اس ہفتے ہریانہ کے نوح میں تشدد کے بعد ضلع انتظامیہ نے جمعہ کو مکان اور املاک کو مسمار کرنے کا عمل شروع کیا ہے۔ ایک طرف کچھ اہلکار کہہ رہے ہیں کہ توڑ پھوڑ کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے تو دوسری طرف کچھ حکام کا دعویٰ ہے کہ کچھ املاک کے مالکان تشدد میں ملوث تھے۔
تشدد سے متاثرہ نوح میں ہفتے کے روز انتظامیہ کی جانب سے کی گئی بلڈوزر کارروائی کی تصویر۔ (فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی ویڈیو اسکرین شاٹ)
نئی دہلی: ہریانہ کے نوح ضلع کے نلہر میڈیکل روڈ پر تقریباً 45 دکانیں منہدم کر دی گئیں۔ نوح ضلع انتظامیہ نے اے این آئی کو بتایا کہ یہ تمام دکانیں بغیر اجازت کے بنائی گئی ہیں اور غیر قانونی ہیں۔
لائیو منٹ نے پی ٹی آئی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس سے پہلے جمعہ کے روز حکام نے تاؤر شہر اور نوح ضلع کے ملحقہ علاقوں میں تقریباً 250 جھونپڑیوں کو بلڈوز کر دیا تھا۔ اس کے لیے یہ حوالہ دیا گیا کہ یہ سرکاری زمین پر تعمیر کیے گئے ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، تاؤر کی جھگی بستی کواس لیے بلڈوز کر دیا گیاکہ حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے کچھ رہائشی 31 جولائی کے فرقہ وارانہ جھڑپوں میں ملوث پائے گئے تھے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس بستی کے 14 نوجوان پتھراؤ میں ملوث تھے۔ تاہم، انہدامی کارروائی کی وجہ ہریانہ اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایچ ایس وی پی) کی زمین پر تجاوزات بتائی گئی۔
ان میں نلہر کے شیو مندر کے قریب واقع بعض گھروں کو بھی توڑا گیا ہے، جو 31 جولائی کو مذہبی جلوس کے دوران تصادم کا مرکز تھا۔
ٹائمز آف انڈیا نے پی ٹی آئی کے حوالے سے بتایا ہے کہ چندی گڑھ میں ایک پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ انل وج نے کہا کہ ان جھڑپوں میں ملوث کسی بھی شخص کو بخشا نہیں جائے گا۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی تبصرہ کیا تھاکہ ‘بلڈوزر بھی ایک کارروائی ہے۔’
منٹ کے مطابق، ریاستی حکومت کے افسران نے کہا کہ انہدامی کارروائی کے نتیجے میں نلہر شیو مندر کے پیچھے جنگل کی پانچ ایکڑ اراضی کو تجاوزات سے آزاد کرایا گیا ہے، جبکہ پنہانا میں چھ ایکڑ، دھوبی گھاٹ میں ایک ایکڑ اور نانگل مبارک پور میں دو ایکڑ تجاوزات سےآزادکر ایا گیا ہے۔
دریں اثنا،
انڈین ایکسپریس کے مطابق، نوح کے ڈپٹی کمشنر پرشانت پنوار اور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ورون سنگلا کا ایک سرکاری حکم میں تبادلہ کر دیا گیا ہے۔ سنگلا جو جھڑپ کے وقت چھٹی پر تھے، کی جگہ نریندر بجارنیا کو مقرر کیا گیا ہے۔
اپنے تبادلے سے چند گھنٹے قبل پنوار نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ضلع میں ‘تجاوزات کی گئی اراضی’ پر عمارتیں مسمار کر دی گئی ہیں۔
ایک ہسپتال میں گارڈ کے طور پر کام کرنے والےنلہر کے 56 سالہ آس محمد نے بتایا کہ ان کے گھر کو گرائے جانے سے عین قبل انہیں محکمہ جنگلات کی طرف سے نوٹس موصول ہوا تھا۔
یہ بتاتے ہوئے کہ ان کا گھر 1999 میں بنایا گیا تھا،محمد نے کہا، مجھے آج (جمعہ) شام 4 بجے کے قریب نوٹس اس وقت دیا گیا جب میں کام پر جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ وہ میرا گھر دو دن میں گرا دیں گے لیکن آدھے گھنٹے بعد ایک بلڈوزر آیا اور محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار نے مجھے اپنا سامان نکالنے کو کہا۔
انڈین ایکسپریس نے بتایا ہے کہ محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے انہدام کے وقت اٹھائے گئے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
دو اور خاندانوں نے بتایا کہ انہیں بھی بلڈوزر کے آنے سے چند گھنٹے قبل ہی نوٹس موصول ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مذکورہ زمین پر گزشتہ 35 سال سے رہائش پذیر تھے۔
سولہ سالہ بفرینا، جن کے والد کا چار سال قبل انتقال ہو گیا تھا، نے کہا، ‘جب ہمارے دروازوں پر دو نوٹس چسپاں کیے گئے تو ہم گھر پر نہیں تھے۔ چونکہ ہم انگریزی نہیں پڑھ سکتے اس لیے قریبی گھر گئے اور انہوں نےبتایا کہ حکم میں کہا گیا ہے کہ سات دن کے اندر مکانات گرا دیے جائیں گے۔
کورونا کی وبا میں اپنے شوہر کوکھو چکی محرم کا گھر بھی مسمار کر دیا گیا۔ وہ کہتی ہیں، ‘دونوں گھروں میں مرد نہیں ہیں اور ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنا سامان نکالنے کا وقت بھی نہیں دیا۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ایک رہائشی گلزار عالم نے کہا کہ ہمیں صرف اس لیے ہراساں کیا جا رہا ہے کہ ہمارا تعلق اقلیتی برادری سے ہے۔
ایک اور رہائشی حسن علی نے کہا، ’ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہے، نہ کھانا اور نہ ہی بارش کے موسم میں سونے کے لیے کوئی ٹھکانہ۔‘
تاہم، ایک سینئر پولیس افسر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ توڑ پھوڑ کا فرقہ وارانہ تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کے مکانات گرائے جا رہے ہیں ان میں سے کوئی بھی (تشدد) کیس میں ملزم نہیں ہے۔
لیکن دوسری طرف ایس ڈی ایم اشونی کمار نے
کہا ہے کہ ‘نلہر میڈیکل کالج کے سامنے 2.6 ایکڑ اراضی سے غیر قانونی تعمیرات ہٹا دی گئیں۔ میڈیکل کالج کے اطراف میں 45 سے زائد غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ تقریباً 13-15 عارضی غیر قانونی تعمیرات کو بھی مسمار کر دیا گیا ہے۔ گرائی گئی تعمیرات کے مالکان کو پہلے ہی نوٹس دے دیے گئے تھے۔ برج منڈل یاترا کے دوران ہونے والے تشدد میں کچھ ڈھانچوں کے مالکان بھی ملوث تھے۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، نوح کے ایس پی نریندر سنگھ بجارنیا نے بھی جمعہ کو کہا ہے کہ تاؤرو بستی کے کچھ نوجوانوں کو فسادات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
وہیں، نوح پولیس کے ترجمان کرشنا کمار نے کہا، رہائشیوں کو پہلے نوٹس دیا گیا تھا، لیکن انہوں نے جواب نہیں دیا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کچھ پتھر بازوں نے گھروں کو اپنے ٹھکانے کے طور پر استعمال کیا اور یہاں سے عقیدت مندوں پر پتھر برسائے۔
قابل ذکر ہے کہ ہریانہ میں سوموار (31 جولائی) کو نوح میں ہندو دائیں بازو کے گروپوں کی طرف سے نکالی گئی ‘شوبھا یاترا’ کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس میں اب تک چھ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ تشدد دوسرے علاقوں میں بھی پھیل گیا، اور 1 اگست کو تشدد کے دوران گڑگاؤں کے بادشاہ پور میں کم از کم 14 دکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا، جن میں سے
زیادہ تر مسلمانوں کی تھیں۔