جنوری2020 میں سی اے اے کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس احتجاج کر رہے لوگوں پر ایک نابالغ نوجوان نے گولی چلائی تھی،جس میں جامعہ کا طالبعلم زخمی ہو گیا تھا۔ اب اس نوجوان پر ہریانہ کے پٹودی میں ہوئی ایک مہاپنچایت میں فرقہ وارانہ تقریر کرنے کاالزام لگا ہے۔
نئی دہلی: ہریانہ کے پٹودی میں چار جولائی کو ہوئی مہاپنچایت کے دوران فرقہ وارانہ تقریرکرنے کے الزام میں گڑگاؤں پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے اور ایف آئی آر بھی درج کی ہے۔لائیولاء کی
رپورٹ کے مطابق، گرفتار کیا گیا شخص جنوری 2020 میں شہریت قانون (سی اےاے)کی مخالفت میں ہوئےمظاہرہ کے دوران
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر گولی چلانے والا نوجوان ہی تھا۔
حالانکہ، اس وقت اسے جلد ہی ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔
مانیسر کے ڈی ایس پی
ورون سنگھلا نے کہا کہ ملزم کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ153اے (مختلف طبقات کے بیچ دشمنی پھیلانے)، 295اے (جان بوجھ کر کسی طبقے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے)کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
دراصل گڑگاؤں کے جمال پور گاؤں کے باشندہ دنیش کی شکایت پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔بتا دیں کہ 30 جنوری 2020 کوشہریت قانون کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس احتجاج کر رہے لوگوں پر ایک نوجوان نے گولی چلا دی تھی۔
اس واقعہ میں جامعہ کا ایک طالبعلم زخمی ہو گیا تھا۔ بعد میں ملزم کی پہچان اسی 17سالہ نابالغ کے طور پر کی گئی تھی۔
ملزم اور اس کی آن لائن مقبولیت میں اضافہ کا مطالعہ کرنے کے بعد صحافی کوشک راج اور عالیشان جعفری نے
دی وائر پر شائع ایک اسٹوری میں بتایا تھا کہ کس طرح سے ان کے بیانات کی ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتی ہے۔
چار جولائی کو ہوئی اس مہاپنچایت میں ملزم نے ‘ہندوؤں سے مسلم خواتین کو اغوا کر کےلو جہاد کا بدلا لینے کو کہا تھا۔ اتنا ہی نہیں وہاں موجود لوگوں کو مسلم مخالف نعرے لگاتے بھی سنا گیا۔ملزم کو ‘جب ملے٭٭ کاٹے جا ئیں گے، تب رام رام چلائیں گے’ کہتے بھی سنا گیا۔
راج اور جعفری کی رپورٹ میں مکمل تفصیل ہے کہ کتنی بار ملزم نے سوشل میڈیا پر اس موادکو ریلیز کیا، جس میں وہ کھلے عام مسلمانوں کے خلاف تشدد کی اپیل کر رہا ہے۔ویڈیو کی ایک سیریز میں کیے گئےتشدد کا اشارہ بھی ملتا ہے اور اس کا عنوان ہے‘گئو رکشا’یا گائے کاتحفظ۔