گجرات میں سورت کی ایک عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے کے لیے ٹھوس، قابل اعتماد اور تسلی بخش شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا کہ ملزم سیمی سے وابستہ تھے اور کالعدم تنظیم کی سرگرمیوں کو رفتار دینے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
نئی دہلی: گجرات میں سورت کی ایک عدالت نے گزشتہ سنیچر کو 122افراد کوکالعدم تنظیم اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا(سیمی)کے ممبرکے طور پر دسمبر 2001 میں ہوئی ایک بیٹھک میں شامل ہونے کے الزام سے بری کر دیا۔
ان سب کویواےپی اےکے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ اے این دوے کی عدالت نے ملزمین کو شک کافائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا۔ معاملے کی شنوائی کے دوران پانچ ملزمین کی موت ہو گئی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ استغاثہ یہ ثابت کرنے کے لیے‘ٹھوس، قابل اعتماد اور تسلی بخش’ شواہدپیش کرنے میں ناکام رہا کہ ملزم سیمی سے وابستہ تھے اور کالعدم تنظیم اسٹوڈنٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا کی سرگرمیوں کورفتار دینے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
عدالت نے کہا کہ ملزمین کو یواےپی اے کے تحت قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
سورت کی اٹھوالائنس پولیس نے 28 دسمبر 2001 کو کم سے کم 127 لوگوں کو سیمی کا ممبر ہونے کے الزام میں یواےپی اے کے تحت گرفتار کیا تھا۔ ان پر شہر کے سگرام پورا کے ایک ہال میں کالعدم تنظیم کی سرگرمیو ں کو بڑھانے کے لیےمیٹنگ کرنے کا الزام تھا۔
مرکزی حکومت نے 27 ستمبر 2001 کو نوٹیفکیشن جاری کرکے سیمی پر پابندی عائد کی تھی ۔اس معاملے کے ملزم گجرات کے مختلف حصوں کے علاوہ تمل ناڈو،مغربی بنگال، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک، اتر پردیش اور بہار کے رہنے والے ہیں۔
اپنے دفاع میں ملزمین نے کہا کہ ان کا سیمی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ سب کل ہند اقلیتی تعلیمی بورڈ کے زیر اہتمام ہوئے پروگرام میں شامل ہوئے تھے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق کورٹ نے کہا، ‘عدالت نے پایاکہ ملزم ایک تعلیمی کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے جمع ہوئے تھے اور ان کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ استغاثہ اس بات کو ثابت نہیں کر پایا ہے کہ ملزم سیمی سے متعلق کسی سرگرمی کے لیے جمع ہوئے تھے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘یہاں تک کہ چھاپے ماری کے دوران بھی 123 میں سے ایک بھی شخص نے بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ ضبط کیے گئے موادکا بھی سیمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔’پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے سیمی میں شامل ہونے کے لیے فارم، دہشت گرد اسامہ بن لادن کی تعریف کرنے والے لٹریچر برآمد کیے ہیں۔
انہوں نے الزام لگایا تھا کہ پولیس کو دیکھتے ہی ان میں سے کئی لوگ ثبوت کو مٹانے کے لیے اسی وقت اپنے موبائل کےسم کارڈ چبا گئے تھے۔
پولیس نے انہیں اس بنیاد پر سیمی سے جوڑ نے کی کوشش کی تھی کہ ہال کو اےآر قریشی اور سیمی کے قومی ممبر ساجد منصوری کے بھائی الف ماجد منصوری نے بک کیا تھا۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ سیمی کے کاموں کو پورا کرنے کے لیےتعلیمی کانفرنس صرف ایک دکھاوا تھا۔
اس معاملے کو لےکرگزشتہ سنیچر کو ہوئی شنوائی کے دوران 111 ملزم کورٹ میں موجود تھے۔ مولانا عطاالرحمٰن واجدی، جو اب 85 سال کے ہیں، انہوں نے کہا گرفتاری کے بعد ہر کسی نے ان سے منھ موڑ لیا تھا۔واجدی نے کہا، ‘کسی نے بھی ہم سے بات نہیں کی اور نہ ہی سنا۔ اتنے سالوں سے میں ملک مخالف داغ کے ساتھ جی رہا تھا۔ اب کم سے کم آزاد ہوکر مریں گے۔’
وہیں ضلع انتظامیہ کے وکیل نین سکھدوالا نے کہا کہ فیصلہ پڑھنے کے بعد وہ فیصلہ کریں گے کہ وہ اس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے یا نہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)