گجرات فسادات میں مارے گئے کانگریس رہنماحسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری نے ایس آئی ٹی کی جانب سےنریندر مودی سمیت کئی رہنماؤں، نوکرشاہوں کو ملی کلین چٹ کو چیلنج دیا ہے۔ کئی بار ٹل چکی شنوائی کی اگلی تاریخ طے کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ اب اسےملتوی کرنے کی کسی درخواست کو قبول نہیں کرےگی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے 2002 گجرات فسادات میں ریاست کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو دی گئی ایس آئی ٹی کی کلین چٹ کو چیلنج دینے والی ذکیہ جعفری کی عرضی پر شنوائی کے لیے منگل کو 13 اپریل کی تاریخ طے کی اور کہا کہ وہ اگلی تاریخ میں شنوائی ملتوی کرنے کی کسی درخواست کو قبول نہیں کرےگی۔ ذکیہ فسادات میں مارے گئے کانگریسی رہنما احسان جعفری کی اہلیہ ہیں۔
جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس دنیش ماہیشوری اور جسٹس کرشن مراری کی بنچ نے ذکیہ کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل کی اس درخواست پر غور کیا کہ معاملے کی شنوائی اپریل میں کسی دن کی جائے، کیونکہ کئی وکیل مراٹھا ریزرویشن معاملے میں مصروف ہیں۔ مراٹھا ریزرویشن معاملے کی شنوائی پانچ ججوں کی آئینی بنچ کر رہی ہے۔
گجرات سرکار کی جانب سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے شنوائی ملتوی کرنے کی عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ معاملے پر اگلے ہفتےشنوائی ہونی چاہیے۔ایس آئی ٹی کی جانب سے سینئر وکیل مکل روہتگی نے بھی شنوائی ملتوی کیے جانے کی عرضی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ معاملے پر فیصلہ سنایا جانا چاہیے۔
بنچ نے کہا، ‘معاملے کی آگے کی شنوائی کے لیے 13 اپریل کی تاریخ طے کی جائے۔ معاملے کی شنوائی ملتوی کرنے کی کسی درخواست کو اب قبول نہیں کیا جائےگا۔’عدالت نے پچھلے سال فروری میں معاملے کی شنوائی کے لیے 14 اپریل، 2020 کی تاریخ طے کرتے ہوئے کہا تھا کہ شنوائی کئی بار ملتوی کی جا چکی ہے اور اس کی کسی نہ کسی دن شنوائی کرنی ہی ہوگی۔
اس سے پہلےذکیہ کے وکیل نے عدالت سے کہا تھا کہ عرضی پر ایک نوٹس جاری کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ 27 فروری، 2002 سے مئی 2002 تک مبینہ‘بڑی سازش ’ سے متعلق ہے۔
غورطلب ہے کہ گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے ایک کوچ میں آگ لگائے جانے میں 59 لوگوں کے مارے جانے کے واقعہ کے ٹھیک ایک دن بعد 28 فروری 2002 کو احمدآباد کی گل برگ سوسائٹی میں 68 لوگ مارے گئے تھے۔ مارے گئے لوگوں میں احسان جعفری بھی شامل تھے۔
واقعہ کے تقریباً 10 سال بعد آٹھ فروری، 2012 کو ایس آئی ٹی نے مودی اور 63 دیگر کو کلین چٹ دیتے ہوئے ‘کلوزر رپورٹ’داخل کی تھی۔کلوزر رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ جانچ ایجنسی کوملزمین کے خلاف مقدمہ چلانے لائق کوئی ثبوت نہیں ملا۔
اس کے بعد 2012 میں میٹرپولیٹین کورٹ نے گودھرا فسادات کے 58 ملزمین کو بری کیا تھا۔ عدالت نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ذکیہ کی شکایت میں بتائے گئے 58 ملزمین میں سے کسی کے خلاف بھی کوئی جرم طے نہیں کیا جا سکا۔
سال2012 میں سونپی گئی ایس آئی ٹی کی کلوزر رپورٹ کے خلاف ذکیہ نے 2014 میں گجرات ہائی کورٹ کا رخ کیا تھا۔ جس نے ایس آئی ٹی کی کلوزر رپورٹ کے قانونی جواز کو برقرار رکھتے ہوئے ذکیہ کے الزامات کو خارج کر دیا۔
حالانکہ گجرات ہائی کورٹ نے ذکیہ کے الزامات کو لےکر کسی اورعدالت میں معاملے کی نئے سرے سے جانچ کرانے کی اجازت دی تھی اور ٹرائل کورٹ کے اس فیصلے کو پلٹ دیا، جس میں معاملے کی نئے سرے سے جانچ کے امکانات کو یہ مانتے ہوئے خارج کر دیا کہ ایس آئی ٹی سپریم کورٹ کی نگرانی میں جانچ کر رہی تھی۔
ذکیہ نے ایس آئی ٹی کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی کو خارج کرنے کے گجرات ہائی کورٹ کے پانچ اکتوبر، 2017 کے آرڈر کو 2018 میں سپریم کورٹ میں چیلنج دیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)