اسرائیل اور حماس کے درمیان تقریباً 9 ماہ سے جنگ جاری ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کا اندازہ ہے کہ فلسطینی علاقے میں گزشتہ ماہ جون تک تقریباً 37000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ میڈیکل جرنل لانسیٹ ے مطابق ، ہلاکتوں کی اصل تعداد 186000 تک ہو سکتی ہے۔
غزہ میں اسرائیل کے حملے کے بعد کی صورتحال۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/یو این آر ڈبلیو اے/اشرف امرا)
نئی دہلی: اسرائیل اور حماس کے درمیان تقریباً 9 ماہ سے جاری جنگ کے حوالے سے طبی جریدے لانسیٹ نے اپنے ایک مضمون میں بتایا ہے کہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد وزارت صحت کے اندازے سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، غزہ کی وزارت صحت کا اندازہ ہے کہ فلسطین کے علاقے میں جون تک تقریباً 37000 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ دی لانسیٹ کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی اصل تعداد 186000 تک ہو سکتی ہے۔
لانسیٹ کے مصنفین نے کہا کہ کچھ لوگوں نے وزارت صحت کے اعداد و شمار کے صحیح ہونے پر شک کا اظہار کیا ہے، کیونکہ بہت سی لاشیں ابھی بھی ملبے کے نیچے دبی ہو سکتی ہیں اور اس لیے ان کی گنتی نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جنگ کی وجہ سے بیماری جیسی وجوہات سے بھی بالواسطہ اموات کا بھی خدشہ ہے۔
لانسیٹ کی اس رپورٹ کے مصنفین- راشا خطیب، مارٹن میککی اور سلیم یوسف نے کہا، ‘انفراسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے غزہ کی وزارت صحت کے لیے ہلاکتوں کا ڈیٹا اکٹھا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت اب میڈیا یا ہسپتالوں سے موصول ہونے والی معلومات پر منحصر ہو گئی ہے۔’
مصنفین نے مزید بتایا کہ غزہ کی وزارت صحت اب نامعلوم لاشوں کی تعداد کل اموات سے الگ بتاتی ہے۔ اس سال مئی تک تقریباً 35000 اموات میں سے 30 فیصد لاشیں نامعلوم افراد کی تھیں۔
مصنفین کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزارت کے اعداد و شمار میں ہلاکتوں کو کم کرکے دکھایا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزارت نے اپنی ہلاکتوں کی فہرست میں تمام قابل شناخت متاثرین کا نام نہیں دیا ہے۔ وہیں، اقوام متحدہ کے اندازوں سے اشارہ ملتا ہے کہ غزہ میں 10000 سے کہیں زیادہ افراد ملبے تلے دبے ہو سکتے ہیں، جہاں تقریباً 35 فیصد عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔
مصنفین کے مطابق، موت کی اور بھی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں، جیسے جنگ کے دوران متعدی یا کسی اور قسم کی بیماریاں، جو بالواسطہ اموات کا باعث بن سکتی ہیں یعنی مستقبل میں اموات کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
خطیب، میککی اور یوسف نے لکھا ہے کہ اس تنازعہ کی شدت کو دیکھتے ہوئے ہلاکتوں کی کل تعداد زیادہ ہونے کا خدشہ ہے۔ صحت کا بنیادی ڈھانچہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ لوگوں کے لیے خوراک، پانی اور رہائش کا سنگین مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کا محفوظ مقامات تک نہ پہنچنا اور غزہ کی پٹی میں بہت کم انسانی امدادی تنظیموں کی سرگرمی اس کی وجہ ہو سکتی ہے۔
مصنفین اپنے پرانے اندازے کے ذریعے 186000 اموات کا اعداد و شماردیا ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہر ایک براہ راست موت کے ساتھ چار بالواسطہ موتیں بھی ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حالیہ تنازعات میں بالواسطہ اموات کی تعداد براہ راست اموات کی تعداد سے تین سے 15 گنا زیادہ رہی ہے۔
دی لانسیٹ میں شائع ہونے والا یہ مضمون مراسلاتی مضمون ہے، جو میگزین کے مطابق، قارئین کے خطوط ہیں اور جن کا عام طور پر بیرونی جائزہ نہیں لیا جاتا۔
دوسری جانب
اے پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی وزارت صحت کے حالیہ اندازوں کے مطابق خطے میں اسرائیل اور حماس کی جنگ میں 38200 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ یہ جنگ گزشتہ سال اکتوبر 2023 میں شروع ہوئی تھی جب غزہ پر حکمرانی کرنے والی فلسطینی تنظیم حماس نے اسرائیل پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل نے حماس کو تباہ کرنے کے مقصد سے غزہ پر حملے شروع کردیے۔
اس تنازعے میں اب تک ہزاروں شہری مارے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ اس جنگ کو بین الاقوامی سطح پر کافی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
غور طلب ہے کہ رواں برس مئی میں بین الاقوامی عدالت کے چیف پراسیکیوٹر نے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے ساتھ ساتھ حماس کے تین رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری کے لیے
درخواست دی تھی ۔انہوں نے کہا تھا کہ ان کے مطابق ،ان لوگوں نے تنازعہ کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔