انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انڈیا کے مطابق، ستمبر 2015 سے اب تک مبینہ طور پرہیٹ کرائم کے کل 721 معاملے سامنے آئے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف ہوئے جرائم کی ہے۔
اسمبلی کی کارروائی ملتوی ہونے کے بعد اتر پردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بدھ کو لکھنؤ میں صحافیوں کو مخاطب کیا۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انڈیا نے منگل کو جاری نئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 2018 میں حاشیے پر پڑے لوگوں، خاص طور پر دلتوں کے خلاف ہیٹ کرائم کے مبینہ طور پر 200 سے زیادہ معاملے سامنے آئے۔ اس طرح کے واقعات میں اتر پردیش لگاتار تیسرے سال سرفہرست ہے۔ ایمنسٹی انڈیا نے
اپنی ویب سائٹ پر ریکارڈ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہیٹ کرائم کے معاملے حاشیائی طبقوں کے خلاف سامنے آئے، جن میں دلت اور آدیواسی،مذہبی اقلیتی گروہ، ٹرانس جینڈر افراد اور مہاجر شامل ہیں۔
سال2018 میں ویب سائٹ نے مبینہ طور پر ہیٹ کرائم کے 218 واقعات کا دستاویز تیارکیا ہے۔ ان میں سے 142 معاملے دلتوں، 50 معاملے مسلمانوں اور آٹھ-آٹھ معاملے عیسائی، آدیواسی اور ٹرانس جینڈروں کے خلاف ہیں۔یہ سروے انگریزی اور ہندی میڈیا میں رپورٹ کئے گئے معاملوں پر مبنی ہے۔
ایمنسٹی انڈیا کے مطابق ہیٹ کرائم کے سب سے زیادہ 142 معاملے دلت کمیونٹی کے خلاف ہوئے۔
ایمنسٹی انڈیا نے کہا کہ 97 واقعات حملے کے ہیں اور 87 قتل کے معاملے ہیں۔ 40 معاملے ایسے ہیں جن میں حاشیے پر پڑے کمیونٹی کی خاتون یا ٹرانس جینڈر افراد کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاص طور پر دلت خواتین نے بڑی تعداد میں جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے۔ 40 میں سے 30 معاملے ان کے خلاف ہی ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، گئو رکشا سے جڑے تشدد اور آنر کلنگ ہیٹ کرائم کی عام مثالیں ہیں۔ ایسے جرائم میں اتر پردیش، گجرات، راجستھان، تمل ناڈو اور بہار سرفہرست پانچ ریاستوں میں شامل ہیں۔ اتر پردیش(57)، گجرات (22)، راجستھان (18)، تمل ناڈو (16)اور بہار (14)معاملے مبینہ طور پر ہیٹ کرائم کے سامنے آئے ہیں۔اتر پردیش میں سب سے زیادہ 57 معاملے سامنے آئے اور یہ لگاتار تیسرا سال ہے جب یہ ریاست سرفہرست ہے۔ سال 2017 میں 50 اور 2016 میں 60 معاملے درج کئے گئے تھے۔
ایمنسٹی انڈیا کے مطابق سال 2018 میں ہیٹ کرائم کے سب سے زیادہ 57 معاملے اتر پردیش میں سامنے آئے۔
ایمنسٹی انڈیا کے صدر آکار پٹیل نے کہا، ہیٹ کرائم سے متعلق سب سے پہلا قدم انصاف کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کہاں سب سے زیادہ لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیونکہ یہ لوگ ایک گروہ خاص سے جڑے ہیں۔ ‘پٹیل نے کہا،بد قسمتی سے ہم ہندوستان میں ہونے والے ہیٹ کرائم سے متعلق جرائم سے انجان ہیں کیونکہ کچھ استثنا کو چھوڑکے، ملک کے قانون میں ہیٹ کرائم کی ایک الگ زمرہ کے جرائم کے طور پر پہچان نہیں کی گئی ہے۔ پولیس کو ان جرائم کے پیچھے چھپے امتیازی سلوک کی منشایا ارادے کو اجاگر کرنے کی طرف قدم اٹھانا چاہیے اور رہنماؤں کو ان جرائم کی مذمت کرنی چاہیے۔ ‘
ایمنسٹی انڈیا کے مطابق، ویب سائٹ پر ستمبر 2015 سے ہوئے تمام ہیٹ کرائم کو درج کیا گیا ہے، جب دادری (اتر پردیش) میں مبینہ طور پر گئو کشی کے لئے محمد اخلاق کو جان سے مار دیا گیا تھا۔اس کے مطابق، ستمبر 2015 سے اب تک، مبینہ طور پر ہوئے ہیٹ کرائم کے کل 721 معاملے سامنے آئے ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف ہوئے جرائم کی ہے۔
آکار پٹیل نے کہا، ہماری ویب سائٹ پر دئے گئے اعداد و شمار پوری تصویر کا بس ایک چھوٹا حصہ بھر ہے۔ کئی معاملوں کی شکایت پولیس سے نہیں کی جاتی ہے، اور جب شکایت کی بھی جاتی ہے تو کئی بار مین اسٹریم میڈیا میں اس کی جانکاری نہیں آتی۔ ‘انہوں نے کہا،حالانکہ کچھ معاملوں میں تفتیش شروع کی گئی ہے، لیکن کئی معاملوں میں مجرم بچ نکلے ہیں۔ متاثرین اور ان کی فیملیوں کو انصاف دلانے کے لئے افسروں کو اور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)