یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ لوگ کچھ لاکھ خرچ کرنے میں ہچک رہے ہیں، لیکن جب وہ 5 روپے خرچ کرنے سے بھی کترانے لگیں، تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہم ایک بڑے اقتصادی بحران میں ہیں۔
فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا
پارلے پروڈکٹس کے ذریعے 10000 ملازمین کو
ممکنہ طور پر ہٹانے کے اعلان نے
آٹو سیکٹر میں مندی کی خبروں کی طرح ہی طوفان کو جنم دیا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ مانگ میں لگاتار گراوٹ آ رہی ہے اور سرکاری پالیسیوں نے بحران کو اور گہرا کرنے کا کام کیا ہے۔لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ لوگ ایک پیکٹ بسکٹ تو خرید ہی سکتے ہیں۔ اور یہ صحیح بھی ہے۔ لیکن یہ خبر کہیں بڑےبحران کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ لوگوں کی خریداری طاقت اتنی کم ہو گئی ہے کہ وہ کم قیمتوں کی مصنوعات کو خریدنے سے بھی کترا رہے ہیں۔یہ دکھاتا ہے کہ ہندوستان یا تو مندی کے بھنور میں ہے یا اس کی طرف بڑھ رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کسی کو بھی اس بحران سے نپٹنے کاطریقہ معلوم نہیں ہے۔
ایک بسکٹ کا مقابلہ ایک کار سے نہیں کیا جا سکتا ہے-کار ایک بار کی جانے والی (ون ٹائم) خریداری ہے، جو بار بار نہیں کی جاتی ہے، جبکہ صارف باقاعدہ ، اکثر ہفتے میں کئی بار بسکٹ خریدتے ہیں۔یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ لوگ کچھ لاکھ خرچ کرنے میں ہچک رہے ہیں، لیکن جب وہ 5 روپے خرچ کرنے سے بھی کترانے لگیں، تو اس کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ہم ایک بڑے اقتصادی بحران میں ہیں۔
پارلے جی کی کشش
کمپنی کے ایک سینئر ایگزیکٹو نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ ہندوستان کا ایسا کوئی بھی علاقہ، بھلےہی وہ کتنے ہی دوردراز کا کیوں نہ ہو، ایسا نہیں ہے جہاں پارلے جی دستیاب نہیں ہے۔انہوں نے ہمالیہ کے دوردراز گاؤوں، عام طور پر پہنچ سے باہر کے ٹریکنگ راستوں کی چھوٹی بساوٹوں تک کا سفر کیا تھا اور ان کو وہاں بھی کم سے کم کوئی ایک دکان ایسا ضرور ملی، جہاں پارلے جی ملتا تھا۔انہوں نے اس کا سہرا صرف قابل ترسیل نیٹ ورک کو ہی نہیں دیا، بلکہ ان کے لئے یہ پارلے جی کی وسیع مانگ کا ثبوت تھا، جس کی وجہ سے دکاندار خود اس کی گزارش کرتے تھے۔
اس نے بتایا کہ یہ بسکٹ کئی طرح کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اس کو دن کی شروعات میں گرم چائے کے ساتھ کھایا جا سکتا تھا۔ اس کو بچوں کے کھانے کے ٹفن میں اسنیکس کی طرح رکھا جا سکتا تھا، اس کو لنچ سے پہلے بھوک لگنے پر چلتے-پھرتے کھایا جا سکتا تھا اور کسی مزدور کی بھوک بھی مٹاتا تھا اور اس کو کام کرنے کی طاقت دیتا تھا۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ سستا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کمپنی کا یہ جادو تھا کہ سال در سال پارلے جی بسکٹ کے پیکٹ کی قیمت ایک ہی رہےگی۔ بے شک، قیمتوں میں تبدیلی آئی، لیکن بسکٹ کے سب سے سستے پیکٹ کا دام وہی بنا رہا۔
اس کام کو پیکٹ کی ساخت کو بدلکر یا دوسرے طریقوں سے کیا گیا، لیکن اس بات کا خیال رکھا گیا کہ قیمت وہی بنی رہے۔ اگر کوئی ٹیکس بھی لگایا گیا، تو اس کو اس کی آخری قیمت کے اندر ہی شامل کر لیا گیا۔خریداروں کے لئے، خاص طور پر ویسے خریداروں کے لئے جن کی جیب زیادہ خرچ کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی، ان کے لئے یہ بےحد دلکش تھا کہ جہاں تمام ضروری چیزوں کی قیمتیں لگاتار بڑھتی گئیں، پارلے جیکے ایک پیکٹ کی قیمت نہیں بدلی۔ یہ اس کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ تھی۔
لندن کے اسٹور میں پارلے جی،فوٹو:Flickr/Kaustav Bhattacharya CC BY NC ND 2.0
اس برانڈ کی دیگر خوبیاں بھی تھیں-ایک تھی کوالٹی اور دوسرا تھا اعتماد اور آہستہ آہستہ یہ یادوں کا حصہ ہو گیا۔ہندوستان سے باہر رہنے والے ہندوستانی طالب علم اکثر ان سے ملنے آنے والے دوستوں سے پارلے جی کا پیکٹ لےکر آنے کے لئے کہتے ہیں۔ بازار کے بدلتے مزاج کو دیکھتے ہوئے کمپنی کے صارفین کو اپنی مصنوعات کی یاد دلانے کے لئے اس ناستلجیا پر کافی بھروسہ تھا۔اس صدی میں پیدا ہوئے نوجوانوں (ملینیل)کے پاس اسنیکس کے طور پر کئی اختیارات ہیں اور رنگ-برنگے کوکیز کے شوقین طبقے کو پارلے جی پرانے فیشن کا، یہاں تک کہ کسی گزرے زمانے کی خوبصورت عمارت جیسا لگ سکتا ہے۔
لیکن بازار کے لئے یہ مقابلہ کی طری ہی عام چیلنجز ہیں۔ سالوں سے کمپنی نے نہ صرف اپنی ٹاپ سچویشن کو برقرار رکھا، بلکہ اپنی توسیع بھی کی۔لیکن ذائقے میں آنے والی تبدیلی بھلےہی اس کو نہ کھسکا پائی ہو، لیکن حکومت کی پالیسیوں نے ایسا کر دکھایا۔ جی ایس ٹی نے قیمتوں کو بڑھا دیا اور بڑھتی بےروزگاری، چھنٹنی اور تاریک مستقبل کی آہٹوں کے درمیان پارلے جی بسکٹ کا ایک عدد پیکٹ بھی عشرت پسندی جیسا دکھائی دینے لگا۔
بدلے حالات
کھانا کھائے بغیر لوگوں کا کام نہیں چل سکتا، لیکن وہ ایک چائے اور اس کے ساتھ ایک آدھ بسکٹ کی طلب چھوڑ سکتے ہیں۔ایک یومیہ یا ٹھیکے پر کام کر رہے مزدور کے لئے ایک ایک روپیہ معنی رکھتا ہے-ہو سکتا ہے کہ کل کوئی کام نہ ہو، اس لئے کوئی مزدوری بھی نہ ہو-اس بات کی کشمکش کو دیکھتے ہوئے ایک ایک پیسے کی بچت کرنا ضروری ہے۔یہاں تک کہ تنخواہ پانے لوگوں کے لئے بھی آنے والےمہینوں میں نوکری کے بچے رہنے کا کوئی یقین نہیں ہے۔ آٹو سیکٹر کی بدحالی کو میڈیا میں کافی جگہ ملی، لیکن سچائی یہ ہے کہ بڑی، اوسط اور چھوٹی کمپنیاں بڑی تعداد میں اپنے ملازمین کو ہٹا رہی ہیں اور میڈیا اس کی رپورٹنگ نہیں کر رہا۔
جیٹ ایئر ویز کے ڈوبنے سے ہزاروں لائق اور محنتی پیشہ ور راتوں رات بےروزگار ہو گئے اور ان کی تنخواہ پھر سے ملنے کی امید نہ کے برابر یا بہت تھوڑی ہے۔
ان کے پاس چکانے کے لئے قرض ہیں، مکان کا کرایہ ہے، بچوں کی فیس ہے-ایسے میں وہ چھٹی پر جانے سے پہلے دس بار سوچیںگے۔ یہی بات دوسرے پیمانے پر بلڈنگ مزدوروں پر بھی نافذ ہوتی ہے۔ ایسے میں جبکہ عمارت کی تعمیر کا کام ٹھپ پڑا ہوا ہے، وہ مزدور بسکٹ کا ایک پیکٹ خریدنے سے پہلے بھی دس بار سوچےگا۔صنعت یونین نے اپنے کاروباروں کو جاری رکھنے کے لئے حکومت سے راحت کی مانگ کی ہے۔ یہ سمجھ میں آنے لائق ہے۔ حالانکہ کوئی ماہر اقتصادیات یہ دلیل دے سکتا ہے کہ یہ کاروبار کے عام اتارچڑھاؤ ہیں اور اس لئے صنعت کاروں کو حکومت سے مدد کی مانگ نہیں کرنی چاہیے۔
حکومت کے اقتصادی مشیر نے کاروباریوں سے بڑا ہونے اور بچوں کی طرح بات-بات پر پاپا کے پاس نہ دوڑنے کے لئے کہا ہے۔ (ان کو یہ بن مانگی صلاح لگ سکتی ہے، لیکن آپ یہ امید مت کیجئے کہ کاروباری عوامی طور پر اس کا کوئی رد عمل دیںگے یا اس کی کوئی شکایت کریںگے۔)لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو معیشت کی صحت کو بڑھتی مایوسی کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ بڑے کاروباری اس بحران کا مقابلہ کرنے کا راستہ ملازمین کی چھنٹنی کرکے اور اپنے خرچ کم کرکے ڈھونڈلیںگے۔ لیکن چھوٹے آدمی کے پاس کوئی سکیورٹی نہیں ہے۔
اس کے پاس بحران سے نکل پانے کے لئے نہ تو بچت ہے، نہ وہ حکومت سے ملنے والی کسی مدد پر ہی بھروسہ کر سکتا ہے۔
منریگا اسکیم
کسی وقت میں منریگا جیسی اسکیموں نے ملک بھر کے بےروزگاروں کو آمدنی مہیا کرانے کا کام کیا-ان کو روزگار، محنتانہ اور وقار کا احساس ملا۔کافی بدنام رہے یو پی اے کی مدت کے دوران صنعتی اور معاہدہ مزدوری بڑھ گئی کیونکہ مزدوروں کی دلچسپی اپنے گاؤں جانے اور منریگا کے تحت ملنے والے روزگار کو کرنے میں ہو گئی تھی۔اس اسکیم کے پر کتر دئے گئے ہیں اور اگر حکومت چاہے بھی تو وہ اس کو بڑے پیمانے پر پھر سے شروع نہیں کر سکتی ہے، کیونکہ اس کے پاس ادائیگی کے لئے کوئی پیسہ نہیں ہے۔جی ایس ٹی ری فنڈ کامہینوں تک اٹکا رہنا، جی ایس ٹی سے جڑا ایک مسئلہ ہے-یہ دوہرے وار کی طرح ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف کاروبار کے لئے پیسے کا نقصان ہو جاتا ہے، بلکہ یہ مصنوعات کو مہنگا اور خرید کی صلاحیت سے باہر کر دیتا ہے۔
کاروباریوں کے ذریعے سرمایہ کاری میں کمی، بینکوں کے ذریعے قرض نہ دیا جانا، غیربینکنگ مالی کمپنیوں (این بی ایف سی) کے گرنے اور نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے کمزور خاکے اور عمل آوری کی وجہ سے جو بدانتظامی کی حالت پیدا ہوئی، اس کا نتیجہ نئی نوکریوں کے پوری طرح سے سوکھ جانے کے طور پر نکلا ہے۔پرانی نوکریاں ختم ہو رہی ہیں اور ترقی پر بریک لگ گیا ہے اور لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لئے جیب میں پیسہ نہیں ہے۔ یہ ایک چکرویو کی مانند ہے، مگر حکومت اپنے سیاسی اور نظریاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اتنی مصروف ہے کہ اس کے پاس معیشت کے لئے آب حیات تلاش کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔
بس بڑے-بڑے لفظ اچھالے جا رہے ہیں اور بجٹ کا سارا زور رویے کو منضبط کرنے اور اگلے عام انتخاب تک ہندوستان کو 5 ٹرلین ڈالر کی معیشت بنانے کے لئے چین سے مقابلہ کرنے پر تھا۔عالمی سطح کی کھلاڑی بننے کے لئے حکومت سرمایہ کاری کو کس طرح سے بڑھاوا دےگی، اس کو لےکر کوئی وضاحت نہیں ہونے کی وجہ سے صنعت کاروں نے اپنے توسیعی منصوبوں کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا ہے۔
ایک تنخواہ دار آدمی کے لئے، جس کو ای ایم ائی نہ چکا پانے کی فکر ستاتی ہے، مستقبل کے سنہرے خواب کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اور یومیہ مزدور کے لئے بس روز ملنے والا کام ہی معنی رکھتا ہے، جس سے وہ اپنی فیملی کے لئے بسکٹ کا ایک پیکٹ خرید سکے۔ماہر اقتصادیات’انڈرویئر انڈیکس’کی بات کرتے ہیں، جو مندی کے دور میں اقتصادی اصلاح کی شروعات کا اشارہ کر سکتا ہے۔ اب ایک’بسکٹ انڈیکس’بنایا جانا چاہیے، جو معیشت کے خوفناک بحران میں ہونے کا اشارہ کرےگا۔ہو سکتا ہے صنعت کاروں کی درخواست کا حکومت پر کوئی اثر نہ پڑے، لیکن بسکٹ کی فروخت میں گراوٹ کی خبر کے بعد اس کو نیند سے جاگ جانا چاہیے۔