حکومت کے پاس کوئی آئیڈیا نہیں ہے۔ وہ ہر اقتصادی فیصلے کو ایک ایونٹ کےطور پر لانچ کرتی ہے۔ تماشہ ہوتا ہے، امیدیں بٹتی ہیں اور نتیجہ زیرو ہوتا ہے۔
انڈین فوڈ کارپوریشن کے چرمرانے کی خبریں آنے لگی ہیں۔ اسی کے ذریعے حکومت ہند کسانوں سے اناج خریدتی ہے۔ حکومت اس کے بدلے میں کارپوریشن کو پیسے دیتی ہے جس کو ہم سبسیڈی بل کے طور پر جانتے ہیں۔2016 تک تو انڈین فوڈ کارپوریشن کو سبسیڈی سرپلس میں ملتی تھی۔ جتناچاہیے ہوتا تھا اس سے زیادہ، لیکن 2016-17 میں جب اس کو چاہیے تھا ایک لاکھ 10 ہزار کروڑ روپے، تو ملا 78000 کروڑ روپے۔ باقی کا 32000 کروڑ روپے نیشنل اسمال سیونگس فنڈ (این ایس ایسایف) سے قرض لیا۔جس طرح سے حکومت ہند ریزرو بینک کی بچت سے پیسے لینے لگی ہے اسی طرح سےکارپوریشن یہ کام پہلے سے کر رہا تھا۔ جیسےجیسے ضرورت پڑی این ایس ایس ایف قرض لینے لگا۔ نتیجہ 2016-17 کا مالی سال ختم ہوتے ہی این ایس ایس ایف سے لیاگیا قرض 70000 کروڑ کا ہو گیا۔
2017-18 میں بھی یہی ہوا۔ کارپوریشن کو چاہیے تھا ایک لاکھ 17 ہزار کروڑ روپے تو حکومت نے دیا 62000 کروڑ روپے۔ پھر این ایس ایس ایف سے 55000 کروڑ روپے لون لیا گیا۔ اس طرح 2017-18 کے آخر تک لون ہو گیا ایک لاکھ 21 ہزار کروڑ۔ 2018-19 کے آخر تک یہ بڑھکر ایک لاکھ 91 ہزار کروڑ ہوگیا۔حکومت ہند کی ایک یونٹ پر تقریباً دو لاکھ کروڑ روپے کا قرض ہے۔ اس کے علاوہ بھی کارپوریشن نے کئی جگہوں سے لون لیے ہیں۔ مجموعی طور پر دو لاکھ 40 ہزار کروڑ روپے لون ہو جاتا ہے۔ 2019-20 سے کارپوریشن کو اصل رقم دینی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ 46000 کروڑ روپے کے لون چکانے ہوںگے۔ اس سبب این ایس ایس ایف کا کیا حال ہوگا،کیونکہ وہاں بھی تو عوام کا ہی پیسہ ہے، اس کا تجزیہ ابھی پڑھنے کو نہیں ملا ہے۔
بڑی وجہ یہ بتائی گئی کہ حکومت سبسیڈی کے تحت چاول اور گیہوں کے دام نہیں بڑھاتی ہے۔ چاول 3 روپے فی کیلواور گیہوں 2 روپے فی کیلودیتی ہے۔ اگر 1 روپے فی کیلوبھی بڑھا دیا جائے تو سال میں 5000 کروڑ روپے کی آمدنی ہو سکتی ہے۔لیکن جس اسکیل کا لون ہے اس کے سامنے یہ 5000 کروڑ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ حکومت ایک کیلو چاول پر 30 روپے اور گیہوں پر 22.45 روپے کی سبسیڈی دیتی ہے۔ 2016 سے 2018 کے دوران حکومت بجٹ میں اشیائےخوردنی سبسیڈی کے لئے جو پیسہ اعلان کرتی تھی اس کا آدھا سے زیادہ ہی دے پاتی تھی۔ظاہر ہے نوٹ بندی کے بعد حکومت کی اقتصادی حالت چرمرانے لگی تھی۔ اس کوچھپانے کے لئے بجٹ میں اعلان شدہ پیسہ نہیں دیا گیا اور کارپوریشن سے کہا گیا ہوگاکہ این ایس ایس ایف یا کہیں سے لون لےکر بھرپائی کریں۔ اب کارپوریشن پر تین لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کا بقایہ ہو گیا ہے۔ جس میں دو لاکھ 40 ہزار کروڑ کا صرف لون ہے۔
کیا اس کا اثر کسانوں پر پڑےگا؟ جو حکومت اپنے پرفارمنس کا دعویٰ کرتی ہےاس کے ایک بڑےادارہ کا یہ حال ہے۔ جلد ہی اپوزیشن پر سارا قصورلگادیا جائےگا۔میں نے ساری جانکاری سنجیب مکھرجی کی رپورٹ سے لی ہے۔ بزنس اسٹینڈرڈ میں چھپی ہے۔اتنی محنت سے آپ کو کوئی ہندی کا اخبار نہیں بتائےگا۔ نیوز چینل تو بھول ہی جائیں۔ کارپوریٹ ٹیکس گھٹا تو اخباروں اور چینلوں میں تعریفیں خوب چھپیں۔ اس کےکچھ دنوں بعد ایک ایک کرکے اس کے بے اثر ہونے کی خبریں آنے لگیں۔ بتایا جانے لگاکہ اس سے سرمایہ کاری میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ ان خبروں پر زوردار بحث نہیں ہوئی اور نہ ہی وزیر یا حکومت اس کا ذکر کرتے ہیں۔
سینسکس میں جو تیزی آئی تھی اس کا نیا تجزیہ بزنس اسٹینڈرڈ میں آیا ہے کہ ممبئی اسٹاک ایکس چنج کی501 کمپنیوں میں سے254 کمپنیوں کے شیئرزکو نقصان ہوا ہے۔ 19 ستمبر کو کارپوریٹ ٹیکس کم ہوا تھا۔ اس کے بعدشیئرز کی اچھال کا مطالعہ بتاتا ہے کہ صرف دو کمپنیوں کی وجہ سے بازار میں اچھال آئی۔ ایچ ڈی ایف سی بینک اور ریلائنس۔ سب سے زیادہ ریلائنس کو 20.6 فیصد کا فائدہ ہوا۔ اس کے بعد ایچ ڈی ایف سی بینک کو 11.8 فیصد۔ باقی اسٹیٹ بینک آف انڈیا، پیرامل، زی اینٹرٹین منٹ، ٹاٹا کنسلٹینسی،انڈیا بلس، این ٹی پی سی اور کول انڈیا کو جھٹکا لگا۔ یہ تجزیہ بتانا چاہتا ہے کہ ہندوستان کے سرمایہ کاروں کے پاس پیسے نہیں ہیں جو بازار میں سرمایہ کاری کر سکیں۔
بزنس اسٹینڈرڈ میں ایک اور رپورٹ چھپی ہے کہ منیوفیکچرنگ سیکٹر کی 90 فیصد کمپنیوں کو کارپوریٹ ٹیکس میں کٹوتی سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ یہ سیکٹر نہیں سدھرےگا تو روزگار میں اضافہ نہیں ہوگا۔ عام طورپر لوگ چھوٹے سے شروع کرتے ہیں، جس کے مالک خود ہوتے ہیں۔ بعد میں اس کو کمپنی میں بدلتے ہیں جب بزنس بڑی ہوتا ہے۔ اس سیکٹر کے ایسے مالکوں کو ٹیکس کٹوتی سے کوئی فائدہ نہیں۔ ان کو ابھی بھی 42.74 فیصد ٹیکس دینے ہوںگے۔ صرف جو نئی کمپنی بنا رہا ہے اس کو 17.16 فیصد ٹیکس دینےہوںگے۔ زیادہ تر کو 29.12 فیصد سے لےکر 42.74 فیصد ٹیکس دینے ہوںگے۔
7 اکتوبر کو انڈین ایکسپریس کی خبر دیکھتے ہوئے لگا کہ حالات ابھی اور برےہوںگے۔ دیوالی کی فروخت کو دکھاکر شور شرابہ ہوگا لیکن واپس اسی طرح ڈھلان پرآنا ہے۔ جارج کی یہ خبر بتاتی ہے کہ کامرشیل سیکٹر میں پیسے کی روانی 88 فیصد گھٹ گئی ہے۔ سوچیے جب پیسہ ہی نہیں ہوگا جو سرمایہ کاری کا دائرہ کیسے گھومےگا۔روزگار کیسے ملےگا۔ یہ اعداد و شمار ریزرو بینک کا ہے۔ اس سال اپریل سےستمبر کے درمیان تک بینکوں اور غیر-بینکوں سے کامرشیل سیکٹر میں لون کی روانی 90995 کروڑ ہی رہی ہے۔ گزشتہ سال اسی دوران736087 کروڑ تھا۔ سوچیے کتنا کم ہو گیا۔ تو اس کا اثر سرمایہ کاری پر پڑےگا ہی۔
کئی لوگ چپکے سے میسیج کرتے ہیں کہ ان کی کمپنی تین یا چار مہینے سے تنخواہ نہیں دے رہی ہے۔ لوگوں کی تنخواہ نہیں بڑھ رہی ہے وہ الگ۔ ویسے سب خوش ہیں۔ یہ بھی صحیح ہے۔ میڈیا میں بڑی کمپنیوں میں آہستہ آہستہ کر کےلوگ نکالے جا رہے ہیں تاکہ ہنگامہ نہ ہو۔ گودی میڈیا بننے کے بعد امید ہے کہ ان کے یہاں تنخواہ بڑھی ہوگی۔ یہ بات تو ان چینلوں میں کام کرنے والے لوگ ہی بتا سکتے ہیں۔ باقی تو آپ خوش ہیں ہی۔ یہ سب سے مثبت بات ہے۔جن نرملا سیتارمن کا استقبال لکشمی کے طور پر ہوا تھا وہ ابھی تک فیل رہی ہیں۔ انہوں نے بجٹ کے دوران بریف کیس ہٹاکر لال کپڑے میں بجٹ کو لپیٹکر پیغام تودے دیا مگر نکلا کچھ نہیں۔ یہی ہو رہا ہے، ہندو علامتوں سے ہندوؤں کو فریب دیایاجا رہا ہے۔
بہتر ہوتا کہ وہ بریف کیس ہی ہوتا لیکن اس میں بجٹ ہوتا جس سے ملک کےنوجوانوں کو کچھ فائدہ ہوتا۔ نرملا سیتارمن کو لکشمی نہ بناکر میڈیا ان کو وزیرخزانہ کی طرح پیش کرتا۔ ارون جیٹلی کو تو کسی نے کوبیر کی طرح پیش نہیں کیا۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ وہ لال کپڑے میں سادہ کاغذ لپیٹ لائیں توبھی ملک کہنے لگا کہ واہ،واہ کیا بجٹ بنایا ہے۔نریندر مودی حکومت سیاسی طور پر سب سے زیادہ کامیاب حکومت ہے۔ ابھی ہونےوالے انتخابات میں جیتکے بعد وہ اپنی تعریف و توصیف میں مست ہو جائےگی۔ لیکن اقتصادی مورچے پر اس کی شدیدناکامی اس کے حامیوں کو بھی رلا رہی ہے۔
ساڑھے پانچ سال کی قواعد کے اسکیل پر دیکھیں تو اقتصادی مورچے پر یہ حکومت بری طرح فیل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزگار کی بری حالت ہے۔ لیکن نریندر مودی کی مقبولیت کا یہ عروج ہی کہا جائےگا کہ جو بےروزگار ہے اور جن کا بزنس ڈوب گیا یا آدھے سے بھی کم ہو گیا وہ ابھی بھی ان کے بھکت ہیں۔ ایسی حمایت کسی رہنما کو ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملی ہے۔ حکومت کے پاس کوئی آئیڈیا نہیں ہے۔ وہ ہر اقتصادی فیصلے کو ایک ایونٹ کے طور پر لانچ کرتی ہے۔تماشہ ہوتا ہے۔ امیدیں بٹتی ہیں اور نتیجہ زیرو ہوتا ہے۔ ساڑھے پانچ سال کی شدیداقتصادی ناکامی کے بعد بھی سیاسی کامیابی شاندار ہے۔
(یہ مضمون بنیادی طور پر رویش کمار کے بلاگ قصبہ پر شائع ہوا ہے۔)