گزشتہ 28 جولائی کو وزارت صحت نے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسز (آئی آئی پی ایس) کے ڈائریکٹر کو معطل کر دیا تھا، کیونکہ وہ این ایف ایچ ایس— 5 کے تحت ‘جاری کردہ ڈیٹا سے ناخوش’ تھے۔ ان کی معطلی گزشتہ ہفتے باضابطہ طور پر منسوخ کی گئی تھی۔ ڈائریکٹر کی معطلی اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ انہوں نےاپنا استعفیٰ نہیں دے دیا۔
پروفیسر کے ایس جیمس۔ (تصویر بہ شکریہ: آئی آئی پی ایس ویب سائٹ)
نئی دہلی: صحت اور خاندانی بہبود کی مرکزی وزارت نے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسز (آئی آئی پی ایس) کے ڈائریکٹر کے ایس جیمس کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے۔ اس ادارے کے ذریعےنیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) تیار کیا جاتا ہے۔
وزارت صحت نے جیمس کو 28 جولائی کو
معطل کر دیا تھا، کیونکہ وہ
این ایف ایچ ایس—5 کے تحت ‘جاری کردہ ڈیٹا سے ناخوش’ تھے۔ ان کی معطلی کو باضابطہ طور پر گزشتہ ہفتے منسوخ کر دیا گیا تھا، صرف ان کے استعفیٰ کے لیے– جو اگست میں دیا گیا تھا – جسے چند گھنٹے بعد قبول کر لیاگیا۔
ان کی معطلی کو منسوخ کرنے اور پھر استعفیٰ قبول کرنے کے احکامات کی کاپیاں دی وائر کے پاس دستیاب ہیں۔
مرکزی وزارت صحت کے 11 اکتوبر کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ‘بعد کے جائزے پر مجاز اتھارٹی کی رائے ہے کہ حالات میں اہم تبدیلیوں کے پیش نظر پروفیسر کے ایس جیمس کی معطلی میں مزید توسیع نہیں کی جا سکتی’۔
اس سے قبل جولائی میں ان کی معطلی کے بعد وزارت نے میڈیا کو ایک غیر دستخط شدہ اور بغیر تاریخ والا نوٹ جاری کیا تھا، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے مبینہ طور پرجیمس کے خلاف موصول ہونے والی 35 شکایات میں سے 11 کو پہلی نظر میں درست پایا تھا۔
اس میں کہاگیا تھا،’بے ضابطگیاں بنیادی طور پر بعض تقرریوں، فیکلٹی کی بھرتیوں، ریزرویشن روسٹرز، ڈیڈ اسٹاک رجسٹرز وغیرہ میں پائی جانے والی خامیوں کے سلسلے میں تھیں۔’
نوٹ میں بھی وزارت نے یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ ٹیم نے کون سے الزامات کو پہلی نظر میں درست پایا یا جیمس کے خلاف شکایات کب موصول ہوئیں۔ ٹیم کی رپورٹ کبھی پبلک نہیں کی گئی۔
مبینہ طور پرمرکزی وزارت صحت کے ایک نامعلوم ذرائع نے
دی پرنٹ کو بتایا کہ جیمس نے ‘چین پر مبنی ویبینار’ میں حصہ لیا تھا، جس نے بظاہر وزارت کے اندر خدشات میں اضافہ کردیا تھا۔
اب معطلی کے بعد شروع کی گئی تحقیقات کے نتائج کی وضاحت کیے بغیر جیمس کی معطلی منسوخ کر دی گئی۔ دی وائر نے وزارت صحت کو ایک ای میل بھیج کر اس کا جواب طلب کیا ہے۔ اس کا جواب موصول ہونے پر اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
دی وائر کوباوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ جیمس کو 11 اکتوبر کو معطلی کی منسوخی کے بعد باضابطہ طور پر بحال کر دیا گیا تھا۔ تاہم، ان کی بحالی کے ایک گھنٹے کے اندر، ‘شخصی بنیاد’ پر دیا گیا ان کا استعفیٰ قبول کر لیا گیا۔
انسٹی ٹیوٹ کے ایک ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ آج تک آئی آئی پی ایس میں کسی کو بھی، ڈائریکٹر کے دفتر کو تو چھوڑ ہی دیں ، اس بات کی جانکاری نہیں ہے کہ وہ کون سے11الزامات تھےجو وزارت کی ابتدائی رپورٹ میں پہلی نظر میں درست پائے گئے اور ڈائریکٹر کو معطل کر دیا گیا۔
چونکہ ڈائریکٹر کے دفتر کو ان الزامات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا، اس لیے ان کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ تاہم، جیمس کی معطلی اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ نہیں دے دیا۔
جب دی وائر نے تبصرے کے لیے جیمس سے رابطہ کیا، تو انھوں نے اپنی معطلی، اس کی تنسیخ اور ان کے استعفیٰ تک کے واقعات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا۔ تاہم، انھوں نے تصدیق کی کہ انھوں نے اگست میں استعفیٰ دے دیا تھا۔ فی الحال انہوں نے انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اپلائیڈ سسٹم اینالیسس، ویانا میں مختصر مدت کے کے لیے وزٹنگ اسکالر کا عہدہ قبول کرلیا ہے۔
دی وائر نے اس سلسلے میں آئی آئی پی ایس کے دو فیکلٹی ممبران سے بات کی۔ دو شعبوں سے آنے والے ایک پروفیسر اور دوسرے ایسوسی ایٹ پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔
پروفیسر نے کہا، ‘ہم غصے میں ہیں، لیکن(ڈائریکٹر کے استعفیٰ کے بارے میں) ہم بے بس ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہم اس کی مخالفت نہیں کر سکتے۔’
فیکلٹی ممبرنے این ایف ایچ ایس—5 میں انیمیا کے اعدادوشمار کی کمی کے حوالے سے حکومت کے اندر بے چینی کے بارے میں دی وائر کی پچھلی رپورٹ کی تصدیق کی، جس کو جیمس کی نگرانی میں جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘کچھ دباؤ تھا…لیکن آخر کار یہ (این ایف ایچ ایس—5 ڈیٹا) شائع ہو گیا۔’
پروفیسر نے کہا، ‘انہوں نے اس کمیٹی میں ایک اہم عہدہ سنبھالا تھا، جو بالآخر اشاعت سے پہلے اعداد و شمار کو منظوری دیتی ہے اور (اس لیے) وہ (حتمی) نتائج کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔’ کمیٹی میں اس انسٹی ٹیوٹ کے باہر کے بہت سے آزاد ماہرین شامل ہیں۔ تاہم، ڈیٹا کو عوامی طور پر دستیاب کرانے سے پہلےحکومت منظوری کی حتمی مہر لگاتی ہے۔
اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ این ایف ایچ ایس—4 کے مقابلے این ایف ایچ ایس—5 مدت (2019-21) میں انیمیا میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ این ایف ایچ ایس—5 نے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ ہندوستان کھلے میں رفع حاجت سے پاک نہیں ہے، جبکہ ملک کھلے میں رفع حاجت سے پاک ہونے کا دعویٰ برسراقتدار بی جے پی کے ارکان اور کئی مرکزی وزراء نے بارہا کیا ہے۔
سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ لکشدیپ کو چھوڑ کر کسی بھی ریاست یا مرکز کے زیر انتظام علاقے میں 100 فیصد آبادی کے پاس بیت الخلاء کی سہولت نہیں ہے۔ اسی طرح، این ایف ایچ ایس—5 کے اعداد و شمار نے ایل پی جی کو کھانا پکانے کے ایندھن کے طور پر فروغ دینے کے لیے اجولا اسکیم کی ‘کامیابی’ پربھی سوال اٹھائے تھے۔
پروفیسر نے کہا کہ این ایف ایچ ایس—6 کے لیے جاری ڈیٹا اکٹھا کرنے کے عمل سے کچھ ‘پریشان کن اشاروں’ کو دور کرنے کے لیے پہلے سے ہی بات چیت جاری ہے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر کو خدشہ ہے کہ این ایف ایچ ایس—6 کی ساکھ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر نے کہا، ‘این ایف ایچ ایس—6 پر کام کرنے والے کولیگ مشکل صورتحال میں ہیں۔ ان میں سے کچھ اشاروں کے بارے میں فکر مند ہیں (جو وہ ابھی جمع کر رہے ہیں)۔’
این ایف ایچ ایس ایک بڑے پیمانے کی مشق ہے، جو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے، جو مرکزی وزارت صحت کی جانب سے آئی آئی پی ایس کے ذریعے کی جاتی ہے۔
یہ نہ صرف صحت سے متعلق اہم اشاریوں پر اعداد و شمار فراہم کرتا ہے بلکہ انسانی ترقی کے دیگر پہلوؤں کے بارے میں بھی ڈیٹا فراہم کرتا ہے،جنہیں حکومتوں نے متعدد ٹارگیٹڈ اسکیموں کے ذریعے بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ این ایف ایچ ایس ڈیٹا ان اسکیموں کے زمینی اثرات کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے اور قومی اور ریاستی دونوں سطحوں پر تعلیمی اور پالیسی سازی کے شعبے میں اس کا شدیدحوالہ دیا جاتا ہے۔
دی وائر نے جن دونوں فیکلٹی ممبران سے بات کی ، انہوں نے انسٹی ٹیوٹ پر اس کے اثرات کے بارے میں بھی بات کی، خاص طور پر آئی آئی پی ایس کے ذریعے تشکیل دیے جا سکنے والے مختلف بین الاقوامی تعاون کے بارے میں۔
پروفیسر نے کہا،’اب فنڈنگ ایجنسیاں منصوبوں کی منظوری دینے کے بارے میں دو بار سوچیں گی، کیونکہ پیغام چلا گیا ہے (کہ درست اعداد و شمار پیش کرنے پر ڈائریکٹر کو انسٹی ٹیوٹ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا)۔
مزید وضاحت کرنے کے لیے پوچھے جانے پر انھوں نے کہا کہ یہ ادارہ نہ صرف حکومت ہند کے لیےمشکل سروے کرتا ہے، بلکہ یونیسیف اور اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ جیسی ایجنسیوں کے ساتھ بھی شراکت داری کرتا ہے۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر نے کہا کہ جیمس غیر ملکی یونیورسٹیوں کے ساتھ مشترکہ کورسز شروع کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کئی مفاہمت ناموں پر دستخط کیے گئے تھے۔
دونوں فیکلٹی ممبران میں سے ایک نے کہا کہ جیمس کے استعفیٰ کا فوری نتیجہ چھٹی ایشین پاپولیشن کنسورشیم کانفرنس کے مقام کی تبدیلی ہے، جو اگلے سال نومبر میں منعقد ہوگی۔
یہ ڈیموگرافی کے شعبے میں ایک باوقار کانفرنس ہے، جس میں دنیا بھر سے 600 سے زائد ماہرین شرکت کریں گے۔ قبل ازیں اس کانفرنس کی میزبانی
ممبئی میں آئی آئی پی ایس کی طرف سے کی جانی تھی۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر نے کہا کہ اکتوبر کے آغاز تک میزبانی کے حقوق آئی آئی پی ایس کے پاس تھے، لیکن بعد میں اسے کاٹھمنڈو کے ایک انسٹی ٹیوٹ کو دے دیا گیا۔
دی وائر فوری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا کہ کیا مقام میں تبدیلی آئی آئی پی ایس میں جاری پیش رفت سے متعلق تھی یا نہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔