہ (فوٹو بہ شکریہ: امن واڈوڈ / ٹوئٹر)
نئی دہلی: گزشتہ اتوار کو
وزیراعظم نریندر مودی نے رام لیلا میدان میں کہا تھا کہ ملک میں کوئی حراستی کیمپ نہیں ہے اور ابھی تک این آر سی پر کوئی بحث نہیں ہوئی ہے۔ مودی کے اس بیان کے بیچ کارگل ہیرو محمد ثناء اللہ نے سوال اٹھاتے ہوئی کہا کہ پھر وہ کون سی جگہ تھی جہاں مجھے اپنی زندگی کے 11 سب سے برے دن گزارنے پڑے۔
قابل ذکر ہے کہ کارگل جنگ میں شامل رہے
سابق فوجی افسر محمد ثناء اللہ کو غیر ملکی قرار دیاگیا تھا۔ اس کے بعد ان کو حراستی کیمپ بھیج دیا گیاتھا ۔پولیس نے یہ جانکاری دی تھی۔ہندوستانی فوج میں تقریباً30 سال تک اپنی خدمات دے چکے کام روپ ضلع کے بوکو پولیس تھانہ حلقہ کے گاؤں کولوہیکاش کے باشندہ محمد ثناء اللہ کو اسی ضلع میں قائم فارنرس ٹریبونل نے غیر ملکی قرار دیا تھا۔
غیر ملکی قرار دیے جانے کے بعد ثناءاللہ کو اہل خانہ سمیت گولپاڑا کے نظربندی کیمپ بھیجا گیا تھا۔ ان کا نام این آر سی میں نہیں ہے۔ٹریبونل نے 23 مئی کو جاری حکم میں کہا تھا کہ ثناء اللہ 25 مارچ 1971سے پہلے اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت دینے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ اس بات کا بھی ثبوت دینے میں ناکام رہے کہ وہ پیدائش سے ہی ہندوستانی شہری ہیں۔
حالانکہ کچھ دنوں بعد ان کو حراستی کیمپ سے رہا کر دیا گیا تھا۔ان کی فیملی نے فارین ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف گوہاٹی ہوئی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔
دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق،ثناء اللہ اس وقت مسکرا رہے تھے جب مودی کہہ رہے تھے کہ کوئی ملک کے مسلمانوں کو حراستی کیمپ میں نہیں بھیجا جا رہا ہے نہ ہندوستان میں کوئی حراستی کیمپ ہے۔انھوں نے دی ہندو کو بتایا کہ ‘اگر کسی مسلمان کو حراستی کیمپ میں نہیں بھیجا جا رہا ہے تو شاید میں بھی مسلمان نہیں ہوں’۔اسی طرح ایک بزرگ خاتون کو بھی غیر ملکی قرار دے کر حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا ،ان کو تین سال حراست میں رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔
وہیں کھوپ نکچی میں تقریباً40 کلومیٹر مغرب میں رہنے والے ریحات عالی نے مودی کے بیان پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ ‘وزیراعظم مودی صحیح کہہ رہے ہیں یہ کوئی حراستی کیمپ نہیں ہے جہنم ہے۔’بتا دیں کہ ریحات کو 13 مئی کو گوہاٹی ہائی کورٹ کے ذریعے ہندوستانی قرار دینے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔ان کے بیٹے لقمان نے کہا،’اب ایسا لگتا ہے کہ میرے والد کو پکنک پر بھیجا گیا تھا۔’
13 اکتوبر کو تیج پور حراستی کیمپ میں دو سال گزارنے کے بعد صحت سے متعلق وجوہات سے مرنے والے دُلال پال کی فیملی نے کہا کہ ایسے کیمپ اس ملک میں نہیں ہیں یہ بول کر ان کی موت کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ ان کے تین بیٹوں میں سے ایک نے کہا،’اگر کوئی حراستی کیمپ نہیں تو میرے والد کو غیر ملکی قرار دیے جانے کے بعد ان کو وہاں بھیجا بھی نہیں گیا ہوگا۔ ایسے میں حکومت کو ان کو واپس زندہ کرنا چاہیے۔’
وزیر اعظم
نریندر مودی نے گزشتہ اتوار کوہندوستان میں حراستی کیمپ بنائے جانے اور حراستی کیمپ بنانے کولےکر مرکز کے ذریعے مختلف ریاستوں کو بھیجی گئی ہدایات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں کہیں بھی ڈٹینشن سینٹر نہیں ہے۔مودی نے رام لیلا میدان سے کہا، ‘جو ہندوستان کی مٹی کےمسلمان ہیں، جن کے آباواجداد ماں بھارتی کی اولاد ہیں…ان پر شہریت قانون اوراین آر سی، دونوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ملک کے کسی مسلمان کو نہ ڈٹینشن سینٹر میں بھیجا جا رہا ہے، نہ ہندوستان میں کوئی ڈٹینشن سینٹر ہے۔ یہ سفید جھوٹ ہے، یہ بدنیتی والا کھیل ہے، یہ ناپاک کھیل ہے۔ ‘