ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا کی عرضی میں کہا گیا کہ پریس کی آزادی صحافیوں کی رپورٹنگ میں سرکار اور اس کی ایجنسیوں کے عدم مداخلت پرمنحصر ہے، جس میں ذرائع کے ساتھ سیکیورٹی اوررازداری کے ساتھ بات کرنے کی ان کی صلاحیت، اقتدارکے غلط استعمال اوربدعنوانی کی جانچ، سرکاری نااہلی کا انکشاف، اور سرکار کی مخالفت میں یااپوزیشن سے بات کرنا شامل ہے۔
نئی دہلی: ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے اسرائیلی کمپنی این ایس او کے پیگاسس جاسوسی سافٹ ویئر کے ذریعے سرکارکی جانب سےصحافیوں اوردوسروں پر مبینہ طور پر نظر رکھنے کی جانچ کے لیےایس آئی ٹی کی تشکیل کی گزارش کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔
گلڈ کی عرضی میں کہا گیا کہ صحافیوں کا کام عوام کو آگاہ کرنے کے حق کو، سرکار کو جوابدہ بنانے اور آزاداورشفاف سرکار کو لاگو کرنا ہے۔
اس میں کہا گیا کہ گلڈ کے ممبر اورسبھی صحافیوں کی ذمہ داری اطلاعات،تشریحات اورملک کی کارروائی یاغیرفعالیت کے لیے قانونی طور پر درست دلائل مانگ کر سرکار کی تمام شاخوں کو ذمہ دار ٹھہرانا ہے۔
اس نے کہا کہ اس رول کو پورا کرنے کے لیے پریس کی آزادی کومحفوظ رکھا جانا چاہیے۔ معاملے میں صحافی مرنال پانڈے بھی عرضی گزار ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ، رٹ عرضی وکیل روپالی سیموئل، راگھو تنکھا اور لظفیر احمد بی ایف کے توسط سے دائر کی گئی ہے۔
عرضی میں کہا گیا کہ پریس کی آزادی صحافیوں کی رپورٹنگ میں سرکار اور اس کی ایجنسیوں کے عدم مداخلت پرمنحصر ہوتی ہے، جس میں ذرائع کے ساتھ سیکیورٹی اوررازداری کے ساتھ بات کرنے کی ان کی صلاحیت، اقتدارکے غلط استعمال اور بدعنوانی کی جانچ، سرکاری نااہلی کا انکشاف، اور سرکار کی مخالفت میں یا پوزیشن سے بات کرنا شامل ہے۔
گلڈ نےدلیل دی کہ ہندوستان کےشہریوں کو یہ جاننے کا حق ہے کہ کیا سرکار آئین کے تحت اپنے اختیارات کی حدوں کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے کیا قدم اٹھائے گئے ہیں۔
عرضی میں کہا گیا کہ پارلیامانی طریقہ کار کے ذریعے جواب طلب کرنے اور آئینی حدودکو لاگو کرنے کی تمام کوششوں کوناکام کر دیا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا، ‘اپنی ہٹ دھرمی سے مدعا علیہان نے جان بوجھ کر اس معاملے پر عوامی بحث سے پرہیز کیا ہے اور غیرواضح جواب دیے ہیں، جس سے عرضی گزار کو اس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔’
گلڈ نے حکومت ہند کے ذریعے اورہندوستانی شہریوں،بالخصوص صحافیوں کے خلاف پیگاسس کے مبینہ استعمال کے ہر پہلو کی جانچ کے لیے عدالت کی جانب سے مقرر کردہ اور اس کی نگرانی والی ایس آئی ٹی کی گزارش کی ہے۔
اس میں ترقی یافتہ ٹکنالوجی اور نگرانی صلاحیتوں کے مد نظر الکٹرانک نگرانی کی آئینی طاقت،اسپائی ویئر(جاسوسی سافٹ ویئر)کی ہیکنگ اوراستعمال، اور نگرانی کے موجودہ قانونی فریم ورک کوچیلنج کیاگیا ہے۔
بتا دیں کہ اس سے پہلے گزشتہ سوموار کوملک کے چار صحافیوں پرنجوئے گہا ٹھاکرتا، ایس این ایم عابدی، پریم شنکر جھا، روپیش کمار سنگھ اور ایک کارکن اپسا شتاکشی نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر کےکہا ہے کہ وہ مرکزی حکومت کو پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال کو لےکر جانکاری دینے کی ہدایت دیں۔ ان کا نام ان لوگوں کی فہرست میں شامل تھا جنہیں پیگاسس کا استعمال کرکے جاسوسی کاہدف بنایا گیا تھا۔
صحافی ٹھاکرتا،عابدی اور جھا نے یکساں طرزپر تین الگ الگ عرضیاں سپریم کورٹ میں دائر کی ہیں، جبکہ روپیش کمار سنگھ اور شتاکشی نے عدالت میں ایک عرضی دائر کی ہے۔
سب سے پہلی عرضی وکیل ایم ایل شرما نے اور دوسری عرضی سینئر صحافی این رام اور ششی کمار نے جبکہ تیسری عرضی راجیہ سبھا ایم پی جان برٹاس نے دائر کی تھی۔
ان سبھی عرضیوں میں پیگاسس معاملے میں عدالت کی جانب سےبنے ایس آئی ٹی کے ذریعے آزادانہ جانچ کی مانگ کی گئی ہے۔
چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی والی بنچ پیگاسس معاملے سےمتعلق تین الگ الگ عرضیوں پر پانچ اگست کو شنوائی کرےگی۔ ان میں سینئر صحافی این رام اور ششی کمار کی عرضی بھی شامل ہے، جس میں پیگاسس معاملے کی موجودہ یاسبکدوش جج سے آزادانہ جانچ کرانے کی گزارش کی گئی ہے۔
معلوم ہو کہ گزشتہ جولائی مہینے میں سلسلہ وار طریقے سے ایک بین الاقوامی میڈیا کنسورٹیم لگاتار پیگاسس سرولانس کو لےکر رپورٹ شائع کی ہے۔ ان میں بتایا گیا کہ مرکزی وزیروں ،40 سے زیادہ صحافیوں، اپوزیشن رہنماؤں، ایک موجودہ جج، کئی کاروباریوں اور کارکنوں سمیت 300 سے زیادہ ہندوستانیوں کےموبائل نمبر اس لیک کئے گئے ڈیٹابیس میں شامل تھے، جن کی پیگاسس سے ہیکنگ کی گئی یا وہ ممکنہ طور پرنشانے پر تھے۔
د ی وائر بھی اس کنسورٹیم کا حصہ ہے۔دی وائر نے فرانس کی غیرمنافع بخش فاربڈن اسٹوریز اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دی واشنگٹن پوسٹ، دی گارڈین جیسے16دیگر انٹرنیشنل میڈیااداروں کے ساتھ مل کر یہ رپورٹس شائع کی ہیں۔
یہ جانچ دنیا بھر کے 50000 سے زیادہ لیک ہوئے موبائل نمبر پر مبنی تھی، جن کی اسرائیل کے این ایس اوگروپ کے پیگاسس اسپائی ویئر کے ذریعے جاسوسی کی جا رہی تھی۔ اس میں سے کچھ نمبروں کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نےفارنسک جانچ کی ہے، جس میں یہ ثابت ہوا ہے کہ ان پر پیگاسس اسپائی ویئر سے حملہ ہوا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)