اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں19سالہ دلت لڑکی کے ساتھ مبینہ طور پر گینگ ریپ اورموت کے بعد انتظامیہ کی جانب سے گاؤں کو سیل کر دیا گیاتھا۔ اس کے باوجودوہاں سے تقریباً 500 میٹر دور ٹھاکر کمیونٹی کے سینکڑوں لوگوں نے ملزمین کی حمایت میں جمع ہوکر احتجاجی مظاہرہ کیا اور ان کے لیے انصاف کامطالبہ کیا۔
ہاتھرس میں گینگ ریپ متاثرہ کے ملزمین کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ کرتے ٹھاکر کمیونٹی کے لوگ۔ (فوٹو: ٹوئٹر/@kirubamunusamy)
نئی دہلی: اتر پردیش کے ہاتھرس ضلع میں 19سالہ دلت لڑکی کے ساتھ اشرافیہ کے چار نوجوانوں نےجس گاؤں میں مبینہ طورپرگینگ ریپ کیا تھا، جمعہ کو وہاں سے تقریباً500 میٹر دور ٹھاکر کمیونٹی کےسینکڑوں لوگوں نے ملزمین کی حمایت میں اکٹھا ہوکر مظاہرہ کیا اور ان کے لیےانصاف کا مطالبہ کیا۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،احتجاجی مظاہرہ جمعہ کو صبح تقریباً10 بجے شروع ہوا تھا۔مظاہرین نے اس دوران معاملے پر چرچہ کی اور گرفتاری اور جانچ پرتشویش کا اظہار کیا۔
مظاہرہ میں شامل ایک شخص اوجویر سنگھ رانا نے کہا، ‘ہم ضلع مجسٹریٹ کےاحکامات کااحترام کرتے ہیں لیکن یہ مظاہرہ ہم نے انصاف کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے کیا ہے۔ ایک واقعہ نے ہماری کمیونٹی کی امیج کو تار تار کر دیا ہے۔ پولیس اور حکام کے پاس (ملزمین کے خلاف)کافی ثبوت نہیں ہیں۔ اگر وہ قصوروارہیں تو انہیں سزا دیجیے، لیکن اگر وہ قصوروار نہیں ہیں تو انہیں رہا کر دیں۔’
ایک اور مقامی گووند شرما نے کہا، ‘میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ معاملے پر چرچہ کے لیے ایک مہاپنچایت بلائی جائےگی۔ ہم ایک کھیت کے پاس بیٹھے تھے، جہاں گرام پردھان اور دوسرے مقامی لوگوں نے ملزمین اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں تقریر کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ میڈیکل رپورٹ میں ریپ کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ ہمیں نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہم جابرکہلانا نہیں چاہتے ہیں، یہاں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔’
انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گرام پردھان رام کمار نے ان کے کال اور ٹیکسٹ کا جواب نہیں دیا۔
رانا نے کہا، ‘ہم تمام طبقوں کا احترام کرتے ہیں۔ میں خود ایک کسان اور مزدور ہوں۔ میں سمجھ سکتا ہوں کہ گھر والوں پر کیا بیت رہی ہے، لیکن انہیں(ملزم)مردوں پرالزام نہیں لگانا چاہیے اور اس کو ذات پر مبنی تشدد نہیں کہنا چاہیے۔’
آس پاس کے گاؤں کے مقامی لوگ بھی ملزمین کی حمایت میں آئے اوراحتجاج میں شامل ہوئے۔بتا دیں کہ جمعرات کو ضلع مجسٹریٹ پروین کمار لکشکار نے میڈیا کو بتایا تھا کہ جس گاؤں میں(متاثرہ)لڑکی رہتی تھی اسے ایس آئی ٹی جانچ اور ہاتھرس میں دفعہ144 نافذ ہونے کی وجہ سے سیل کر دیا گیا ہے۔
مظاہرین کو ایک گھنٹے کے اندرمیدان سے ہٹا دیا گیا اور علاقے میں پولیس تعینات کر دی گئی۔مقامی پولیس افسروں نے کہا کہ کچھ ہی مظاہرین تھے جو ایک زمین پر اکٹھا ہوئے تھے اور حکام کی دخل اندازی کے بعدوہاں سے الگ ہو گئے تھے۔
بتادیں کہ 19سالہ لڑکی سے گزشتہ14 ستمبر کو
گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ بری طرح مارپیٹ بھی کی گئی تھی۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں شدید چوٹیں آئی تھیں۔ ملزمین نے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔ ان کا علاج علی گڑھ کے ایک اسپتال میں چل رہا تھا۔تقریباً10دن کے علاج کے بعد انہیں دہلی کے صفدرجنگ اسپتال میں بھرتی کرایا گیا تھا۔
واقعہ کے 9 دن بیت جانے کے بعد 21 ستمبر کو لڑکی ہوش میں آئی تو اپنے ساتھ ہوئی آپ بیتی اپنے گھروالوں کو بتائی۔ اس کے بعد 23 ستمبر کو انہوں نے پولیس کے سامنےبیان دیا تھا۔متاثرہ پانچ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔
29 ستمبر کو لڑکی نے علاج کے دوران دم توڑ دیا تھا۔ اس کے بعد گھر والوں نے پولیس پر ان کی رضامندی کے بغیر آناًفاناً میں29 ستمبر کو ہی دیر رات آخری رسومات کی ادائیگی کا الزام لگایا تھا۔ حالانکہ، پولیس نے اس سے انکار کیا ہے۔
لڑکی کے بھائی کی شکایت پرچار ملزمین سندیپ (20)،اس کے چچا روی(35)اور دوست لوکش (23)اور رامو (26)کوگرفتار کیا گیا ہے۔ان کے خلاف گینگ ریپ اور قتل کی کوشش کے علاوہ ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
اس بیچ ہاتھرس کے ضلع مجسٹریٹ پروین کمار لکشکار کے ذریعے متاثرہ کے والدکو مبینہ طور پر دھمکی دینے کا ایک ویڈیو بھی سامنے آیا تھا، جس کے بعد معاملے کو لےکر پولیس اور انتظامیہ کے رول کی تنقید ہو رہی ہے۔
لڑکی کی موت کے بعدجلدبازی میں آخری رسومات کی ادائیگی کے معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے نوٹس لیتے ہوئے ریاستی سرکار کو نوٹس جاری کیا ہے۔نیشنل وومین کمیشن (این سی ڈبلیو)نے اتر پردیش پولیس سے جلدبازی میں رسومات کی ادائیگی پر جواب مانگا ہے۔