نیتاجی سبھاش چندر بوس کے پوتے چندر کمار بوس نے شہریت ترمیم قانون کی تعریف کی لیکن کہا کہ کچھ تبدیلی کرنے ہوں گے تاکہ کسی بھی مظلوم کوشہریت دی جا سکے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو۔
نئی دہلی :مغربی بنگال بی جے پی کے نائب صدر اور نیتاجی سبھاش چندر بوس کے پوتے چندر کمار بوس نے کہا کہ وہ نیتاجی کی راہ پر نہیں چل پا رہے ہیں اور اگر سیکولرازم کو لے کر ان کے خدشات دور نہیں کیے گئے تو وہ پارٹی میں بنے رہنے پر غور کر سکتے ہیں۔بوس نے شہریت ترمیم قانون کی تعریف کی لیکن کہا کہ کچھ تبدیلی کرنے ہو ں گے تاکہ کسی بھی مظلوم کو شہریت دی جا سکے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ہوں۔
انہوں نے کہا، ‘میں بی جےپی کے منچ کا استعمال کرکے سیکولر ازم کے نظریات کو پھیلانا چاہتا ہوں۔ جب میں نے جنوری 2016 میں بی جے پی کی رکنیت لی تھی تو میں نے یہ بات وزیر اعظم نریندر مودی اوراس وقت بی جے پی کے صدر امت شاہ سے کہی تھی۔ وہ بھی اس بات سے متفق ہوئے تھے۔’بوس نے کہا، ‘لیکن اب مجھے لگ رہا ہے کہ میں نیتاجی کے اصولوں کی پیروی نہیں کر پا رہا ہوں ۔ اگر یہ چلتا رہا تو مجھے پارٹی میں بنے رہنے پر سوچنا ہوگا۔ لیکن میں نریندر مودی جی سے بات کیے بنا کوئی فیصلہ نہیں کروں گا۔’
پچھلے کچھ دنوں سے لگاتار چندر بوس بی جے پی سے اپنی نااتفاقی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ ہمارے (بی جےپی)نمبر ہیں اس کی وجہ سے ہم خوف و دہشت کی سیاست نہیں کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا تھا، ‘ہمارا کام لوگوں کو یہ سمجھانا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔ آپ کسی کی توہین نہیں کر سکتے ہیں۔ سی اے اے کے فائدوں کو سمجھانے کے لیے لوگوں تک پہنچنا چاہیے۔’
سی کے بوس نے کہا کہ چونکہ شہریت قانون پارلیامنٹ سے پاس کیا گیا ہے، اس لیے میں ان کو ماننے کو مجبور ہوں ۔ لیکن کسی جمہوری ملک میں کوئی بھی قانون عوام پر تھوپا نہیں جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے انہوں نے پوچھا تھا کہ ، شہریت ترمیم قانون میں مسلمان کیوں نہیں ہیں ؟ انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان سبھی مذاہب اور کمیونٹی کے لیے ہے۔ انہوں نے شہریت قانون کو لے کر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ‘اگر سی اے اے 2019کا کسی مذہب سے تعلق نہیں ہے تو اس میں ہندو، سکھ، بودھ، کرشچین، پارسی اور صرف جین کا نام کیوں ہے؟ اس میں مسلمانوں کو شامل کیوں نہیں کیا گیا ہے؟ شفافیت ہونی چاہیے۔’
غور طلب ہے کہ اس قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سےہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کااہتمام کیا گیا ہے۔اس ایکٹ میں ان مسلمانوں کوشہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔اس طرح کے امتیازکی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کی سیکولرفطرت کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا تھا۔