وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالا کی بیٹھک کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ ریاست کی بی جے پی قیادت والی سرکار نئے زرعی قوانین کو لےکر کسانوں کی شدید مخالفت کا سامنا کر رہی ہے۔
ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہرلال کھٹر۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: کسانوں کی شدید مخالفت کا سامنا کر رہی ہریانہ بی جے پی نے بدھ کو زرعی قوانین پر بیداری سے متعلق پروگرام پرغیر متعینہ مدت کے لیے روک لگا دی۔ بتایا گیا ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا ہے کہ ٹکراؤ کی حالت سے بچا جائے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہریانہ کے نائب وزیر اعلیٰ دشینت چوٹالا کی ہوئی بیٹھک کے بعد یہ قدم اٹھایا گیا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق ذرائع نے کہا کہ بیٹھک میں زرعی قوانین اور ریلوے لائنس پر چرچہ ہوئی تھی۔
معلوم ہو کہ بی جے پی اور چوٹالا کی جننایک جنتا پارٹی کوریاست میں کسانوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کی وجہ سے ان پر دباؤ کافی بڑھ گیا ہے۔کچھ دن پہلے ہی منوہر لال کھٹر کرنال کے کیملا گاؤں میں مرکزکے تینوں زرعی قوانین کا فائدہ بتانے کے لیے کسان مہاپنچایت کوخطاب کرنے والے تھے۔
لیکن کسان کالے جھنڈے کے ساتھ بی جے پی قیادت والی سرکار کے خلاف نعرےبازی کرتے ہوئے مظاہرہ کرنے لگے۔ جس کے بعد پارٹی کو یہ پروگرام رد کرنا پڑا تھا۔اس طرح کا ایک واقعہ اس وقت ہوا، جب کچھ دنوں پہلے امبالہ میں کسانوں کی مشتعل بھیڑ نے کھٹر کے قافلے کو روک لیا تھا۔
اس سے پہلے ریاست کے وزیر داخلہ کےقافلے کو بھی کسانوں نے روک لیا تھا اورسرکار مخالف نعرےبازی کی تھی۔ایک سینئر رہنما نے اس اخبار کو بتایا،‘امت شاہ نے کہا ہے کہ فی الحال ایسےپروگرام نہیں کیے جانے چاہیے، کیونکہ اس سے کسانوں سے ٹکراؤ بڑھ سکتا ہے۔’
وہیں ریاست کےوزیرتعلیم کنور پال گجر نے کہا کہ وہ ابھی ہریانہ میں کوئی عوامی اجلاس نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا، ‘امت شاہ جی نے کہا ہے کہ جب تک مظاہرہ چل رہا ہے اور بات چیت جاری ہے، اس معاملے کاحل بات چیت کے ذریعے کیا جانا چاہیے اور ایسےپروگرام سے بچا جائے۔’
بتادیں کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ 12 جنوری کو دہلی کی سرحدوں پر دھرنا دے رہے کسان تنظیموں کے بیچ جاری تعطل کو ختم کرنے کے ارادے سے ان قوانین کے عمل پر اگلے آرڈر تک روک لگا دی تھی۔
حالانکہ کمیٹی بننے کے بعد کسانوں نے کہا تھا کہ وہ اس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کورٹ کی کمیٹی کے ممبر سرکار کے حامی ہیں، جو ان قوانین کے حق میں ہیں۔ اسی کو لےکر اب مان پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
اس سے پہلے 11 جنوری کو سپریم کورٹ نے تین زرعی قوانین کو لےکر کسانوں کے مظاہرہ سے نمٹنے کے طریقے پرمرکز کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے کہا تھا کسانوں کے ساتھ اس کی بات چیت کے طریقے سے وہ ‘بہت مایوس’ہیں۔
غورطلب ہے کہ اس سے پہلے مرکز اور کسانوں کے بیچ ہوئی آٹھویں دور کی بات چیت میں بھی کوئی حل نکلتا نظر نہیں آیا کیونکہ مرکز نے متنازعہ قانون کو رد کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کسان رہنماؤں نے کہا تھا کہ وہ آخری سانس تک لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں اور ان کی‘گھر واپسی’ صرف قانون واپسی کے بعد ہوگی۔
مرکز اور کسان رہنماؤں کے بیچ 15 جنوری کو اگلی بیٹھک مجوزہ ہے۔ حالانکہ، اس دوران ایسی خبریں آئی تھیں کہ سرکار نے کہا کہ اس معاملے کا فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنے دیں۔حالانکہ، اس کے بعد کسان تنظیموں نے کہا کہ قانون سرکار نے بنایا ہے اور ہم اسی سے قانون واپس لینے کی مانگ کر رہے ہیں اورسپریم کورٹ کے کسی فیصلے کے بعد بھی واپس نہیں لوٹیں گے۔
سوموار کو عدالت نے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں سے کہا، ‘آپ کو بھروسہ ہو یا نہیں، ہم بھارت کی سب سے بڑی عدالت ہیں، ہم اپنا کام کریں گے۔’
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔