بھج کے شری سہجانند گرلس انسٹی ٹیوٹ میں طالبات کے پیریڈس کی جانچ کے لیے ان کو انڈر گارمنٹس اتارنے کے لیے مجبور کرنے کی بات سامنے آئی تھی۔انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹی کا کہنا ہے کہ برسوں سے چلی آرہی فرسودہ روایت اب طالبات کے لیے رضاکارانہ ہوں گی، ان کی پیروی کے لیے طالبات پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔
نئی دہلی: گجرات کے بھج واقع شری سہجانند گرلس انسٹی ٹیوٹ (ایس ایس جی آئی) کالج نے پرنسپل، ہاسٹل ریکٹر اور چوتھے زمرہ کی ملازم کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے بعد برخاست کر دیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر 60 سے زیادہ طالبات کو یہ دیکھنے کے لئے اپنے انڈر گارمنٹس اتارنے پر مجبور کیا کہ کہیں ان کو پیریڈس تو نہیں ہو رہےہیں۔
ایس ایس جی آئی کے ٹرسٹی پروین پنڈوریا نے سوموار کو کہا کہ پرنسپل ریتا رانینگا، گرلس ہاسٹل کی ریکٹر رمیلابین اور کالج کی چوتھے زمرہ کی ملازم نینا کو ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہونے کے بعد سنیچر کو برخاست کر دیا گیا۔ بھج پولیس کے ذریعے درج ایف آئی آر میں ان تینوں کے علاوہ انیتا نام کی ایک خاتون کو بھی ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ وہ کالج سے وابستہ نہیں ہیں۔ ملزمین کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 384، 355 اور 506 کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
دینک بھاسکر کے مطابق، اس معاملے میں گرفتار پرنسپل ریتا رنینگا، ایڈمنسٹریٹر انیتا، ٹیچر رامیلابین اور ملازمہ (چپراسی) نینا بہن کو پولیس نے سوموار کو عدالت میں پیش کیا۔ جس پر کورٹ نے ملزمین کو دو دن کی ریمانڈ پر سونپ دیا ہے۔
رینج آئی جی کی نگرانی میں تشکیل دی گئی اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) پیریڈس کی جانچ کرنے والے واقعہ کی تفتیشکر رہی ہے۔جانچ افسر کو بھی پولیس پروٹیکشن دی گئی ہے تاکہ کسی طرح سے تفتیش کو متاثر نہ کیا جا سکے۔ غور طلب ہے کہ معاملہ سامنے آنے کے بعد سی ایم وجئے روپانی نے سخت کارروائی کے حکم دیے تھے۔
ایس ایس جی آئی خود مختار کالج ہے جس کا اپنا گرلس ہاسٹل ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ بھج کے سوامی نارائن مندر کے ایک ٹرسٹ کے ذریعے چلایا جاتا ہے۔ کالج کرانتی گرو شیام جی کرشن ورما کچھ یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ اس معاملے کے سامنے آنے کے بعد نیشنل کمیشن فاروومین کے سات ممبروں کی ایک ٹیم نے اتوار کو ہاسٹل میں رہنے والی ان طالبات سے ملاقات کی تھی جن کو مبینہ طور پر پیریڈس کا پتہ لگانے کے لئے انڈرگارمنٹس اتارنے پر مجبور کیا گیا تھا۔
بتا دیں کہ یہ واقعہ 11 فروری کو ایس ایس جی آئی کیمپس میں واقع ہاسٹل میں ہوا تھا۔ طالبات نے الزام لگایا تھا کہ تقریباً 60 طالبات کو خاتون ملازم ٹوائلٹ لے گئیں اور وہاں یہ جانچ کرنے کے لئے ان کے انڈرگارمنٹس اتروائے گئے کہ کہیں ان کو پیریڈس تو نہیں ہو رہا۔ طالبات کا پرنسپل پر الزام تھا کہ اس نے پیریڈس سے گزر رہی طالبات کے ساتھ کالج کیمپس میں لوگوں سے چھوا چھوت رکھنے کو کہا تھا۔ ایسی طالبات دوسری طالبات سے بات چیت نہیں کر سکتی ہیں نہ ہی ان کو چھو سکتی ہیں۔
ہاسٹل کے اصول کے مطابق پیریڈس کے دوران لڑکیاں اپنے کمرے میں نہیں رہ سکتیں اور ان کو بیس منٹ میں بنے الگ کمرے میں رہنا ہوتا ہے، ساتھ ہی کھانا وغیرہ بھی باقی لڑکیوں کے ساتھ نہیں کھا سکتیں۔ جانچکے بعد یونیورسٹی کے انچارج وائس چانسلر درشنا ڈھولکیا نے کہا تھا کہ لڑکیوں کی جانچ کی گئی کیونکہ ہاسٹل میں پیریڈس کے دوران لڑکیوں کو دیگر لوگوں کے ساتھ کھانا نہ کھانے کا اصول ہے۔ ہاسٹل کے ملازمین نے تفتیش کرنے کا فیصلہ تب کیا جب ان کو پتہ چلا کہ کچھ لڑکیوں نے اصول توڑا ہے۔
اس پورے معاملے پر تنازعہ بڑھنے کے مدنظر سہجانند گرلس انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹی نے اصولوں میں تبدیلی کی ہے۔ ٹرسٹی نے میٹنگ کرکے فیصلہ لیا کہ سالوں سے چلی آ رہی فرسودہ روایت کے اصول اب طالبات کے لئے رضاکارانہ ہوںگے۔ سوموار کو بھج دورے پر آئی نیشنل وومین کمیشن کی ٹیم کے سامنے انسٹی ٹیوٹ کے ٹرسٹی نے اس بارے میں تحریری طور پر یقین دہانی کرائی۔
انسٹی ٹیوٹ کے وائس پریسیڈنٹ پروین بھائی پینڈوریا نے کہا، ‘ وومین کمیشن کی ٹیم کچھ یونیورسٹی میں تفتیش کے لئے آئی تھی۔ ہم نے تحریری طور پر یقین دہانی کرائی ہے کہ انسٹی ٹیوٹ کی پالیسی کےاصولوں پر عمل کرنے میں بیٹیوں پر دباؤ نہیں ڈالا جائےگا۔ بیٹیاں اپنے مذہب کی روایت کے مطابق اپنی مرضی سے عمل کر سکیںگی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)