ظفر کمالی: بچوں کی معصومیت کا تخلیقی صورت گر

’بچوں کا باغ‘ اور ’چہکاریں‘ کے بعد’حوصلوں کی اڑان‘ ادب اطفال میں ایک اضافہ ہی نہیں بلکہ ایک صحیح سمت کا سفر اور ایک نئی تخلیقی اڑان ہے۔

’بچوں کا باغ‘ اور ’چہکاریں‘ کے بعد’حوصلوں کی اڑان‘ ادب اطفال میں ایک اضافہ ہی نہیں بلکہ ایک صحیح سمت کا سفر اور ایک نئی تخلیقی اڑان ہے۔

ٖظفرکمالی اور ان کے شعری مجموعہ کا سرورق

ٖظفرکمالی اور ان کے شعری مجموعہ کا سرورق

حوصلوں کی اڑان کے لیے ظفر کمالی کو 2022 کا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ برائے ادب اطفال دیا گیا ہے۔ ادارہ

بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات (کہانیاں،نظمیں، غزلیں) کی تفہیم و تنقید،تحسین و تعیینِ قدر کے صرف دو ہی طریق کار ہو سکتے ہیں۔

الف ؛ بڑوں کے نظریے سے تخلیقات کے موضوعاتی، لسانی،اسلوبیاتی اور صوتیاتی برتاؤ پر بحث کی جائے اور نفسیات اطفال کی روشنی میں تخلیقات کی معنویت اور اہمیت کا پتا لگایا جائے۔

ب ؛ بچوں کی نظر سے نگارشات اطفال کا  جائزہ لیا جائے اور بچوں کی پسند نا پسند کو تخلیق کو پرکھنے کا پیمانہ بنایا جائے۔

میری نظر میں موخرالذکر طریق کار(ب) زیادہ مناسب ہے کیوں کہ ادب اطفال کے معتبر اور قابلِ اعتماد ناقد صرف اور صرف بچے ہی ہو سکتے ہیں۔ جن کے یہاں نہ نظریاتی کثافت اورآلودگی ہے اور نہ ہی گروہی طبقاتی تعصب۔ بچوں کی توتلی تنقید تملق اور تعصب سے پاک ہوتی ہے، اسی لیے بچے ہی بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات کا بہترین محاکمہ اور محاسبہ کر سکتے ہیں کہ مخاطب ہی کوصحیح معنی میں تخلیق کا منہج اور معیار متعین کرنے کا حق ہونا چاہیے۔

اسی لیے ادب اطفال کی تعیینِ قدر کے لیے قاری اساس تنقید کی طرح، طفل اساس تنقید زیادہ موزوں اور مناسب ہے۔بیشتر باشعور افراداس سے اتفاق کریں گے کہ صرف وہی نظمیں اور کہانیاں زندہ رہیں گی جن پر بچوں کی پسند کی مہر ثبت ہو گی۔

بڑے بڑے نقادانِ فن چاہے کسی کی نظموں اور کہانیوں کو بلند پایہ اعلیٰ و ارفع قرار دے دیں مگر جب تک بچوں کی پسند کے معیار پر وہ نہیں اتریں گی تب تک ان نظموں اور کہانیوں کو زندگی و تابندگی نصیب نہیں ہوگی۔ آج بھی صرف وہی نظمیں زبان زد ہیں جنہیں بچوں کے ذہن اور زبان نے زندگی عطا کی ہے۔

علامہ اقبال کی’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدا یا میری’ یا   ‘سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا’ اسی لیے ذہنوں میں زندہ ہیں کہ انھیں ننھے منھے معصوم بچوں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح مولوی محمد اسماعیل میرٹھی کی کچھ نظمیں آج بھی تابندہ ہیں کیوں کہ بچوں کے ذہن اور ذوق سے وہ مناسبت رکھتی ہیں۔

‘رب کا شکر ادا کر بھائی/ جس نے ہماری گائے بنائی’ ٹکنالوجی کی ترقی کے باوجود، راکٹ اور روبوٹ کی موجودگی میں بھی بچوں کے ذہن میں گائے اور گلہری،کوّا اور کتّا، طوطا اور گوریا زندہ ہیں جب کہ ڈیجیٹل ایج میں بچوں کی نفسیات بدل چکی ہے اور ذہنی ترجیحات بھی تبدیل ہو چکی ہیں اور نئے عہد میں بچوں کا ایک نیا ذہن اور وژن بھی تشکیل پا چکا ہے۔

آج کے بچے جن اور پریوں کے بجائے ڈزنی،باربی اور رینجرز میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ صارفیت نے بھی بچوں کی ذہنیت تبدیل کر دی ہے اور ان سے وہ معصومیت بھی چھین لی ہے جو ان کی شناخت ہوا کرتی تھی۔ سائنس،ٹیکنالوجی نے ہماری بہت سی قدریں بدل دی ہیں مگر بنیادی انسانی جذبات و احساسات وہی ہیں اسی لیے بچوں کا رشتہ ان فطری مناظر سے نہیں ٹوٹا ہے جو ان کے ذہن میں تحیر اور تجسس کی کیفیت پیدا کرتےہیں۔

بچوں کے تحت الشعور میں کچھ تبدیلی ضرور آئی ہے اور ان کی بیانیہ فنتاسی بھی کچھ بدل گئی ہے اور ان کے ذہنوں میں کچھ نئے بیانیے بھی تشکیل پا رہے ہیں لیکن الف لیلہ کا سند باد،اِلہ دین کا چراغ،علی بابا اور دیگر کلاسکی نظمیں اور کہانیاں ان کے ذہنوں سے رشتہ جوڑے ہوئے ہیں۔

§§§

ظفر کمالی کی نظموں کواگر بچے کی نظر سے دیکھا جائے تو صرف وہی نظمیں قابل قبول ٹھہریں گی جن میں بچوں کے جذبات،ان کے خواب اور خواہشات کی مکمل ترجمانی ہوگی اور جن میں بچوں کو متاثر کرنے والے صوتی اثرات بھی ہوں گے۔ اس ناحیے سے دیکھا جائے تو ظفر کمالی کی نظم ‘چک بم چک بم’ بچوں کی پہلی پسند ہو گی کیوں کہ ‘چک بم’ میں جو صوتی اثرات ہیں وہ بچوں کی سماعت اور ذہن کو متاثر کرتے ہیں۔

یہ نظم اسی طرح کی ہے جیسے بچوں کے معروف ادیب صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی نظمیں ٹر ٹر، ٹمک ٹم، چی چوں چاچاوغیرہ ہیں۔ ان نظموں میں جو موسیقیت اورنغمگی ہے وہ بچوں کو بہت متاثر کرتی ہے۔ بچوں کے لفظوں اور آوازوں میں اگر نظم لکھی جائے تو وہ زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے۔ ظفر کمالی کی نظم کا ایک بند دیکھئے:

محنت ہم کو پیاری ہے

اس سے ہم کو یاری ہے

خوابوں کی بیداری ہے

آگے بڑھنا جاری ہے

چک بم چک بم چک بم بم

اچھے سچے بچے ہم

اسی طرح بچو ں کو بچپن سے مناسبت رکھنے والی نظمیں بہت پسند آئیں گی جن میں ان کی شوخیوں اور شرارتوں کا بیان ہوگا یا جن میں بچپن سے جڑے ہوئے رشتوں ماں باپ،دادا دادی، نانا نانی،آپا باجی کی باتیں ہوں گی۔ رشتوں کی نظمیں بچوں کے ذہن کو اس سلسلہ سے جوڑتی ہیں جو بچپن سے لے کر بوڑھاپے تک  دکھ درد، خوشی اور غم کی صورت میں جاری رہتا ہے۔

ایسی ہی نظمیں احساس کے رشتوں کو زندہ رکھتی ہیں اور بچوں کو اپنے خاندان سے جوڑتی ہیں۔ ظفر کمالی کے شعری مجموعہ (حوصلوں کی اڑان) میں اس نوع کی کئی نظمیں ہیں۔ دادا پوتے کی دوستی، ماں باپ کی محبت، آئس کریم کھائیں۔ بچوں کے لیے ماں باپ کا رشتہ سب سے عظیم ہوتا ہے اور یہ وہ اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ اس رشتے کی معنویت ظفر کمالی کی اس نظم میں ملاحظہ فرمایئے:

مشقت سے انھوں نے ہم کو پالا

ہمیں بخشا محبت کا اجالا

کھلا یا اپنے ہاتھوں سے نوالا

کہیں بھی لڑکھڑائے تو سنبھالا

محبت باپ ماں سے ہم کریں گے

اس نظم میں انھوں نے Anaphoraکی ٹیکنیک بھی استعمال کی ہے جس سے نظم کا تاثر اور بڑھ گیا ہے۔

انھیں سمجھیں گے ہم رحمت خدا کی

انھیں سمجھیں گے ہم نصرت خدا کی

انھیں سمجھیں گے ہم نعمت خدا کی

انھیں سمجھیں گے ہم جنت خدا کی

محبت باپ ماں سے ہم کریں گے

(ماں پاب کی محبت)

‘انھیں سمجھیں گے’ کی صوتی تکرار / رحمت،نصرت،نعمت، جنت کی صوتی تجنیس کی وجہ سے سماعت پر یہ نظم بہت اچھا اثر مرتب کرتی ہے۔

دادا سے پوتے کا رشتہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔اس تعلق سے یہ نظم دیکھیے کہ اس میں رشتے کی کتنی خوب صورت عکاسی کی گئی ہے ؛

عینک پہن کے دادا کی وہ کھل کھلاتے ہیں

دادا بھی دل ہی دل میں بہت مسکراتے ہیں

مچلیں کبھی کہ مجھ کو ہوا میں اڑایئے

اچھلیں کبھی کہ میرے لیے چاند لایئے

ضد پر کبھی اڑیں کہ ٹب میں نہاؤں گا

خرگوش کو میں آپ کی چادر اڑھاؤں گا

بلّی کی دم پکڑنے کی خواہش کبھی کریں

بکریں پہ بیٹھنے کی کاوش کبھی کریں

(دادا پوتے کی دوستی)

موضوعی اور صوتی اعتبار سے بھی یہ نظم بہت خوب صورت ہے۔ بچوں کے مزاج اور ان کی فنتاسی کی بہت ہی عمدہ ترجمانی کی گئی ہے۔ اسی نوع کی ایک نظم اور ہے:

امّی کو ہم ہنسائیں آئس کریم کھائیں

لیتے رہیں دعائیں آئس کریم کھائیں

موسم ہے گرم دادی بٹوا تیرا کدھر ہے

گرمی کو ہم بھگائیں آئس کریم کھائیں

باجی ہو تم ہماری دو روپیے ہمیں دو

جاکر خرید لائیں آئس کریم کھائیں

بھیّا تم ہی بتاؤ ہم تو ہیں چھوٹے بچے

کیسے ابھی کمائیں آئس کریم کھائیں

چاچو سکھا رہے ہیں،مامو ں کہو گدھے کو

یہ کام کر دکھائیں آئس کریم کھائیں

(آئس کریم کھائیں)

اس نظم میں جذباتی رشتوں کی ایک کہکشاں ہے۔ امّی ابّو، دادا دادی، بھیّا باجی یہ سب کردار نظم میں موجود ہیں اور ان کرداروں کی وجہ سے نظم میں ایک جذباتی  کیفیت پیدا ہو گئی ہے کیوں کہ بچوں کی دنیا ان ہی رشتوں سے آباد رہتی ہے اور یہی رشتے بچوں کو ہمت و حوصلہ کے ساتھ ساتھ ان کے خوابوں کو پروازبھی عطا کرتے ہیں۔

بچوں کو جانوروں سے بھی بہت دل چسپی ہوتی ہے اس لیے بچے  جانوروں سے،متعلق نظمیں اور کہانیاں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ بچوں کے دل چسپ حیوانی کردار میں بلّی، کتّا، شیر اور بکری وغیرہ ہیں یہی وجہ ہے کہ ادب اطفال کے شعرا نے جانوروں پر نظمیں کہی ہیں اور حیوانات کو کردار بنا کر کہانی کاروں نے کہانیاں بھی لکھی ہیں۔

ظفر کمالی کے یہاں بھی اس نوع کی کئی نظمیں ملتی ہیں۔بلّی، میرا بکرا، گوریا رانی، بیمار چوہیا جیسی کئی نظمیں اس شعری مجموعہ میں ہیں۔

ہلکی پھلکی اور مزاح کی چاشنی لیے ہوئے تفریحی نظمیں بھی بچوں کو بہت پسند آتی ہیں۔اس طرح کی نظمیں بچو ں کو حظ و انبساط عطا کرتی ہیں اور اس ذہنی دباؤ سے بھی بچا تی ہیں جس کی وجہ سے بچے منفی ذہنیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تھوڑی سی شرارت، تھوڑی سی شوخی بچوں کے ذہن کو تازگی اور فرحت عطا کرتی ہے۔ اب یہ نظم دیکھیے؛

الہٰی مجھے ایسا لڑکا بنا دے

جو سارے بزرگوں کے چھّکے چھڑا دے

بنا تے ہیں جو روز انہ مجھ کو جو مرغا

الہٰی انھیں تو بھی مرغا بنا دے

خدا یا بہت کھا چکا میں پٹائی

پٹائی کے صدقے مٹھائی کھلادے

اگر سا ل بھر میں نہ کھولوں کتابیں

نہ کر فیل تو پاس مجھ کو کرا دے

 بچوں کی پسند میں اختصار، ترنم،تنوع،تحیر اور تجسس ترجیحی حیثیت رکھتے ہیں۔بچے وہ نظمیں زیادہ پسند کرتے ہیں جو سوچ کے نئے دروازے کھولتے ہیں،جو بچوں میں جذبہ اور جوش پیدا کر سکیں، جن نظموں سے ان کی پرواز کو نئے جہان اور حوصلوں کو نئی اڑان مل سکے۔

بچوں کو وہ نظمیں بھی بھلی لگتی ہیں جن کو زبانی یاد کرنے میں آسانی ہو حفظ کنی یا میمورائزیشن بھی بچوں کی نظموں کی پسندیدگی کا ایک معیار ہے۔ اکثر وہ نظمیں جو بہت طویل ہوتی ہیں وہ بچوں کے لوح حافظہ سے غائب ہو جاتی ہیں۔

بچوں کے ذہن کی خالی تختیوں پر ہر نظم نقش نہیں ہو پاتی، صرف وہی نظمیں لوحِ ذہن پر محفوظ رہتی ہیں جو مختصر ہوں اور جن کی حفظ کنی دشوار نہ ہو۔ ظفر کمالی کے یہاں ترنم بھی ہے،تنوع بھی ہے مگر ان کی نظمیں طویل ہوتی ہیں اس لیے شاید بچوں کے لیے یاد کرنا آسان نا ہو۔اگر وہ اختصار سے کام لیں تو ان کی نظموں میں ایسی مقناطیسی کیفیت ہے کہ بچے انھیں اپنے حافظے کا حصہ بنانا پسند کریں گے۔

§§§

ادب اطفال کی تعیینِ قدر میں اول الذکر طریق کار شاید زیادہ مفید نہیں کہ اردو میں ابھی تک ادب اطفال کی پرکھ اور پہچان کا کوئی مضبوط پیمانہ نہیں ہے۔ صرف تحسینی اور تشریحی نوعیت کی تنقید ہی سامنے آئی ہے۔بہت سے اہم مباحث ادب اطفال کے ڈسکورس کا حصہ نہیں بن سکے ہیں جس کی وجہ سے ادب اطفال کی تنقید کوئی واضح صورت اختیار کرنے میں ناکام رہی۔

اس معاملے میں انگریزی زبان و ادب کے ماہرین اطفال کا رویہ زیادہ قابل تحسین و ستائش ہے کہ انھوں نے ادب اطفال کا نہایت معروضی،منطقی اور سائنٹفک انداز میں تجزیہ کا طریق کار اختیار کیا ہے اور مواد اور موضوع کے علاوہ ادب اطفال کے لسانیاتی،اسلوبیاتی اور صوتیاتی تجزیے کی صورت بھی نکالی ہے اور وہ تمام تنقیدی طریق کار اختیار کیے گئے ہیں جو بڑوں کی نگارشات کے تجزئے اور تحلیل میں استعمال کیے جاتے ہیں۔

وہاں ادب اطفال کا جائزہ آئیڈیا لوجی،سیاست، ثقافت کی روشنی میں بھی لیا جاتا ہے۔ بچوں کے لیے لکھے گئے شعری اور افسانوی متون کا مطالعہ بھی اعلیٰ تنقیدی معیار سے کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ انگریزی میں ادب اطفال کے بہترین تنقیدی مطالعات سامنے آئے ہیں اور ان سے ادب اطفال سے وابستہ قلمکاروں کوبھی نئی روشنی اور رہنمائی ملی ہے۔

پیٹر ہنٹ نے انڈر اسٹینڈنگ چلڈرینس لٹریچر کے عنوان سے کتاب مرتب کی ہے جس میں چودہ مضامین ہیں اور ان میں مختلف زاویوں سے ادب اطفال کے مباحث کو سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس نوع کی اور بھی کتابیں انگریزی میں موجود ہیں جن میں ادب اطفال پر نہایت سنجیدگی سے بحث کی گئی ہے مگر اردو میں ایسی کوئی تنقیدی کتاب نہیں ہے جس میں اس طرح کے مباحث شامل ہوں جن میں بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات کا ہمہ پہلوناقدانہ تجزیہ کیا گیا ہو۔ اردو میں ادب اطفال کی تنقید کے ضمن میں صرف سر سری نوعیت کی تحریریں ملتی ہیں جن سے تخلیقات کے تمام زاویے سامنے نہیں آسکتے۔

ظفر کمالی کی نظموں کا اگر بڑوں کے نظریے سے جائزہ لیا جائے تو اس میں کئی اہم مباحث اور سوالات شامل کیے جاسکتے ہیں۔ ان میں  ایک اہم بحث یہ ہے کہ کیا جن موضوعات کو ظفر کمالی نے بیان کیا ہے۔ ان موضوعات کی آج کے عہد میں کوئی معنویت یا اہمیت ہے؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ وہی پرانے موضوعات تو نہیں ہیں جن پر پہلے کے شعرا لکھ چکے ہیں؟ تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا کائنات کی جن اشیا سے یہ نظمیں متعارف کراتی ہیں کیا بچے ان سے پہلے ہی متعارف ہیں اور یہ بھی کہ کیا متعارف ہونا انھیں پسند بھی ہے یا نہیں؟

ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا یہ شاعری بچوں کو لفظوں کی نئی کائنات اور معانی کے نئے جہاں سے رو برو کراتی ہے؟ کیا یہ شاعری بچوں کی قوت ادراک اور قوت مشاہدہ میں اضافہ کرتی ہے؟ اور یہ بھی ایک سوال ہے کہ شعری متون میں    جوثقافتی بیانیے پیش کیے جاتے ہیں کیا اس ثقافت سے بچوں کی ذہنی مناسبت ہے؟ اس نوع کے کئی اور سوالات بھی قائم کیے جا سکتے ہیں جن کی روشنی میں بچوں کے لیے لکھی گئی تخلیقات کو پرکھا جا سکتا ہے۔

ظفر کمالی نے بچوں کے لیے جن موضوعات کا انتخاب کیا ہے ان میں سے چند ہی ایسے ہیں جن میں نئے عہد میں کوئی معنویت تلاش کی جا سکتی ہے۔ ظفر کمالی نے جو ماحولیاتی نظمیں لکھی ہیں وہ اس اعتبار سے اہم ہیں کہ گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی بحران ہمارے عہد کا بہت ہی اہم مسئلہ ہے کیوں کہ اسی سے ہمارا وجود جڑا ہوا ہے۔

بڑھتی ہوئی کثافت اور آلودگی نے ہماری زندگی کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر دیے ہیں اس لیے ماحولیات آج کی شاعری کا ایک نہایت اہم موضوع ہے۔ خاص طور پر بچوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما اور نفسیاتی ارتقا میں ماحولیات کا بہت عمل دخل ہے اس لیے بچوں میں ماحولیاتی بیداری پیدا کرنے کے لیے ہر زبان میں شاعری کی گئی ہے اور قدرتی ذرائع کے تحفظ پر بھی زور دیا گیاہے۔

انگریزی میں ایسی ماحولیاتی شاعری کا ایک وافر ذخیرہ ہے جس میں فطرت اور ماحول کے رشتوں پر بہت ہی موثر انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے۔ اردو میں بھی ماحولیات پر مرکوز بے شمار نظمیں لکھی گئی ہیں اور ماحولیات پر مبنی شعری مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔انصار احمد معروفی، متین اچل پوری وغیرہ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ظفر کمالی نے بھی اس تعلق سے جو نظمیں کہی ہیں ان میں ’ہرے درخت اور پانی‘ قابل ذکر ہیں۔ان کی نظم ’ہرے درخت‘ میں اسی ماحولیاتی تحفظ کی طرف اشارے کیے گئے ہیں:

ہماری روح کی راحت ہماری دولت ہیں

ہرے درخت خدا کی عظیم نعمت ہیں

بغیر ان کے یہ دنیا اجاڑ ہو جائے

یہاں پہ سانس بھی لینا پہاڑ ہو جائے

ہرے درختوں سے قائم ہماری ہریالی

ہرے درختوں سے آئے جہاں میں خوشحالی

کریں یہ عزم نئے پیڑ ہم لگائیں گے

ہرے درخت ہیں جتنے انھیں بچائیں گے

(ہرے درخت)

پیڑ سے متعلق اردو میں بہت سی نظمیں لکھی گئی ہیں۔فریاد آزر، حیدر بیابانی اور شفیق اعظمی کی نظمیں بھی اس باب میں معروف ہیں اور بھی بہت سے شعرا ہوں گے جنھوں نے درختوں کی ہریالی اور پیڑ پر نظمیں لکھی ہوں گی۔ ان یکساں موضوعاتی نظموں کا تقابلی مطالعہ کیا جانا چاہیے تاکہ ان شعرا کے انفرادی طرز اظہار کے حوالے سے گفتگو کی جا سکے۔

اسی طرح ظفر کمالی نے پانی پر بھی نظم لکھی ہے۔اس موضوع پر ان کے علاوہ اردو کے بہت سے شعرا نے شاعری کی ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ پروفیسر جابر حسین نے اردو نامہ پٹنہ کا ایک شمارہ پانی کے لیے مختص کیا تھا۔اس میں پانی سے متعلق بہت عمدہ نظمیں تھیں۔پانی سے متعلق ظفر کمالی کی یہ نظم دیکھئے:

زندگی کا مدار ہے پانی

اس چمن کی بہار ہے پانی

اس سے ہے آن بان مٹّی کی

ہے یہ پانی ہی جان مٹّی کی

بے مزا ہے حیات اس کے بغیر

کچھ نہیں کائنات اس کے بغیر

راحتوں میں یہ بڑی راحت ہے

یہ خدا کی عظیم نعمت ہے

کھیتیاں لہلہائیں پانی سے

پھول بھی مسکرائیں پانی سے

اس سے اگتی ہے یوں زمین پہ گھاس

جیسے دلہن کا شاندار لباس

سارے دریا رواں اسی سے ہیں

یہ سمندر جواں اسی سے ہیں

پیڑ پودے ہرے ہیں اس کے طفیل

پھل بھی رس سے بھرے ہیں اس کے طفیل

ہم جو پانی بچا کے رکھّیں گے

زندگانی بچا کے رکھّیں گے

(پانی)

بچوں کے معروف شاعر فراغ روہوی نے بھی پانی پر ایک نظم لکھی تھی۔ ان کی نظم کا انداز ظفر کمالی سے ذرا مختلف ہے:

بن اس کے جل جائے کھیتی

بن اس کے مر جائے مچھلی

بن اس کے بے کار ہے کشتی

بن اس کے دشوار ہے ہستی

سمٹے تو بن جائے قطرہ

پھیلے تو ہو جائے دریا

پھول، شجر،انسان،پرندہ

سب کے سب ہیں اس سے زندہ

اب ان دونوں نظموں کا تقابلی مطالعہ کیا جائے تو یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہوگا کہ بچوں کے ذہن پر کس نظم کا تاثر زیادہ بہتر مرتب ہوگا۔ دونوں نظمیں ہی اپنے مواد اور اسلوب کے اعتبار سے کامیاب ہیں ۔

ظفر کمالی نے ان موضوعات پر زیادہ نظمیں لکھی ہیں جو پرانے ہیں یا جن پر بچوں کے شعرا لکھ چکے ہیں۔ قلم،کتاب،زبان، وقت،بھائی چارا، چیوٹی، چوہیا، گوریا،نفرت،محبت، حب الوطنی،گڑیا،مزدور یہ وہ موضوعات ہیں جن پر پہلے ہی وافر شاعری ہو چکی ہے اسی لیے اس نوع کی نظموں کا جائزہ لیتے ہوئے تمام نظموں پر نگاہ رکھنی ہوگی اور اسلوبیاتی نقطہ نظر سے بھی ان کا تجزیہ کرنا ہوگا تبھی موضوعی یکسانیت کے باوجود ان نظموں کی انفرادیت پر گفتگو ممکن ہوگی ویسے ظفر کمالی نے پرانے موضوعات کو بھی نئی شکل و صورت عطا کی ہے اور اپنے الگ طرز اظہار کی وجہ سے وہ نظمیں بھیڑ میں بھی اپنی شناخت قائم رکھنے میں کامیاب ہیں۔

ظفر کمالی کے یہاں بھی اخلاقی اوصاف و اقدار کی وہی نظمیں ہیں جو ان سے پیش تر لکھی جا چکی ہیں یا ان کے معاصرین لکھ رہے ہیں۔ ادب اطفال کے زیادہ تر شعرا کا ارتکاز اقدار و کردار پر رہا ہے۔ ظفر کمالی کے یہاں بھی ان ہی  اقدار کی نظمیں ملتی ہیں جن میں بچوں کو ایمان داری، سچائی، سمجھداری، ایفائے عہد، عدل و انصاف، احترام حقوق اور دیگر اخلاقی معیارات کی تربیت اور تعلیم دی گئی ہے۔

اس طرح کی نظمیں بچوں کو بہت متاثر کرتی ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شاعر اخلاقیات کے معلم ہوتے ہیں۔

بچوں کی نفسیات کے پیش نظرہی Virtu Ethicsپر بہت ساری نظمیں کہی گئیں ہیں اور بچے ان سے ترغیب اور تحریک بھی حاصل کرتے ہیں اور یقینی طور پر یہ شاعری کا ایک افادی پہلو ہے کہ اس کی وجہ سے بچوں میں مثبت جذبات و احساسات پیدا ہوتے ہیں اور ان میں اچھے برے،غلط صحیح اور خیرو شر کی تمیز پیداہوتی ہے۔

بچوں کے باب میں بیشتر شعرا نے یہی روش اختیار کی ہے۔ ظفر کمالی کا بھی زور اقدار اور کردار پر ہے۔چند نظموں کے ٹکڑے ملاحظہ ہوں:

کوئی گورا ہو یا وہ کالا ہو

کوئی ادنیٰ ہو یا کہ اعلیٰ ہو

شیخ ہو برہمن ہو لالا ہو

چاہے سید ہو یا گوالا ہو

بھائی چارا بہت ضروری ہے

(بھائی چارا)

نفرتیں گھر تباہ کرتی ہیں

دل بشر کا سیاہ کرتی ہیں

(نفرت)

محنت سے ہی عزت ہے

محنت سے ہی راحت ہے

محنت سے ہی شہرت ہے

محنت سے ہی عظمت ہے

کام کریں ہم کام کریں

(کام کریں)

ہمتوں کا جہاں باقی رکھ

حوصلوں کی اڑان باقی رکھ

حوصلے جب اڑان بھرتے ہیں

چاند پر جا کر وہ ٹھہرتے ہیں

(حوصلوں کی اڑان)

 مشترکہ موضوعاتی متون کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی ظفر کمالی کی شاعری کا رنگ و آہنگ الگ نظر آتاہے۔یہی ان کا کمال ہنر ہے۔

ظفر کمالی کا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی نظموں کے ذریعے بچوں کو لفظوں کی نئی کائنات سے متعارف کرایا ہے اور ایسے الفاظ دیے ہیں جن سے ان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافے کے ساتھ ساتھ معانی کی ایک نئی دنیا بھی نظر آتی ہے۔

باد ِ بہاری، نسیمِ سحری، بامِ فلک، گلِ خنداں، شاخِ ثمردار، ماہِ تمام اور اس طرح کی بہت ہی خوش رنگ ترکیبیں ان کے کلام میں نظر آتی ہیں۔ جن سے بچے نئے لفظوں سے روشناس ہوتے ہیں اور نئی ترکیبوں سے متعارف بھی اور یہی ترکیبیں انھیں نئے الفاظ اور معنی کی جستجو کے لیے مہمیز بھی کرتی ہیں۔

ظفر کمالی کی شاعری میں قوت ادراک میں اضافہ کرنے والا عنصر بھی ہے کیوں کہ کچھ نظمیں ایسی ہیں جن میں مشاہدات، تجربات، مطالعات، اطلاعات اور معلومات کی دنیا آباد ہے۔ بچے ان نظموں کے ذریعے حیات وکائنات نئی کیفیات سے روشناس ہو سکتے ہیں۔

ظفر کمالی کی شاعری واقعی ایسی ہے جو دماغ کی کئی سطحوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس شاعری میں تحرک بھی ہے، تلاطم بھی تکلم بھی اور ترنم بھی اور یہ چیزیں جذبہ و احساس کو بڑی حد تک متاثر کرتی ہیں۔

ظفر کمالی کی شاعری کا اسلوبیاتی اور صوتیاتی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا جانا چاہیے کیونکہ یہی وہ طریق کار ہے جس سے یکساں موضوعات کے شاعروں کے انفرادی رنگ وآہنگ کا اندازہ لگایاجاسکتاہے۔

بچوں کے لیے لکھی گئی غزلیہ اور نظمیہ شاعری کا مطالعہ صوتیاتی نقطہ نظر سے زیادہ مفید ثابت ہوگا کہ صوتی آہنگ کا حس سماعت سے بہت گہرا رشتہ ہوتا ہے۔شعر کی غنائیت، نغمگی، اصوات کی تنظیم وتکرر کا بچوں کی سماعت پر خوشگوار اثر مرتب ہوتاہے۔

خوش آہنگ الفاظ بچوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔یہ وہ پہلو ہے جس پر ادب اطفال کے ناقدین نے شایدکم توجہ دی ہے یا بالکل ہی توجہ نہیں دی ہے۔صوتیاتی نقطہ نظر سے ظفرکمالی کی شاعری کا جائزہ لیاجائے، تو اس میں بہت سے شعری محاسن نظر آئیں گے۔

انھوں نے ان شعری تکنیکوں کا استعمال کیا ہے جن سے شاعری میں تاثیر اور تسخیر کی قوت پیدا ہوتی ہے اور جو تکنیکیں بچوں کو بھی محبوب اور مرغوب ہیں۔تکریر حرف، صوتی تجنیس اور مشابہت نے بھی ان کی نظموں کو خوب صورتی عطا کی ہے۔

ایک نظم کایہ ٹکڑا دیکھئے جس میں Epiphoraکی تکنیک استعمال کی گئی ہے:

فسانوں میں دل کش فسانہ کتاب

خزانوں میں نادر خزانہ کتاب

نہ ہو کیوں ہمارا ترانہ کتاب

کتابیں زمانہ، زمانہ کتاب

یہاں آخر میں ’کتاب‘ کی تکرار سے صوتی حسن پیدا ہو گیا ہے۔

اور انھوں نے کئی اور نظموں میں AllitrationاورConsonance کی تکنیکوں کا استعمال کیا ہے۔ بچوں کی نظموں میں یہ تکنیکیں بہت موثر اور اہم کردار ادا کرتی ہیں۔شعری تجمیل کے یہ طریق کار اکثر کہنہ مشق شعرا استعمال کرتے رہے ہیں اور اس کے لیے قادر الکلامی کے ساتھ ساتھ صنائع اور بدائع پر عبور بھی ضروری ہے۔

  مجموعی طور سے دیکھا جائے تو یہ بچوں کے لیے بہت عمدہ، دل چسپ، معنیٰ خیز اور فکر انگیز شاعری کا مجموعہ ہے۔اس میں تعلیم وتربیت کے ساتھ تفریح بھی ہے۔’بچوں کا باغ‘ اور ’چہکاریں‘ کے بعد’حوصلوں کی اڑان‘ ادب اطفال میں ایک اضافہ ہی نہیں بلکہ ایک صحیح سمت کا سفر اور ایک نئی تخلیقی اڑان ہے۔

Next Article

آل پارٹی وفد میں شامل جان برٹاس اور اویسی بولے – حکومت سے شدید اختلاف، لیکن ملک کے لیے متحد

مرکزی حکومت نے ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پر 30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں حکمراں جماعت اور اپوزیشن کے رہنما شامل ہیں، جن کے بارے میں حزب اختلاف کے ارکان پارلیامنٹ کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے باہر مختلف اندرونی اختلافات کے باوجود متحد ہیں۔

سی پی آئی (ایم) ایم پی جان برٹاس اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی (تصویر: ایکس اور پی ٹی آئی ویڈیو)

سی پی آئی (ایم) ایم پی جان برٹاس اور اے آئی ایم آئی ایم ایم پی اسد الدین اویسی (تصویر: ایکس اور پی ٹی آئی ویڈیو)

پہلگام دہشت گردانہ حملے اورآپریشن سیندور کے بعد جب اپوزیشن نریندر مودی حکومت سے مشترکہ پارلیامانی اجلاس اور وزیر اعظم کی موجودگی والی آل پارٹی میٹنگ بلانے کا مطالبہ کر رہی تھی،اسی درمیان سب کو حیران کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے اعلان کر  دیاکہ  وہ ہندوپاک کشیدگی سے متعلق مسئلے پرایک اہم سفارتی اقدام کے تحت  30 سے ​​زائد ممالک میں سات وفد بھیجے گی ۔

حکومت کے مطابق،اس  وفد میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اپوزیشن پارٹیوں کے ایم پی شامل ہوں گے، جن میں کچھ  کی قیادت وہ خود کریں گے، مثلاً ششی تھرور (کانگریس)، سپریا سولے (نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار)) اور کنیموزی (دراویڈ منیترا کزگم)۔

توقع ہے کہ یہ وفد 22 اور 23 مئی کو جاپان، جنوب مشرقی ایشیا، عرب دنیا اور افریقہ سے لے کر برطانیہ، یورپی یونین، لاطینی امریکہ اور امریکہ تک دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں نمائندوں سے ملاقات کے لیے روانہ ہوگا۔

تاہم، اس سے چین  کوباہررکھا جائے گا کیونکہ اس اقدام کا بنیادی مقصد آپریشن سیندور کے بعد پاکستان کی دہشت گردی کی نوعیت کو بے نقاب کرنا اور پاکستان کو عالمی سطح پر الگ -تھلگ کرنا ہے۔

حکومت کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ‘کُل جماعتی وفد تمام صورتوں  اور اظہاریہ میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے  کے لیے ہندوستان کےقومی اتفاق رائے اورنظریے  کا مظاہرہ کرے گا۔ وہ دنیا کو دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا مضبوط پیغام پہنچائیں گے…’

اس حوالے سے پارلیامانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے کہا، ‘یہ سیاست سے بالا تر قومی اتحاد کا ایک طاقتور عکس ہے… ہندوستان ایک آواز میں بات کرے گا۔’

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اقدام کے ذریعے حکومت نے ایک ہی جھٹکے میں اپوزیشن کی ان تنقیدی آوازوں کو دبا دیا ہے، جس نے انٹلی جنس کی ناکامی پر سوال اٹھائے تھے اورجس کی وجہ سے پہلگام میں قتل عام ہوا؟ متاثرین کو مدد ملنے میں تاخیر ہوئی۔ نام نہاد امریکی ثالثی سے جنگ بندی؛ اور دیگر متعلقہ سوالات کے مناسب جوابات مانگے جا رہےتھے؟

اس سلسلے میں دی وائر نے حزب اختلاف کے دو سرکردہ رہنماؤں سے بات کی، جو اس وفد کا حصہ ہیں –کیرالہ سے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے رکن پارلیامنٹ جان برٹاس، جو جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور، ملائیشیا اور انڈونیشیا کا دورہ کریں گے، اور حیدرآباد سےآل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے ایم پی اسد الدین اویسی،جو سعودی عرب، کویت ، بحرین اور الجیریاکا دورہ کریں گے۔

پیش ہیں اس بات چیت کے بعض اہم  اقتباسات؛

کیا مودی حکومت نے پہلگام کے بعد بین الاقوامی سفارتی رابطہ کاری  کے لیے حزب اختلاف کے اراکین پارلیامنٹ کو شامل کرکے اپنی غلطیوں اور تنقیدوں کو کم کرنے کا کام کیا ہے؟ حکومت نے اس معاملے پر سوال کا جواب دینے کے لیے پارلیامنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔

جان برٹاس: ہاں، ہم چاہتے تھے کہ حکومت پارلیامنٹ کا خصوصی اجلاس بلائے، ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ وزیراعظم ایک آل پارٹی اجلاس کی صدارت کریں، کیونکہ وہ پاکستان سے متعلق گزشتہ دو اجلاس میں غیر حاضر تھے۔

ہمارے پاس بہت سارے سوال اور خدشات ہیں اور ہمیں وضاحت کی ضرورت ہے – ڈونالڈ ٹرمپ کے کئی  گھمنڈ بھرے بیانات سے کہ انہوں نے کس طرح جنگ بندی کی ثالثی کی اور کس طرح انہوں نے تجارت کو لالچ دیا۔ اس کے علاوہ انٹلی جنس کی ناکامی، سیکورٹی فورسز کی طرف سے ردعمل میں تاخیر؛ میڈیا کے ذریعے نفرت، بنیاد پرستی اور جنگی جنون ؛ سکریٹری خارجہ اور ان کے اہل خانہ سمیت مارے گئے بحریہ  کےافسر کی اہلیہ پر سائبر حملے۔ ہم ان کا جواب چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں میں نے وزیر داخلہ کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں ان سے سائبر حملوں کے پس پردہ  کون  لوگ ہیں،اس کی جانچ کرنے کی اپیل کی گئی تھی،  لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔

ان تمام اور دیگر بہت سے پہلوؤں پر ہمیں اس حکومت سے شدیداختلاف ہے، لیکن جب بین الاقوامی سطح پر سفارت کاری کے ذریعے عوامی رابطوں کی بات آتی ہے تو ہمیں تعاون کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دنیا میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان واضح تفریق کرنا ضروری ہے۔

امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک ہندوستان کو پاکستان کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ وہ ہمیں ایک جیسا سمجھتے ہیں، اور ہم اسے بالکل بھی بدل نہیں پائے ہیں۔

نیز، ہماری جمہوریت میں دو حزبی وفود کو بیرون ملک بھیجنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ منموہن سنگھ کے دور میں ممبئی میں 26/11 کے بعد وفود پاکستان کے دہشت گرد نیٹ ورک کو اجاگر کرنے کے لیے گئے تھے۔

اب ہماری بھنویں تن گئی  ہیں، کیونکہ ہمیں مودی حکومت سے ایسے صحت مند سیاسی کلچر کی کبھی توقع نہیں تھی جیسا کہ ہم نے گزشتہ 11 سالوں میں کسی جمہوریت کا تجربہ نہیں کیا ہے۔ ہماری شرکت دنیا کویہ  دکھانے کے لیے ہے کہ اس ملک کے جمہوری عمل میں اپوزیشن کا اہم کردار ہے۔

اسدالدین اویسی: پارلیامانی وفد سفارت کاری میں کوئی نئی روایت  نہیں ہے، نرسمہا راؤ، اٹل بہاری واجپائی یا منموہن سنگھ کی قیادت والی سابقہ حکومتوں نے بھی ایسا کیا ہے۔

اب پاکستان سے آئے دہشت گردوں کے ذریعے کیے گئے ہولناک قتل عام،جنہوں نےمذہب کی بنیاد پر لوگوں کو قتل کیا اور اس کے بعدپاکستان میں دہشت گردوں کے 9 ٹھکانوں  پر ہندوستان کے حملوں کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم ارکان پارلیامنٹ عالمی رہنماؤں سے ملاقات کریں اور انہیں اس خطے کے مسائل سے آگاہ کریں۔ ہندوستان  کئی سالوں سے دہشت گردی کا شکار  ہے، جس کی منصوبہ بندی اور سرپرستی ہمارے پڑوسی نے کی ہے اور ماضی میں بھی کئی حملے ہوئے ہیں۔

کئی ایسے مسائل ہیں جن پر ہم حکومت سے متفق نہیں ہیں اور جہاں تک میری پارٹی کا تعلق ہے، 2014 میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وقف (ترمیمی) بل کی منظوری تک، ہم نے اس حکومت کے ہر بل کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ اپوزیشن میں شامل نام نہاد سیکولر جماعتوں نے 2019 میں خطرناک غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ترمیمی ایکٹ کی بھی حمایت کی، جس نے اتنے سارے نوجوانوں کو جیل میں ڈال دیا ہے۔

ہم حکومت کی حمایت نہیں کر رہے ہیں، ہم اس ملک کی حمایت کر رہے ہیں جہاں ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ پاکستان سے آنے والے دہشت گردوں کی وجہ سے ہمارے شہری اپنی جان گنوا رہے ہیں۔

کیا حکومت نے آپ کو ایجنڈے اور ان لوگوں کے بارے میں معلومات فراہم کی  ہیں، جن سے آپ ملاقات کریں گے؟

جان برٹاس: دوسرے ممالک کو یہ بتانے کا بہترین موقع ہے کہ ہم ایک ذی شعور جمہوریت ہیں اور میں نے کل سکریٹری خارجہ کے ساتھ پروگرام کی بریفنگ کے دوران اس کا اشتراک کیا۔ میں نے کہا کہ ہمیں اپنے بھرپور تنوع اور ثقافتی کثرت کو اجاگر کرنا چاہیے اور دنیا کو یہ پیغام دینا چاہیے کہ ہم پاکستان کے برعکس ایک متحرک جمہوریت ہیں، جو مذہب کی بنیاد پر پیدا ہوا تھا۔

ہمیں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانا چاہیے کہ ہندوستان پاکستان کے ساتھ مسلسل جھڑپوں میں دلچسپی نہیں رکھتا اور پاکستان شروع سے ہی دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دیتا رہا ہے۔

ہمیں دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہم پاکستان کی نقل نہیں بننے جا رہے ہیں، بلکہ ہمارے پاس ایک آئین ہے اور ہم ترقی، معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں۔

ہم نہ صرف ان ممالک کے ایکٹرز کے ساتھ بلکہ سول سوسائٹی، میڈیا اور تھنک ٹینکس کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے، جیسا کہ وزارت خارجہ نے ہمیں مطلع کیا ہے۔ جب ممبران پارلیامنٹ اور معززین کا وفد دورہ کرتا ہے تو ہم لوگوں کے بہت سے طبقوں کے ساتھ آزادانہ بات چیت کرنے کے لیے آزاد ہوتے ہیں۔ حکومت اس کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہمارے پاس ابھی تک دورے کا کوئی شیڈول نہیں ہے۔

اسدالدین اویسی : ایجنڈا بالکل واضح ہے – جب  میں نے صاف کر دیا ہے کہ جہاں تک ملک کے اندر مودی حکومت کی پالیسیوں کا تعلق ہے، ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ہم ان کی مخالفت کرتے رہیں گے- لیکن اس آؤٹ ریچ پروگرام کا تعلق ہمارے ملک پر بیرونی حملے سے ہے۔

اور اگر موجودہ حکومت کو لگتا ہے کہ یہ ملک کے مفاد میں ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین پارلیامنٹ جا کر بتائیں کہ پڑوسی ملک نے کیا کیا ہے، اور براہ کرم یاد رکھیں، آئین کا آرٹیکل 355 کہتا ہے کہ اگر کوئی بیرونی حملہ ہوتا ہے تو حکومت  کوفوری ایکشن لینا چاہیے، ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

وزارت خارجہ نے ابھی ہم سے بریفنگ کے لیے ملاقات کرنی ہے، ہم دوسرے بیچ میں جا رہے ہیں، لیکن ہم واضح ہیں کہ ملک کے دفاع کے لیے عالمی رہنماؤں سے ملیں گے۔

کیا ہوگا اگر بین الاقوامی رہنما اور دیگر افرادجن سے آپ بات چیت کرتے ہیں وہ اقلیتوں پر مہلک حملوں کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ یا مثال کے طور پر، حال ہی میں  علی خان محمود آباد کی ایک جائز سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے سیڈیشن کے الزام میں گرفتاری؟

جان برٹاس: یہ مسائل یقینی طور پر ہماری تشویش کا حصہ ہیں – یہ مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے کہ سوشل میڈیا پر تبصرے کرنے والے کسی شخص کوبناوٹی الزام میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے یہ مسئلہ کئی بار اٹھایا ہے اور پارلیامنٹ میں بھی غیر آئینی گرفتاریوں کی بات  کی ہے۔

یقیناً، ہم سے ایسے بہت سے سوال پوچھے جائیں گے، لیکن ہمارا وفد ان پر فیصلہ کرنے کے لیے کافی سمجھدار ہے۔ سفارتی رسائی میں شامل بین الاقوامی وفود کے لیے، ہمارا کام اور مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارا بڑا ایجنڈا سامنے آئے۔ جہاں تک ملکی مسائل کا تعلق ہے، ہم اسے ملک کے اندر ہینڈل کرلیں گے۔

اسد الدین اویسی:  دنیا کو ہم سے اقلیتوں پر حملے اور ان کے خلاف طے شدہ تعصبات پر سوال پوچھنے دیجیے۔ میں اس کا دفاع کرنے کے قابل ہوں۔ اگر آپ میرے 2013 کے ویڈیو دیکھیں، جب میں نے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت قبول کی، تو مجھ سے بھی یہی سوال پوچھا گیا تھااوریہ سمجھائے  گا کہ میں ایسے سوالوں کا سامنا کیسے کرتا ہوں۔

میں ایک ٹیلی ویژن چینل پر آیا اور مجھ سےملک میں مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میں پوچھا گیا۔ میرا سادہ سا جواب تھا؛’آپ ہندوستانی مسلمانوں کی فکر کرنا چھوڑ دیں، انہوں نے 60 سال پہلے ہی طے کر لیا تھاکہ ہندوستان ان کا ملک ہے۔ ہمارا آئین بھی سیکولر ہے اور ہم اس پر عمل کریں گے۔’

کیا پی ایم مودی اپنی عالمی رسائی میں ناکام رہے ہیں؟ انہوں نے مبینہ طور پر 11 سالوں میں 72 ممالک کے 129 دورے کیےہیں، لیکن انہیں کسی بھی عالمی رہنما  سے معمول کے وعظ و نصیحت کے سوا مشکل سے ہی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

جان برٹاس: میں حقیقت میں حیران ہوں کہ اسرائیل کی بھرپور حمایت کے علاوہ میں نے کسی دوسرے ملک کی حمایت نہیں دیکھی۔ میں بھی اتنا ہی حیران ہوں کہ امریکہ نے کس طرح  کےرد عمل کااظہار کیا، جس طرح امریکہ نے برتاؤ کیا ہےاور ہمیں نیچا دکھایا ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کی طرف سے کی جا رہی بکواس پر ہندوستان کو شروع میں ہی واضح جواب دینے کی ضرورت ہے – جس طرح انہوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی تصویر کشی کی، جس طرح سے انہوں نے اس سودے کو انجام دیا، وہ کہتے ہیں؛ یہ باتیں ہمارے خلاف گئی  ہیں۔

میرے خیال میں مودی سرکار کی طرف سے محض انکار کے علاوہ ایگزیکٹو کی طرف سے بھی واضح جواب دیا جانا چاہیے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہو رہا ہے۔

ٹرمپ کی لین دین کی ڈپلومیسی بھی ہمارے لیے تباہ کن ہے، وہ صرف اپنے ملک کی تجارت میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مودی سرکار کے ترکی اور بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت کے بائیکاٹ کے باوجود انہوں نے وہاں جا کر ان ممالک کے ساتھ تجارتی سودے کیے۔

میرے خیال میں مودی حکومت کو سب سے بڑا دھچکا پاکستان کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کا قرض تھا۔ یہ امریکہ کی چال تھی، کیونکہ قرض کی منظوری میں آئی ایم ایف بورڈ پر اس کا غالب اختیار ہے۔

ہندوستان نے مغربی ممالک کے ساتھ سفارت کاری میں جو بے تحاشہ سرمایہ کاری کی ہے، اس کے پیش نظر، ردعمل کم سے کم کہنے کے لیے مایوس کن رہاہے۔

اسد الدین اویسی: یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمیں ایک ایسے ملک سے زوردار حمایت ملی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو اب بھی نسلی امتیاز پر عمل پیرا ہے، جو کہ اسرائیل ہے؛ اور بعد میں افغانستان کی طالبان حکومت کی طرف سے، جس نے پہلگام قتل عام کی کھل کر مذمت کی ہے۔ یہ صرف دو حکومتیں ہیں جنہوں نے ہندوستان کی حمایت کی ہے۔

تو ہاں، یقینی طور پر امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین  جیسے ہمارے اتحادیوں کے ساتھ ضرور اصلاحات کی ضرورت ہے، جنھیں واضح طور پر اس نسل کشی کی مذمت کرنی چاہیے تھی۔

جہاں تک جنگ بندی اور تجارتی معاہدے پر ٹرمپ کے بیانات کا تعلق ہے تو ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا ہوگا کہ سیاسی قیادت ٹرمپ کی تردید کرےگی یا نہیں۔

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔ )

Next Article

پہلگام اور اس کے بعد: ایک بے بس امن پسند دیوانے کی بڑ

گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئےہیں– اور اسے مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اوربھڑکایا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ پہلگام حملے کے بعد جو ماحول بنا ہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن : پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

پہلگام حملے کی خبر نے پہلے مجھے حیران کیا اورمشتعل کر دیا، لیکن جلد ہی میں نے اپنے اندر خوف اور بے چینی بھی محسوس کی۔ میں نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کا ردعمل زیادہ تر ملک کے شہریوں میں فوری انتقام کا شدید احساس پیدا کرتا ہے۔ درحقیقت، سب سے مکروہ سچائی یہ ہے کہ ہندوستانیوں کا ایک زہریلا طبقہ ایسے سانحات کو سنہری موقع تصور کرتا ہے—مسلمانوں کو پاکستان کا حمایتی،غدار اور دہشت گردی کے حامی کے طور پرپیش کرنےکے لیے- جو سزا کے مستحق ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کو تقریباً آٹھ دہائیاں گزر چکی ہیں، لیکن ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا ذرا بھی صاف نہیں ہوئی۔ گزشتہ دس سالوں میں مسلم مخالف تعصب اور جذبات عروج پر پہنچ گئے ہیں – اور مقتدرہ پارٹی کی خطرناک سیاست نے اسے اور بھڑکایاہے۔ پاکستان کے ساتھ جب بھی کشیدگی کا کوئی واقعہ رونما  ہوتا ہے، اس کا اثر مسلمانوں پر ظلم کی صورت میں نظر آتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پہلگام کے واقعہ کے بعد جو ماحول بناہے، وہ  بالکل وہی ہے جس کا مجھے خدشہ تھا۔

بحیثیت معاشرہ ہم حیوانیت کی ساری حدیں پار کر چکے ہیں۔ میرے بال تراشنے والا ایک  نوجوان ہیئر ڈریسر – جو میرے سر پر بچے کھچے بالوں کو سنوارتاہے – انتہائی صدمے میں ہے، کیونکہ مسعود پور ڈیری کے علاقے میں رہنے والے اس جیسے مسلمانوں پر وہاں سے نکل جانے کادباؤ بنایا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں ہندوتوا گروہ مسلم کمیونٹی کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مہاراشٹر کے ایک بدنام وزیر نتیش رانے نے لوگوں سے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ مسلمانوں کی پہچان کرنے کے لیےانہیں ہنومان چالیسہ پڑھنے کو کہیں اور پھر ان کا اور ان کے سامان کا بائیکاٹ کریں۔ راجستھان میں سینکڑوں مسلمانوں کو اس بہانے سے گرفتار کیا گیا کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔ تلنگانہ میں ‘کراچی بیکری’ کی دو شاخوں میں توڑ پھوڑ کی گئی – صرف اس لیے کہ اس کا نام ‘کراچی’ ہے، جبکہ وہ  دکان ہندوؤں کی ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ نفرت نے اب منطق، سچائی اور انسانیت کی ہر حد کو کچل دیا ہے۔

کشمیری طلبہ اور مزدوروں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے کشمیر واپس جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ امتیازی سلوک کے ایک واضح عمل میں دہلی یونیورسٹی نے کالجوں سے کشمیری طلبہ کی تفصیلات جمع کرنے کو کہا ہے — ٹھیک ویسے ہی جیسے ہٹلر کے جرمنی میں یہودیوں کی فہرست تیار کی جاتی تھی۔ اور جو نفرت  ہمانشی نروال جھیل رہی ہیں— صرف اس لیے کہ انہوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کو نشانہ بنائے جانے کے خلاف آواز اٹھائی— ان سب کے آگے ہمیں شرم آنی چاہیے! یہ گاندھی کا ہندوستان نہیں ہے۔


آج ہم ایسے ہندوستان میں رہ رہے ہیں جسے پچھلی دہائی سے ایک ایسا شخص چلا رہا ہے جو ‘وشوگرو’ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے – ایک ایسا ہندوستان جس نے نہ امن کا مشاہدہ کیاہے، نہ انصاف، نہ اچھائی اور نہ اتحاد۔جہاں اپوزیشن ناقابل معافی سیکورٹی لیپس کے لیے جوابدہی کا مطالبہ کر رہی ہے، وہیں میرے لیے پہلگام کی بربریت کے بعد کےخوفناک دنوں میں مودی کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ جب ملک میں کئی لوگ ‘خانہ جنگی’ کے خدشے کا اظہار کر تھے، تب انھوں نے مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کے بارے میں ایک لفظ بھی بولنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔

اس طرح کی بربریت اور جبر کے سامنے ان کی خاموشی ناقابل معافی ہے – لیکن حیرت کی بات نہیں، کیونکہ انہوں نے اقتدار پر اپنی گرفت اسی  وعدے کے سہارے بنائی اور بنائے  رکھی ہے کہ ‘مسلمانوں کو سبق سکھائیں گے۔’


ہندوستان کا متوسط ​​طبقہ ملک کی بدترین جبلتوں کا نمائندہ بن چکا ہے- طبقاتی، نرگسیت، بزدل اور خود غرضی۔ اور سب سے اہم بات، اندر تک  فرقہ وارانہ۔ یہی وہ لوگ ہیں جو وہاٹس ایپ پر نفرت اور تفرقہ پیدا کرنے والے غنڈوں میں تبدیل ہوچکے ہیں – اپنے محفوظ گھروں سے زہر فشانی کرتے ہوئے، اپنے ہی ہم وطنوں کے ساتھ جس غیر انسانی سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں اس پر ذرا بھی شرمندہ نہیں۔

انہیں گودی میڈیا کے جھوٹے اور زہریلے بیانیے کے ذریعے تربیت دی گئی ہے – جس کی قیادت ارنب گوسوامی، انجنا اوم کشیپ اور نویکا کمار جیسے لوگ کر رہے ہیں۔ میڈیا کے ان چہروں نے معاشرے کے مکروہ جذبات کو ہوا دی ہے۔ اس کے باوجود، ان کے ٹی وی شوز سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں – یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم نفرت سے بھرا معاشرہ بن چکے ہیں۔

وہ ہولناک سانحہ جس کا مجھے خدشہ تھا وہ 7 مئی کی صبح اس وقت حقیقت بن گیا،  جب ‘ گھر میں گھس کر ماروں گا’ کہنے والے ہمارے وزیر اعظم نے جنگ کا بگل بجا دیا۔ ہندوستان نے پاکستان اور پی او کے میں دہشت گردوں کے نو ٹھکانوں پر ہائی-پریسیشن ہتھیاروں سے حملہ کیا۔ وزیر دفاع نے چونکا دینے والا دعویٰ کیا کہ 100 سے زائد دہشت گردوں کو مارا گیا، لیکن ایک بھی شہری ہلاک نہیں ہوا۔ حالاں کہ،اگلے ہی دن پاکستان نے لائن آف کنٹرول پر 15 ہندوستانی شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ ہندوستان کے اس دعوے کے برعکس کہ اس نے صرف دہشت گردوں کو نشانہ بنایا، بین الاقوامی ایجنسیوں نے تصدیق کی ہے کہ حملوں میں خواتین اور بچے بھی مارے گئے۔

ہر سیاسی جماعت کے قائدین نے نتائج کی پرواہ کیے بغیر انتہائی سخت کارروائی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا۔ کسی نے تحمل سے کام لینےیا پاکستان کو سبق سکھانے کے لیے جنگ کے علاوہ دوسرے متبادل کی بات نہیں کی۔ ہمیشہ دانشمندی کی بات کرنے والےششی تھرور نے بھی دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے والے ردعمل کا مطالبہ کیا۔ مودی کے دفاعی وکیل کا نادانستہ کردار ادا کرتے ہوئے انہوں نے انٹلی جنس ایجنسیوں کی ناقابل معافی ناکامی کو اس مضحکہ خیز دلیل کے ساتھ نظر انداز کر دیا کہ ‘سکیورٹی سسٹم عالم کل نہیں ہوتا’ اور ‘یہاں تک کہ اسرائیل بھی 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کو نہیں روک سکا۔’ ان کی اس دفاعی کوششوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جلد ہی پارٹی بدلنے کی تیاری میں ہیں۔

تشدد کا یہ خوفناک سلسلہ تین دن سے کچھ زیادہ ہی جاری رہا، جب تک کہ امریکہ کی ثالثی سے اچانک جنگ بندی نہیں ہوگئی۔ اب دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک اس خودکش جنگ کو ختم کرنے اور جنگ بندی پر متفق ہو گئے ہیں۔

یہ احمقانہ تصور کہ ہم سپریم ہیں اور یہ کہ پاکستان ایک کمزور، بے بس قوم ہے جو جوابی حملہ کرنے سے قاصر ہے، چاہے ہم اسے تسلیم کرنے سے گریزاں ہوں۔ رافیل طیاروں پر مبینہ ‘حملے’ کی بحث پر ہماری خاموشی بہت کچھ کہتی ہے۔ ہم نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچایا، لیکن ہم نے خود بھی کم نقصان  نہیں اٹھایا۔ اس کے باوجود، خود ساختہ ماہرین، خونخوار ہجوم اور یہاں تک کہ سابق فوجی افسران بھی ہندوستان  کے جنگ بندی کے فیصلے پر شدید تنقید کر رہا ہے – ایک ایسے فیصلہ کن  موڑ پر جب یہ بھی واضح نہیں ہے کہ ہم کیا حاصل کر سکتے تھے۔

آئیے تصور کریں کہ اگر ہم قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ جاری رکھتے تو ہم کیا حاصل کر سکتے تھے؟ کیا ہم اپنے دور دراز اہداف کے قریب کہیں بھی پہنچ پاتے؛ (الف) دہشت گردی کو ختم کرنا یا اسے معذور بنا دینا، (ب) پاکستان مقبوضہ کشمیر (پی او کے) کو واپس لینا، اور (سی) پاکستان کو گھٹنےپر لا دینا؟

عملی سیاست کے عظیم مفکر میکیاویلی کا خیال تھا کہ ‘اگر کسی کو تکلیف پہنچانی ہے تو اسے اتناشدید ہونا چاہیے کہ وہ بدلہ لینے کی پوزیشن میں ہی نہ رہے۔’ لیکن جس چیز کو ہمارے اندر موجود جنگی جنون کی خواہش نظر انداز کردیتی  ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ ہندوستان کے پاس پاکستان سے زیادہ فوجی طاقت ہو، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس ‘باغی’ ملک پر اپنی مرضی مسلط کر سکتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سب سے زیادہ کمزور اور بے بس لوگوں میں شامل فلسطینی، جنہیں عالمی برادری نے کئی دہائیوں سے تقریباً علیحدہ کر دیا ہے، وہ اسرائیل کی بے رحم فوجی طاقت کے خلاف مسلسل مزاحمت کر رہے ہیں۔ اور پاکستان کی بات کریں تو یہ ایٹمی طاقت ہے، جسے چین کی سرگرم حمایت حاصل ہے۔

ایسے میں اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو مودی کی جارحانہ پالیسی، جس میں ایٹمی خطرے سے کھیلنے کا رجحان بھی شامل ہے، دراصل کھوکھلی اور بے معنی نظر آتی ہے— صرف لفظوں کا غبارہ۔ جیسا کہ ڈگلس ہارٹن نے کہا تھا، ‘جب بدلہ لینے نکلو تو دو قبریں بنواؤ – ایک دشمن کے لیے اور ایک اپنے لیے!’


مودی کی کشمیر پالیسی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ جب سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا گیا اور ریاست کی حیثیت کو کم کر کے مرکزکے زیر انتظام علاقہ بنا دیا گیا، تب سے یہ خطہ شدید عدم اطمینان میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے میں مرکزی حکومت کو پہلگام سانحہ کے بعد انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اس کے برعکس، حکومت نے یوگی ماڈل کی پیروی کی اوردہشت گردوں سے تعلق رکھنے کے شبہ میں لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنا شروع کر دیا، اور سینکڑوں کشمیریوں کو ایک بڑے سیکورٹی کریک ڈاؤن میں گرفتار کیا گیا، جس میں مشتبہ افراد کے ساتھ ساتھ بے گناہ بھی پھنس گئے۔


جبر کی پالیسی براہ راست علیحدگی پسندوں اور پاکستان کے ہاتھ مضبوط کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں کشمیریوں پر ظلم و ستم نے اس زہر کو مزید مہلک بنا دیا ہے۔ جمہوریت، انسانیت اور کشمیریت یہ تینوں اب تقریباً مر چکے ہیں۔

اس تاریک دور میں ہمیں اپنے ماضی کے عظیم رہنماؤں سے تحریک اور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارا دور اندیش معاشرہ اندرا گاندھی کے ان دنوں کو یاد کرتا ہے جب انہوں نے 1971 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کی ذرا بھی پرواہ نہیں کی تھی۔ لیکن آج جب صورتحال اس قدر سنگین ہے تو ہم نے ہندوستان کے عظیم ترین اور شاید اس سرزمین کے سب سے بڑے انسان مہاتما گاندھی کو کیوں یاد نہیں کیا؟

کڑوا سچ یہ ہے کہ گاندھی اس مسئلے کو بالکل مختلف طریقے سے حل کرتے، اور اسی لیے انہیں نظر انداز کیا گیا ہے۔

میں اپنے دوستوں سے، مذاق میں نہیں، بلکہ سنجیدگی سے کہتا ہوں کہ اگر گاندھی آج زندہ ہوتے تو مسلمانوں اور پاکستان کے بارے میں ان کے خیالات کی وجہ سے انہیں ہجوم نے مار ڈالا ہوتا!

ہمیں بھی اب اسی طرح کی اُولُو الْعَزْمی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ بات چیت شروع کرنی چاہیے اور دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنا چاہیے۔ بصورت دیگر، ہمیں یا تو ایک اور ہزار سال کی جنگ کے لیے تیار رہنا ہوگا – یا پھر اس دن کے لیے جب ایٹمی تباہی ہمارے مشترکہ مستقبل کا فیصلہ کرے گی۔ بلاشبہ پہلا آپشن بہت آسان اور سب کے لیےمفید ہے۔

(میتھیو جان سابق سول سرونٹ ہیں۔)

Next Article

کرناٹک: بی جے پی ایم ایل اے سمیت چار لوگوں کے خلاف گینگ ریپ کا معاملہ درج

کرناٹک کے بی جے پی ایم ایل اے منی رتنا اور دیگر چار افراد کے خلاف ایک 40 سالہ خاتون نے گینگ ریپ،جان لیوا وائرس کا انجکشن دینے اورچہرے پر پیشاب کرنے کا الزام لگایا ہے۔ منی رتنا کا نام اس سے قبل  بھی ریپ، بلیک میلنگ، ہراساں کرنے، رشوت خوری، ذات پات اور گالی گلوچ کے معاملات میں سامنے آچکا ہے۔

بی جے پی ایم ایل اے منی رتنا۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@MunirathnaMLA)

بی جے پی ایم ایل اے منی رتنا۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@MunirathnaMLA)

نئی دہلی: بدھ (21 مئی) کو کرناٹک بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایم ایل اے منی رتنا اور چار دیگر کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کی گئی ہے، جس میں ایک 40 سالہ خاتون نے ایم ایل اے پرگینگ ریپ  کی سازش کرنے، اسے مہلک وائرس کا انجکشن دینے اور اس کے چہرے پر پیشاب کرنے کاالزام لگایا ہے۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، پولیس حکام نے بتایا کہ بی جے پی کارکن ہونے کا دعویٰ کرنے والی متاثرہ  خاتون نے شمال مغربی بنگلورو کے آر ایم سی یارڈ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی اور بتایا کہ یہ واقعہ 11 جون 2023 کو پیش آیا تھا۔

اپنی شکایت میں متاثرہ نے کہا کہ ایم ایل اے کے ساتھیوں وسنتھا اور کمل نے انہیں متھیکیرے میں منی رتنا کے دفتر جانے کے لیے گمراہ کیا اور کہا کہ ایم ایل اے ان  کی فوجداری مقدمات کو حل کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جس کے بارے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ‘ایم ایل اے کے کہنے پر ہی ان  پر یہ معاملے جھوٹے طریقے سے تھوپے گئے ہیں۔’

خاتون نے الزام لگایا کہ دفتر کے اندر منی رتنا، وسنتھا، چنناکیشوا نے اس کے کپڑے اتارےاحتجاج کرنے پر اس کے بیٹے کوجان سے مارنے کی دھمکی دی۔

خاتون نے مزید الزام لگایا کہ ایم ایل اے نے ان کے چہرے پر پیشاب بھی کیا اور اس واقعے کے دوران ایک نامعلوم شخص مبینہ طور پر کمرے میں آیا اور ایم ایل اے کو سفید ڈبہ دیا۔ اس کے بعد ایم ایل اے نے ڈبے سے سرنج نکال کر خاتون کو انجکشن لگایا۔

ایف آئی آر کے مطابق، ایم ایل اے نے مبینہ طور پر انہیں دھمکی دی کہ اگر اس نے اس بارے میں کسی کو بتایا تو وہ ان  کے خاندان کو نہیں بخشے گا اور انہیں برباد کر دے گا۔

خاتون نے بتایا کہ انہیں رواں سال جنوری میں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا اور اس میں ایک لاعلاج وائرس کی تشخیص ہوئی، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ مبینہ واقعے کے دوران دیے گئے انجکشن کا نتیجہ ہے۔

گزشتہ 19 مئی کو خودکشی کی کوشش سے  بچنے کے بعد خاتون نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے میں پولیس کو رپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے پولیس کو بتایا، ‘میں نے اپنی جان لینے کی نیت سے گولیاں کھا لی تھیں۔ لیکن جب میں بچ گئی تو لگا کہ اب مجھے سچ بتانا چاہیے۔’

پولیس نے بتایا کہ ایم ایل اے، ان کے ساتھیوں وسنتھا، چنناکیشوا اور کمل اور ایک نامعلوم شخص کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔

معاملے کی تفتیش کرنے والے ایک سینئر پولیس افسر نے اخبار کو بتایا،’ہم نے ملزمین کے خلاف  دفعہ 376ڈی (گینگ ریپ)، 270 (انفیکشن پھیلانے کے ارادے سے کیا گیا کام)، 323 (چوٹ پہنچانا)، 354 (خاتون پر حملہ)، 504 (جان بوجھ کر توہین)، 506 (مجرمانہ دھمی ) اور 509(خاتون کے وقار کو مجروح کرنا)کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔’

خاتون نے الزام لگایا کہ منی رتنا بی جے پی میں اپنی سیاسی شمولیت کی وجہ سے کافی عرصے سے ان کے خلاف تعصب رکھتے تھے۔

انہوں نے دعویٰ کیا،’منی رتنا نے دوسروں کو میرے خلاف پینیا اور آر ایم سی یارڈ پولیس اسٹیشنوں میں جھوٹی شکایتیں درج کرانے کے لیے متاثر کیا۔’

فی الحال ایم ایل اے نے ان الزامات کے بارے میں کوئی ردعمل جاری نہیں کیا ہے۔

غورطلب  ہے کہ منی رتنا کا نام اس سے قبل  بھی ریپ، بلیک میلنگ، ہراساں کرنے، رشوت خوری، ذات پات اور گالی گلوچ کے معاملات میں سامنے آچکا ہے۔

Next Article

ہائی کورٹ کی سرزنش کے بعد ابھیجیت مترا نے نیوز لانڈری کی صحافیوں کے خلاف پوسٹ ہٹائی

نیوز لانڈری کی خاتون صحافیوں نے ابھیجیت ایر مترا کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ مترا نے ان کے خلاف توہین آمیز تبصرے کیے ہیں، جوجنسی بدسلوکی کے زمرے میں آتے ہیں۔ عدالت نے مترا کو اسے فوراً ہٹانے کو کہا۔

نیوز لانڈری کا لوگو اور ابھیجیت ایر مترا۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس / @newslaundryاور @Iyervval)

نیوز لانڈری کا لوگو اور ابھیجیت ایر مترا۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس / @newslaundryاور @Iyervval)

نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے بدھ (21 مئی) کو ڈیجیٹل نیوز پلیٹ فارم نیوز لانڈری کی نو خواتین صحافیوں کی طرف سے دائر ہتک عزت کے مقدمے میں تبصرہ نگار ابھیجیت ایر مترا کو اس وقت تک سننے سے انکار کر دیا جب تک کہ وہ اپنی مبینہ توہین آمیز پوسٹ کو ہٹا نہیں لیتے۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق،جسٹس پرشیندرکمار کورو نے ان کے وکیل جئے اننت دیہادرائی کو زبانی طور پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا، ‘کیا آپ ان ٹوئٹس کا دفاع کر سکتے ہیں؟ اس طرح  کی زبان،  خواہ اس کا پس منظر کچھ بھی ہو، کیا خواتین کے خلاف اس طرح  کی زبان معاشرے میں قابل قبول ہے؟ …آپ کو اسے ہٹانا ہوگا۔ تبھی ہم آپ کی بات سنیں گے۔’

ایر کی طرف سے پیش ہوئے ایڈوکیٹ جئے اننت دیہادرائی نے فوری اثر کے ساتھ پوسٹ کو ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی۔

عدالت نے کہا کہ ‘پوسٹ میں  استعمال کی گئی زبان کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے عدالت کا اولین نظریہ ہے کہ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل قبول نہیں ہے…’

معلوم ہو کہ نیوز لانڈری کی خاتون صحافیوں نے ابھیجیت ایر مترا کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مترا نے ان کے خلاف قابل اعتراض اور توہین آمیز تبصرے کیے ہیں، جو جنسی بدسلوکی  کے زمرے میں آتے ہیں۔

ان صحافیوں کی طرف سے دائر مقدمہ میں مترا سے عوامی طور پرمعافی اور مبینہ ہتک عزت کے لیے 2 کروڑ روپے ہرجانے اور معاوضے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جن خواتین صحافیوں نے مقدمہ درج کرایا ہے ان میں منیشا پانڈے، اشیتا پردیپ، سہاسنی بسواس، سمیدھا متل، تیستا رائے چودھری، تسنیم فاطمہ، پریہ جین، جئے شری اروناچلم اور پریالی ڈھینگرا شامل ہیں۔ نیوز لانڈری بھی اس مقدمے میں مدعیوں میں سے ایک ہے۔

عبوری راحت کے طور پر مترا کے ایکس  ہینڈل سے متنازعہ پوسٹ  ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مقدمے میں کہا گیا ہے کہ مترا کی جانب سے ایکس پر کی گئی مبینہ توہین آمیز پوسٹس ہتک آمیز، بے بنیاد اور غلط ہیں اور ان کا مقصد جان بوجھ کر خواتین صحافیوں کے وقار اور ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔

مترا پر نیوز لانڈری کی خواتین ملازمین کو ‘غلط اور بدنیتی سے’ لیبل کرنے اور انہیں ‘طوائف’ اور ان کے کام کی جگہ کو ‘کوٹھا’ کہنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔

اس میں  مترا پر ایکس  پر اپنی پوسٹس کی سیریز کے ذریعے مبینہ طور پر نازیبا کلمات اور گالی گلوچ کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

اپنی درخواست میں صحافیوں نے کہا کہ نیوز لانڈری کے سبھی صارفین کو ہندی میں’ویشیا’ کہا گیا ہے، جبکہ انہیں ( مترا) نہیں معلوم  کہ وہ ڈاکٹر، وکیل، جج، اساتذہ، سائنسدان، آرکیٹیکٹس، انجینئر وغیرہ ہیں۔

درخواست میں کہا گیا ہے، ‘کسی بھی عورت/شخص کو غیرانسانی نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ کسی بھی پیشے کو توہین کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ تبصرے خواتین کو – چاہے وہ صحافی ہوں یا سیکس ورکر –  ان کی شناخت اور وقار سے محروم کرتے ہیں۔’

شکایت میں کہا گیا ہے، ‘یہ جنسی بدسلوکی ہے، جس کا مقصد ادارے میں کام  کرنے والی خواتین پیشہ ور افراد کی تذلیل کرنا ہے، اور یہ ادارے پر براہ راست حملہ کے ساتھ ساتھ ان کے وقار اور بغیر کسی خوف یا جنسی ہراسانی کے کام کرنے کے حق پر بھی حملہ  ہے۔’

عدالت آئندہ ہفتے کیس کی دوبارہ سماعت کرے گی۔

عدالت کے ریمارکس کے بعد مترا نے ایکس  پر لکھا کہ انہیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے اور وہ ان پوسٹ کو ہٹا دیں گے۔ اس پوسٹ میں ایر نے ادارے کی فنڈنگ ​​پر بھی سوال اٹھائے ہیں۔

دریں اثنا، نیوز لانڈری کی مینیجنگ ایڈیٹر منیشا پانڈے، جو مترا کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے میں کلیدی درخواست گزار ہیں، نے ایکس پر ایک مضمون شیئر کیا ہے ، جس میں ویب سائٹ کی فنڈنگ ​​اور ملکیت کی تفصیلات دی گئی ہیں۔

Next Article

’ای ڈی ساری حدیں پار کر رہا ہے‘، سپریم کورٹ نے تمل ناڈو کارپوریشن کے خلاف جانچ پر روک لگائی

سپریم کورٹ نے جمعرات کو تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے خلاف تحقیقات پر روک لگا دی اور ای ڈی کو حدیں پار کرنے پر سرزنش کی۔ عدالت نے کہا کہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کر سکتے ہیں، لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کر سکتے؟

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

(علامتی تصویر بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات (22 مئی) کو ریاست کے زیر انتظام تمل ناڈو اسٹیٹ مارکیٹنگ کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم اے سی) کے خلاف تحقیقات پر روک لگا دی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی ) کو’سار ی حدیں پار کرنے’ پر سرزنش کی۔

چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح  کی بنچ تمل ناڈو حکومت اور ٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہی تھی، جس میں 23 اپریل کو مدراس ہائی کورٹ کی جانب ان کی درخواست کو خارج کیے جانے  کو چیلنج کیا گیا تھا، جس میں مبینہ بے ضابطگیوں کے سلسلے میں سے 6 اور 8 مارچ 2025 کے درمیان ٹی اے ایس ایم سی ہیڈکوارٹر پر ای ڈی  کے چھاپوں کو غیر قانونی قرار دینے کی مانگ کی گئی تھی۔

لائیو لاء کی رپورٹ کے مطابق، سی جے آئی گوئی نے مرکزی تفتیشی ایجنسی کی نمائندگی کررہے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو سے پوچھا،’آپ افراد کے خلاف تومقدمات درج کر سکتے ہیں لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمات درج نہیں کر سکتے؟ آپ کاای ڈی  ساری  حدیں پار کر رہا ہے۔’

سپریم کورٹ نے مدراس ہائی کورٹ کے فیصلےکو چیلنج کرنے والےٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے دائر ایس ایل پی پر ای ڈی کو نوٹس جاری کیا۔

ٹی اے ایس ایم سی اور اس کے ملازمین کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل کپل سبل اور مکل روہتگی نے دلیل دی کہ ایجنسی نے بغیر کسی ضابطے کے موبائل فون کی کلوننگ کرکے اور ذاتی آلات کو ضبط کرکے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے۔

سبل نے کہا، ‘ہم نے پایا کہ جن لوگوں کو آؤٹ لیٹ دیے گئے ہیں ان میں سے کچھ حقیقت میں نقد لے رہے ہیں۔ اس لیے ریاست نے خود کارپوریشن کے خلاف نہیں بلکہ 2014-21 سے افراد کے خلاف 41 ایف آئی آر درج کیں۔ ای ڈی  2025 میں سامنے آتا ہے اور کارپوریشن (ٹی اے ایس ایم سی) اور ہیڈ آفس پر چھاپہ مارتا ہے۔ سارے فون لے لیے گئے، سب کچھ لے لیا گیا۔ سب کچھ کلون کیا گیا۔’

اس پر سی جے آئی نے پوچھا، ‘کارپوریشن کے خلاف جرم کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ افراد کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کر سکتے ہیں، لیکن کارپوریشن کے خلاف فوجداری مقدمہ درج نہیں کر سکتے؟’

انہوں نے کہا کہ ‘آپ ملک کے وفاقی ڈھانچے کی مکمل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔’

سبل نے عدالت عظمیٰ سے بھی درخواست کی کہ وہ ای ڈی کو فون اور آلات سے کلون شدہ ڈیٹا کے استعمال سے روکے۔ انہوں نے کہا، ‘یہ پرائیویسی  کا معاملہ ہے!’ تاہم، بنچ نے مشاہدہ کیا کہ درخواست گزاروں کو عبوری راحت پہلے ہی دی جا چکی ہے اور وہ مزید کوئی ہدایات نہیں دے سکتی۔

مدراس ہائی کورٹ کی بنچ نے 23 اپریل کوٹی اے ایس ایم سی کی طرف سے اپنے ہیڈکوارٹر میں ای ڈی  کی طرف سے کی گئی تلاشی اور ضبطی کی کارروائی کے خلاف دائر تین رٹ درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔ بنچ نے درخواستوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا تھا کہ چھاپوں اور اچانک معائنہ کے دوران ملازمین کو حراست میں لیناضابطے کا معاملہ ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ای ڈی نے حال ہی میں تمل ناڈو میں کئی مقامات پر نئے سرے سےچھاپے مارے، جن میں ٹی اے ایس ایم سی کے منیجنگ ڈائریکٹر ایس وسکن اور فلمساز آکاش بھاسکرن کے گھر بھی شامل ہیں۔وسکن سے مبینہ طور پر تقریباً 10 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی۔