اختلاف رائے کا مطلب ’اینٹی نیشنل‘ ہونا نہیں ہے، جو آج بنا دیا گیا ہے: جسٹس لوکور

پریس کلب آف انڈیا میں ہوئے ایک پروگرام میں مختلف پریس تنظیموں نے صحافت کو دباؤ سے آزاد رکھنے کی اپیل کی۔ نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ نے کہا کہ میڈیا کے پاس لوگوں تک سچائی پہنچانے کی ذمہ داری اور آزادی، دونوں ہونی چاہیے۔

پریس کلب آف انڈیا میں ہوئے ایک پروگرام میں مختلف پریس تنظیموں نے صحافت کو دباؤ سے آزاد رکھنے کی اپیل کی۔ نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ نے کہا کہ میڈیا کے پاس  لوگوں تک سچائی پہنچانے کی ذمہ داری اور آزادی، دونوں ہونی چاہیے۔

پریس کلب کی تقریب میں نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ (بائیں) اور سابق جسٹس مدن بی لوکور (تصویر: اتل اشوک ہووالے/ دی وائر)

پریس کلب کی تقریب میں نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ (بائیں) اور سابق جسٹس مدن بی لوکور (تصویر: اتل اشوک ہووالے/ دی وائر)

نئی دہلی: دارالحکومت دہلی کے پریس کلب میں جمعرات (30 مئی) کو ‘آج کے ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی’ کے موضوع پر ایک پروگرام  میں پریس تنظیموں کے علاوہ سینکڑوں صحافیوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے افراد نے شرکت کی۔ سب نے متفقہ طور پر ایک آواز میں صحافت کو کسی بھی قسم کے دباؤ سے آزاد رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے صحافیوں کے تحفظ اور ان کے حقوق کی جانب توجہ مبذول کروائی۔

پروگرام کے اہم مقررین میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مدن بی لوکور اور نیوز پورٹل نیوز کلک کے بانی مدیر پربیر پرکایستھ کے ساتھ ہی پریس کلب آف انڈیا، ڈیجیٹل میڈیا تنظیم ڈی جی پب، انڈین ویمن پریس کور وغیرہ کے نمائندے بھی شامل تھے۔ ان سب نے موجودہ دور میں صحافت کو درپیش چیلنج اور اس کے آزاد ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔

پریس کلب کی جانب سے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے اس کے صدر گوتم لاہڑی نے کہا کہ آج کے آزاد ہندوستان میں اظہار رائے کی آزادی انتہائی مشکل ہو گئی ہے۔ میڈیا اداروں پر سرکار اور کارپوریٹ کی طرف سے شدیددباؤ کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں غیرجانبدارانہ خبریں عوام تک نہیں پہنچ رہی ہیں ، جو ہماری جمہوریت کی مضبوط بنیاد ہے۔

(تصویر: اتل اشوک ہووالے/ دی وائر)

(تصویر: اتل اشوک ہووالے/ دی وائر)

ڈیجیٹل میڈیا گروپس کی تنظیم ‘ڈی جی پب’ کی جانب سے سینئر صحافی ابھینندن سیکھری نے کہا، ‘ہماری تنظیم ہمیشہ ملک کے صحافیوں اور ان کے حقوق کے لیے کھڑی ہے۔ ہم نیوز کلک کے صحافیوں اور پربیر پرکایستھ کے ساتھ مکمل یکجہتی رکھتے ہیں۔ ہم حکومت کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم بزدل نہیں ہیں اور نہ ہی خوف کے مارے اپنی صحافت سے سمجھوتہ کرنے والے ہیں۔’

دہلی یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدر ایس کے پانڈے نے بھی اپنے خطاب میں صحافت کے اچھے دنوں کو یاد کیا اور آج کے دور میں میڈیا کی آزادی پر زور دیا۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے جے این یو میں طلباء کی موجودہ جدوجہد اور ان کی آواز کو دبائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔

انڈین ویمن پریس کور کی جانب سے ٹی کے راج لکشمی نے کہا، ‘آج کے دور میں جس طرح سے صحافیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی جا رہی ہے، وہ غیرمعمولی ہے۔ نیوز کلک کے ساتھ جو کچھ ہوا، ملک کے دوسرے صحافیوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے، وہ آزاد ہندوستان میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ایمرجنسی کے دوران بھی میڈیا پر پابندیاں تھیں لیکن آج جس طرح بڑے پیمانے پر اسے دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں وہ پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔’

سینئر صحافی پرانجوئے گہا ٹھاکرتا نے نیوز کلک کے صحافیوں کے یہاں 3 اکتوبر 2023 کو مارے گئے چھاپے کے بارے میں کہا کہ یہ آزاد ہندوستان میں سب سے بڑا چھاپہ تھا، جو بیک وقت 80 مقامات پر مارا گیا تھا۔ یہ دہلی پولیس کا ڈیٹا ہے، جو بذات خود اس دور میں اظہار رائے کی  کی تصویر کو واضح کرتا ہے۔ حکومت یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ اگر آپ آواز اٹھائیں گے تو آپ کو ختم کر دیا جائے گا۔

‘اختلاف رائے کا مطلب ‘اینٹی نیشنل’ ہونا نہیں ہے’

جسٹس مدن بی لوکور نے کہا کہ اختلاف رائے کا مطلب ‘اینٹی نیشنل’ ہونا قطعی نہیں ہے، جو بدقسمتی سے آج کے دور میں بنا دیا گیا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اور مظاہرے کی آزادی باہم متعلق  ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ مظاہرہ کیجیے لیکن کچھ بولیے مت۔ آج کے دور میں مظاہرین کے ساتھ ‘بلڈوزر جسٹس ‘ کیا جا رہا ہے۔ ان پر تشدد کیا جا رہا ہے۔

جسٹس لوکور نے کہا، ‘آپ کے پاس پولیس کے سامنے کچھ بھی نہ بولنے کا اختیار ہوتاہے، ‘ٹو بی سائلنٹ’ (خاموش رہنا) ایک بنیادی حق ہے، جو ملک کے شہریوں کو آئین نے دیا ہے، لیکن پولیس اسے آپ کے خلاف استعمال کر رہی ہے، اسے ضمانت نہ دینے کی بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ اسے غداری کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ صحافیوں کے موبائل فون اور لیپ ٹاپ چھین کر پرائیویسی کے حق پر حملہ کیا جا رہا ہے جو کہ ہمارے آئین کے آرٹیکل 20 کی صریح خلاف ورزی ہے۔’

پریس کلب میں موجود صحافی، دانشور اور سول سوسائٹی کے لوگ۔ (تصویر: سونیا یادو/دی وائر)

پریس کلب میں موجود صحافی، دانشور اور سول سوسائٹی کے لوگ۔ (تصویر: سونیا یادو/دی وائر)

جیل سے رہائی کے بعد پہلی بار ایک پلیٹ فارم پر عوامی طور پر خطاب کرتے ہوئے نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ نے کہا کہ جمہوریت آج اس لیے زندہ ہے کیونکہ اس پر لوگوں کا اعتماد زندہ ہے۔ جمہوریت کا تصور عوام سے ہی ہوتا ہے۔ اس میں میڈیا اداروں کا کردار اہم ہے۔ میڈیا کو لوگوں تک سچ پہنچانے کی ذمہ داری اور آزادی دونوں ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے دوران بھی لوگوں نے احتجاج کیا اور میڈیا اداروں نے اخبارات کے صفحات کو خالی چھوڑ دیے۔ یہ سب بتاتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کتنی ضروری  ہے اور اس کے لیے کتنی جدوجہد کی گئی اور آج بھی کی جا رہی ہے۔

پربیر نے مزید کہا کہ آج ہم ایک مشکل لیکن دلچسپ وقت میں جی رہے ہیں۔ یہاں لوگوں کو مختلف طریقوں سے ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، ان کی سچائی، ایمانداری اور وقار کو مجروح کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود لوگ جدوجہد کر رہے ہیں۔

انہوں نے جیل میں بند تمام صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔اس کے ساتھ ہی  انہوں نے نیوز کلک کے ملازمین کے لیے بھی ہمدردی کا اظہار کیا، جنہوں نے اپنے فون، لیپ ٹاپ کے ساتھ ہی  روزی روٹی تک کھو دی ہے۔