خصوصی رپورٹ: ڈیٹا بیس میں درج اطلاعات کی صداقت مشکوک ہے۔ لیکن اگر ہم حکومت کی بات مان بھی لیتے ہیں، توبھی اس علاقے میں حکومت کامظاہرہ اتنا بےداغ نہیں ہے، جتنا دعویٰ حکومت کر رہی ہے۔
گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کےشیوپوری میں10اور 12 سال کے دو دلت بچوں کا
پیٹ-پیٹکر قتل کر دیا گیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ کھلے میں قضائےحاجت کر رہے تھے۔ان کے گاؤں کوسوچھ بھارت مشن کے
ڈیٹا بیس میں’کھلے میں قضائےحاجت سے نجات’کر دیا گیا ہے، لیکن ان کی فیملی کے پاس استعمال کے لئے بیت الخلا نہیں تھا۔اس واقعہ کے دس دن پہلے، اتر پردیش کے رائےبریلی کے اچھواپور میں ایک خاتون قضائےحاجت کے لئے کھیتوں کی طرف گئی تھی۔ بعد میں پیشانی پر چوٹ کے نشان کےساتھ اس کی لاش پائی گئی۔ یہ’آنر’کلنگ کا معاملہ تھا۔ لیکن اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اس خاتون یا اس کے ساتھ کی دوسری خواتین کی پہنچ بیت الخلا تک نہیں تھی،یا انہوں نے اس کا استعمال نہیں کرنا طے کیا تھا۔
سوچھ بھارت مشن کے ڈیٹا بیس کے مطابق رائےبریلی کے بھی سبھی گاؤں کو کھلےمیں قضائےحاجت سے آزادقرار دے دیا گیا ہے۔ یہ دو معاملے کھلے میں قضائےحاجت سے آزادقرار دینے اور اس کے تصدیق کی کارروائی پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔چونکہ شہری ہندوستان کے مقابلےدیہی ہندوستان میں یہ قواعد کافی بڑےپیمانے پر چلائی گئی، اس لئے یہ تجزیہ سوچھ بھارت مشن (دیہی)تک محدود ہے۔اپنی بات شروع کرنے سے پہلے یہ قبول کرنا چاہیے کہ سوچھ بھارت مشن نےدیہی صفائی(بیت الخلا کی تعمیر کے ذریعے)کی صورت حال کو بہتر بنانے کے مقصد سے چلائی گئی پہلے کی کسی بھی اسکیم کے مقابلے میں کافی زیادہ حاصل کیا ہے۔لیکن کھلے میں قضائےحاجت سے آزادی کا دعویٰ حقیقت سے دور ہے۔
مشن کے ڈیٹا بیس کے مطابق، 26 ستمبر تک سبھی گاؤں نے خود کو کھلے میں قضائےحاجت سے آزاد قرار دیا ہے اور90 فیصدی گاؤں تصدیق کے پہلے مرحلے سے گزر چکے ہیں۔ اس ڈیٹا بیس میں درج اطلاعات کی صداقت مشکوک ہے۔ لیکن اگر ہم حکومت کی بات مان بھی لیتے ہیں، توبھی اس علاقے میں حکومت کامظاہرہ اتنا بےداغ نہیں ہے، جتنا دعویٰ حکومت کر رہی ہے۔ مثال کے لئے اڑیسہ میں صرف51 فیصدی گاؤں تصدیق کے پہلےمرحلے سےگزرے ہیں۔ بہار نے اپنے 38000 سے زیادہ گاؤں میں سے 58 فیصدی گاؤں میں پہلے مرحلے کی تصدیق کی ہے۔ سوچھ بھارت مشن کی
ہدایات کے مطابق ایک گاؤں اپنے گرام سبھا میں اس بابت ایک تجویز منظور کرکے خود کو کھلے میں قضائےحاجت سے آزادقرار دے سکتا ہے۔ یہ جانکاری اس کے بعد سوچھ بھارت مشن کے ڈیٹا بیس میں اپلوڈ کر دی جاتی ہےاور اس کے بعد اس گاؤں کو ‘کھلے میں قضائےحاجت سےآزاد ‘کے طور پر نشان زد کردیا جاتا ہے۔
ہدایات کے مطابق کھلے میں قضائےحاجت سے آزاد کی توثیق کےلئے کم سے کم دو سطحوں یا مرحلوں کی تصدیق کی جانی چاہیے۔ تصدیق کا پہلا مرحلہ اس اعلان کے تین مہینے کے اندر پورا کر لیا جانا چاہیے اور دوسرا مرحلہ-یہ یقینی بنانےکے لئے کہ گاؤں کھلے میں قضائےحاجت سے آزاد کے زمرے سے باہر نہ نکل جائے-پہلے کی گئی تصدیق کےچھ مہینے کے اندر پورا کر لینا چاہیے۔اہتمام یہ ہے کہ یہ تصدیق کسی تیسرے فریق کے ذریعے یا ریاست کی اپنی ٹیموں کے ذریعے کی جائے۔ ریاست کی اپنی ٹیموں کے معاملے میں ایماندارانہ تصدیق یقینی بنانےکے لئے گاؤں/بلاک/ضلع سطح پر کراس ویری فیکیشن کیا جانا چاہیے۔ لیکن جیسا کہ
دی وائر نے گزشتہ سال اپنی رپورٹ میں بتایا تھا، اس عمل کو پورا نہیں کیاگیا ہے۔
سوچھ بھارت مشن پر ملک کے مختلف حصوں میں کافی کام کرنے والے چار موجودہ اور سابق سرکاری ملازمین نے بھی دی وائر کو بتایا کہ تصدیق کا کام صرف کاغذات پر ہوا ہے۔
ایک سابق افسر نے بتایا،’ہدف کو حاصل کرنے کی جلدبازی میں اور ملک کوکھلے میں قضائےحاجت سےآزاد کی تصدیق کے عمل کو پورا نہیں کیا گیا ہے۔تصدیق کا کام صرف کاغذات پر کیا گیا ہے۔ کئی معاملوں میں تو یہ کام کسی کے بھی گاؤں گئے بغیر ہی کر لیا گیا ہے۔مٹھی بھر معاملوں میں ہی میں نے ہدایات پرعمل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ‘حکومت کے اپنے اعداد و شمار بھی اس چلن کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ دی وائر نےجب 26 ستمبر کو سوچھ بھارت مشن کے ڈیٹا بیس کی تفتیش کی تب اڑیسہ میں مصدقہ(کھلے میں قضائےحاجت سےآزاد،پہلی سطح)گاؤں کی تعداد23902 تھی۔ چار دن بعد یعنی 30 ستمبر کو یہ تعداد تقریباً 55 فیصدی بڑھتےہوئے 37008 ہو گئی تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ اڑیسہ نے 13000 گاؤں میں پہلی سطح کی تصدیق کا کام محض چار دنوں میں یعنی 3200 گاؤں روزانہ کی شرح سے پورا کر لیاتھا۔
دی وائر کو ایک افسر نے بتایا، اگر تصدیق کی کارروائی کوصحیح طریقے سے کیاجائے، تو ایک گاؤں میں کم سے کم تین گھنٹے کا وقت لگےگا، کیونکہ ایک پوری چیک لسٹ ہے، جس کی تعمیل کی جانی ہوتی ہے اور گاؤں کو کئی معیاری اصول کی بنیادپر نمبر دینے ہوتے ہیں۔ 13000 گاؤں کی چار دنوں میں تو کیا ایک مہینے میں بھی حقیقی طورپر تصدیق کرناممکن نہیں ہے۔’سوچھ بھارت کے ڈائریکٹر کے طور پر یگل جوشی نے گزشتہ سال
اکانومک اینڈپالیٹکل ویکلی میں لکھا تھا کہ ا س کے ڈیٹا بیس کو ‘ریئل ٹائم ‘میں اپ ڈیٹ کیا جاتا ہے۔
یعنی اگر ڈیٹا بیس پر یقین کریں، تو اڑیسہ نے چار دنوں میں اتنے گاؤں کی تصدیق کر دی، جتنے گاؤں کی تصدیق پورے 2018-19 میں بھی نہیں ہوئی تھی، جب 11679 گاؤں کو تصدیق کی گئی تھی۔ 2019-20 میں جتنے گاؤں کی تصدیق ہوئی، ان میں سے 63 فیصدی کی تصدیق صرف چار دنوں میں-وزیر اعظم کے ذریعے ہندوستان کو کھلے میں قضائےحاجت آزاد قرار دینے سے محض ایک ہفتے پہلےکیا گیا۔انہی چار دنوں کی مدت میں، سیلاب سے جوجھ رہے بہار نے 3202 گاؤں کی تصدیق کر دی جبکہ اترپردیش میں یہ کام 3850 گاؤں میں انجام دیا گیا۔
چھتیس گڑھ کے گوربا میں ایک کھیت میں بنا بیت الخلا(فوٹو : رائٹرس)
دوسرے مرحلے کی تصدیق
اگر ہم دوسری سطح کی تصدیق کا سرکاری اعداد و شمار دیکھیں، تو یہ حکومت کےدعووں کی مضبوطی کو لےکر اور سوال کھڑے کرتا ہے۔ پورے ملک میں صرف 24 فیصدی گاؤں کی دوسری بار تصدیق کی گئی ہے۔ جبکہ سوچھ بھارت مشن کی ہدایات کے مطابق یہ کھلے میں قضائےحاجت سے آزاد درجے کی پائیداری کے لحاظ سے کافی اہم ہے۔
ایسا نہیں ہونے کی صورت میں گاؤں کھلے میں قضائےحاجت سےآزاد کا درجہ کھوسکتے ہیں، جیسا کہ دی وائر نے گزشتہ سال اپنی رپورٹ کے سلسلے میں پایا تھا۔ میرٹھ اور شاملی ضلع میں اپنے سفر کے دوران، جن کو، 2017 میں کھلے میں قضائےحاجت سے آزاد قرار دیا تھا،
ہمیں کئی ایسے گھر ملے جن کی پہنچ بیت الخلا تک نہیں تھی۔ یا تو بیت الخلا کی تعمیر ہی نہیں کی گئی تھی یاان کی تعمیر اتنے خراب طریقے سے کی گئی تھی کہ ان کا استعمال نہیں کیا جا سکتاتھا۔
کچھ بیت الخلا پوری طرح سے منہدم ہوگئے تھے۔ جب اس نامہ نگار نے ان گاؤں کےباشندوں سے حال ہی میں فون سے بات کی تب انہوں نے بتایا کہ اب تک کچھ اور بیت الخلامنہدم ہوگئے ہیں اور اضافی بیت الخلا کی تعمیر نہیں کی گئی ہے۔اس سے کھلے میں قضائےحاجت سے آزادای کے اعلان کی سمجھداری پر سوال کھڑے ہوتےہیں، کیونکہ حکومت کے اندر کام ہر طرح سے مکمل ہو جانے کا جس طرح کا تاثر ہے، اس سے بہتری کے لئے حوصلہ افزائی (مدد) کم ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود ہدایات کےمطابق دوسرے مرحلے کی تصدیق کے کام کو پورا نہیں کیا گیا ہے۔
97000گاؤں والے اتر پردیش میں صرف 10 فیصدی گاؤں کی دوسری بار تصدیق کی گئی ہے۔اڑیسہ میں جہاں تقریباً47000 گاؤں کا وجود ہے، ایک بھی گاؤں کی دوسری سطح کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ کل ملاکر 10ریاستیں ایسی ہیں، جہاں دوسری سطح کی تصدیق کا کام کیا ہی نہیں گیا ہے۔
غائب بیت الخلا کا معاملہ
ایک اور پہلو، جو سوچھ بھارت مشن کے ڈیٹا بیس کے اعداد و شمار کی صداقت پرسوال کھڑا کرتا ہے-ڈیٹا بیس میں پہلے شامل کئے گئے گھروں کو ہٹا دینے کا ہے۔ گزشتہ سال رپورٹنگ کے دوران دی وائر نے اتر پردیش کے لئے 1 اکتوبر، 2018 کی تاریخ کے ڈیٹا بیس کو محفوظ(سیو)کیا تھا۔ پچھلے اعداد و شمار کا موازنہ موجودہ ڈیٹا بیس سے کرنے پر ہم نے یہ پایا کہ سوچھ بھارت مشن کے ڈیٹا بیس کے
فارمیٹ اے 03 کے مطابق کل گھروں کی تعداد گھٹ گئی ہے-خاص طور پر ‘ کل ڈٹیل انٹرڈ (ود اینڈ وداؤٹ ٹوائلٹ)’ عنوان کالم (یہاں کے بعد کالم 3) میں۔
دی وائر نے جن موجودہ اور سابق افسروں سے بات کی، ان کے مطابق یہ کالم کل گھروں کی تعداد کو دکھاتا ہے۔اترپردیش کےمعاملے میں اس تعداد میں 158051 کی کمی آ گئی ہے۔ ایک افسر نے کہا، ‘ایسا اس لئے کیا گیا، کیونکہ ہدف کو پورا کرنا کافی مشکل تھا، اس لئے بیس لائن سروے کی انٹریز کو ہٹاکرہدف کو ہی گھٹا دیا گیا۔ ‘دسمبر، 2017 کے اتر پردیش کے اتر پردیش حکومت کے اندرونی دستاویز، جس کو دی وائر نے دیکھا ہے، کے مطابق ریاست کو 2 اکتوبر، 2018 تک، اس کے ڈیٹا بیس کے مطابق ہر گھر کو بیت الخلاکو یقنیی بنانے کے لئے ہر دن 42000 بیت الخلا کی تعمیر کرنے کی ضرورت تھی۔ 2 اکتوبر، 2018 اس وقت کی ڈیڈلائن تھی۔
مذکورہ افسر نے بتایا،’یہ کسی بھی طرح سے ممکن نہیں تھا۔ اس لئے ہدف کوآسان بنانے کے لئے ڈیٹا بیس کی انٹریز کو ہی مٹا دیا گیا۔ اعداد و شمار کی باریکی سےجانچ کرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ ایک بڑی تعداد میں انٹریز’بیت الخلا والے گھر ‘والےکالم (یہاں کے بعد کالم 6)سے ہٹائے گئے۔ سوچھ بھارت مشن نے 2012 کے ایک ملک گیرسروے جس کو بیس لائن سروے کہا جاتا ہے، کو اپنے ابتدائی پوائنٹ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس سروے میں پہلے سے ہی بیت الخلا والےگھروں کی تعداد کی گنتی کی گئی تھی۔ یہ اطلاعاتی کالم 6 میں درج ہے۔
جن افسروں سے ہم نے بات کی، ان کے مطابق اس تعداد میں تبدیلی نہیں آنی چاہیے تھی۔ ایک سابق افسر کا کہنا ہے، ‘اگر بعد میں یہ بھی پایا گیا ہو-اور ایسےکئی معاملے سامنے آئے-کہ کوئی گھر بیس لائن سروے میں چھوٹ گیا تھا، اس گھر کو چھوٹ گئے (لیفٹ آؤٹ بینیفیشری)میں شامل کیا گیا، جس کو حال ہی میں جوڑا گیا ہے۔ایسے میں بیس لائن سروے کے اعداد و شمار میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔ ‘ مثالی طور پر کالم 6 کو جیسے کا تیسا رہنا چاہیے۔ لیکن ایسا ہے نہیں۔ ہم نے پایا کہ گزشتہ سال سے لےکر اب تک، کالم 6 میں درج گھروں کی تعداد میں 103768 کی کمی آ گئی۔مذکورہ افسر کا کہنا ہے،’ایسا اس لئے کیا گیا تاکہ پہلے سے ہی موجود بیت الخلاسوچھ بھارت کے تحت تعمیرشدہ بیت الخلا کے طور پر دکھایا جا سکے۔ ‘
اس کا مطلب یہ نکلنا چاہیے تھا کہ کالم 3 میں بھی کالم 6 جتنی ہی تعدادکی کمی آتی۔ لیکن جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے، اس میں کہیں زیادہ کمی آئی ہے۔ مثال کے لئے وارانسی میں کالم 6 میں 10790 کی کمی آئی ہے اور کل ہدف میں 11168 کی کمی آئی ہے۔ بستی میں بیس لائن سروے میں سے 27917 لوگ غائب ہو گئے ہیں اور کل ہدف میں 36220 لوگوں کی کمی آئی ہے۔یہ خامیاں افسروں کے لئے بھی حیران کرنے والی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ بنابیت الخلا والے گھروں کی فہرست میں سے بھی گھروں کو ہٹا دیا گیا ہو۔ لیکن میرےتجربے میں میں نے ایسا ہوتا نہیں دیکھا ہے۔ فی الحال وسط یوپی میں کام کر رہے ایک افسر نے بتایا کہ بیس لائن میں تعداد کوگھٹانا ایک عام بات ہے۔
انہوں نے کہا، ‘سوچھ بھارت مہم کا ڈیٹا بیس ایک دھوکہ ہے۔ سارا دھیان ڈیٹا بیس میں یہ دکھانے پر ہے کہ ہدف کو پورا کر لیا گیا ہے۔ زمین پر حالت یہ ہےکہ جتنے بیت الخلا بنانے کا دعویٰ حکومت کر رہی ہے، اس کا صرف 40 فیصدی ہی اصل میں بنایا گیا ہے۔ ‘جیسا کہ ایک افسر نے پہلے تبصرہ کیا تھا،سوچھ بھارت مشن کے ڈیٹا بیس میں حال ہی میں ایک نیا کالم ‘چھوٹ گئے ‘ کا جوڑا گیا ہے، جس میں ان گھروں کوشامل کیا گیا ہے، جن کو بیس لائن سروے میں شامل نہیں ہونے کی وجہ سے ڈیٹا بیس میں جگہ نہیں مل پائی تھی۔
اس طرح سے حکومت نے یہ قبولکر لیا ہے کہ بیس لائن سروے میں تمام گھروں کوجگہ نہیں ملی تھی۔ یہ کالم 6 اور 3 سے انٹریز کو ہٹانے کو اورمعمہ بنا دیتا ہے۔ افسر نے کہا، ‘شروعات میں چھوٹ گئے لوگوں کو فہرست میں شامل نہیں کیاگیا تھا۔ اس لئے چھوٹ گئے کو جوڑنا بیس لائن یا کل ہدف میں سے ناموں کوہٹانے کی وضاحت نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کو صرف ہدف کو آسانی سے حاصل کرنے کے لئے کیاگیا ہے۔ ‘
اس سے متعلق سوالوں کی ایک فہرست جل شکتی وزارت کو بھی بھیجی گئی ہے اور ان کاجواب حاصل ہونے کے بعد اس کو رپورٹ میں جوڑ دیا جائےگا۔