گجرات کے داہود ضلع کے رندھیک پور میں گزشتہ 7 مارچ کو ایک مسلم آٹورکشہ ڈرائیورسے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ اس میں ایک شخص کی جان چلی گئی جبکہ دوسرا زخمی ہوگیا۔ حادثہ کے بعد مرنے والے اور زخمی کے لواحقین رندھیک پور کے اس علاقے میں گئے جہاں مسلمان رہتے تھے۔ ان کی دھمکی کے بعد مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑ دیے ہیں۔
(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)
گجرات کے داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ میں آنے والا رندھیک پور گاؤں 2002 کے فسادات کے دوران خبروں میں تھا، جب بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا اور اور ان کے خاندان کے کئی افراد کو ان کے سامنے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کو عدالتوں نے ریاست میں 2002 کے فسادات کے دوران ہونے والے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا تھا۔
پچھلے کچھ سالوں میں اس علاقے میں حالات معمول پر آ گئے تھے، جہاں فسادات سے متاثرہ لوگ اپنے گھروں میں رہنے کے لیے واپس آ گئے تھے، لیکن گزشتہ 7 مارچ کی شام کو ایک آٹو رکشہ کے ایکسیڈنٹ کے بعد حالات پھر خراب ہوگئے۔
گزشتہ 7 مارچ کو شام 5:00 بجے رندھیک پور اور سنجیلی کے درمیان واقع منڈیر گاؤں میں ایک آٹورکشہ راستے میں جا رہے دو لوگوں سے ٹکرا گیا، اس واقعے میں ایک شخص کی موت ہو گئی، جبکہ دوسرا شخص زخمی ہو گیا۔
آٹورکشہ ڈرائیور کی شناخت رندھیک پور کے رہنے والے فاروق کے طور پر کی گئی ہے، جبکہ مہلوک قریب کے ہی کاریوا گاؤں کے رہنے والے ایک آدی واسی دکشت للو بھائی نسرتا تھے۔ زخمی شخص بھی اسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔
اس سلسلے میں متوفی کے اہل خانہ کی جانب سے آٹورکشہ ڈرائیور فاروق کے خلاف رندھیک پور تھانے میں مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔
حادثے کے بعد زخمی شخص کو علاج اور متوفی کو پوسٹ مارٹم کے لیے کے لیے رندھیک پور سی ایچ سی لے جایا گیا۔ اس دوران یہاں مرنے والوں اور زخمی شخص کے لواحقین جمع ہونے لگے اورمبینہ طور پر مسلم مخالف مظاہروں کا ماحول بننا شروع ہوگیا۔
یہاں سے یہ لوگ بھیڑ کی شکل میں رندھیک پور کےاس علاقے میں گئے جہاں مسلم کمیونٹی کے لوگ رہتے تھے۔ ان لوگوں نے یہاں پر خوب شور شرابہ کیا اور مبینہ طور پر مسلمانوں کو دھمکی دی۔
ذرائع نے بتایا کہ وہاں موجود کچھ دیگر کمیونٹی کے مقامی لوگوں نے بھی ہجوم کی دھمکیوں کی حمایت کی۔
آٹورکشہ ڈرائیور فاروق کے مطابق، وہ لوگ یہاں حملے کی کوشش میں تھے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی تیاری کر پاتے رندھیک پور کے زیادہ تر مسلمانوں نے اپنا گھر چھوڑ دیا اور پاس کے گاؤں دیوگٹھ باریا اور کچھ گودھرا میں اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے گئے۔
فی الحال رندھیک پور میں صرف ایک مسلم خاتون اور اس کا بیٹاہے۔ خاتون اپنے شوہروں کی موت کے بعد عدت میں ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ کسی بھی ‘ناخوشگوار واقعے’ کو روکنے کے لیے رندھیک پور میں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات ہے۔ اس واقعہ کے سلسلے میں مقامی تھانہ انچارج سے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی۔
ذرائع نے بتایا کہ رندھیک پور کے مسلم کمیونٹی کے لوگ ابھی تک اپنے گھروں کو نہیں لوٹے ہیں۔ حالانکہ پولیس انہیں واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن لوگوں میں اب بھی خوف کا ماحول ہے۔
معلوم ہو کہ بلقیس بانو چند ماہ قبل ایک بار پھر سرخیوں میں آگئی تھیں۔ 15 اگست 2022 کو اپنی معافی پالیسی کے تحت گجرات کی بی جے پی حکومت کی سے معافی دیے جانے کے بعدبلقیس بانو کے گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے تمام معاملوں میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے 11 مجرموں کو 16 اگست 2022 کو گودھرا سب ڈویژنل کورٹ سے رہا کر دیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں ریپ اور قتل کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے ان لوگوں کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا جا رہا ہے۔ جس پر کارکنوں نے
شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت
6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی تھی۔
اس کے بعد نومبر 2022 میں بلقیس بانو نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں مجرموں کی رہائی اور ان کی سزا میں چھوٹ دینے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
بتادیں کہ 3 مارچ 2002 کو 11 افراد نے 19 سالہ بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا تھ۔ اس وقت وہ حاملہ تھیں اور تب وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ تشدد میں ان کے خاندان کے سات افراد بھی مارے گئے تھے، جن میں ان کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔
اس سے چند ماہ قبل 24 جون 2022 کو میں گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور دیگر کو 2002 کے فسادات کیس خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی طرف سے دی گئی کلین چٹ کو چیلنج دینے والی ذکیہ جعفری کی درخواست کو سپریم کورٹ نے خارج کر دیا تھا۔
سال2017 میں ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے فیصلے، جس نے فسادات سے متعلق معاملات میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور 63 دیگر کو کلین چٹ دے دی تھی، کو برقرار رکھا تھا۔
جعفری کے شوہر احسان جعفری، جو کانگریس کے رکن پارلیمنٹ بھی تھے، فسادات کے دوران احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی میں قتل عام میں مارے گئے تھے۔ اس سے ایک دن پہلے گودھرا میں سابرمتی ایکسپریس کے ایک ڈبے میں آگ لگ گئی تھی، جس میں 59 لوگ مارے گئے تھے۔ ان واقعات کے بعد ہی گجرات میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔