فاروق عبداللہ کے پاس  نظم و نسق  کا مسئلہ کھڑا کرنے کی زبردست صلاحیت: پی ایس اے آرڈر

02:39 PM Sep 21, 2019 | دی وائر اسٹاف

جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت درج معاملے میں ان پر دہشت گردوں کی حمایت   کا الزام لگایا گیا ہے۔

جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی : جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے اور ان پر لگائے گئے الزامات میں کہا گیا ہے کہ کشمیر وادی میں نظم ونسق کو بگاڑنے  اور اپنے بیانات سے لوگوں کو حکومت کے خلاف کرنے کی ان کے پاس زبردست صلاحیت ہے۔عبداللہ پر دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں  کی ستائش کرنے والے بیان دینے کے بھی الزام رہے ہیں۔سرینگر سے لوک سبھا ممبر 81 سالہ عبداللہ پانچ اگست سے نظربند تھے، جب مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کر دیا تھا۔ ان کو پی ایس اے کے تحت گزشتہ  16 ستمبر کو حراست میں لیا گیا تھا اور ان کو گُپکر روڈ واقع ان کی رہائش گاہ میں رکھا گیا ہے، جس کو جیل قرار دیا گیا ہے۔

عبداللہ کے خلاف جاری پی ایس اے آرڈر کی کاپی  خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو حاصل ہوئی ہے، جس میں 2016 سے لےکر سات واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جب انہوں نے علیحدگی پسند حریت کانفرنس اور دہشت گرد تنظیموں کی حمایت میں بیان دئے۔عبداللہ پی ایس اے کے تحت نامزد کئے جانے والے پہلے رہنما ہیں جو وزیراعلیٰ کے عہدے پر رہے ہیں۔ پی ایس اے صرف جموں و کشمیر میں ہی نافذ ہے۔ ملک میں دیگر مقامات پر این ایس اے نافذ ہے، جو اس قانون کے ہی برابر ہے۔

افسروں نے بتایا کہ نیشنل کانفرنس صدر اور تین بار وزیراعلیٰ رہے عبداللہ کو پی ایس اے کے تحت نامزد کیا گیا ہے، جس کے تحت کسی آدمی کو بغیر مقدمہ کے تین سے چھ مہینے تک جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔پی ایس اے آرڈر میں جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ دینے والے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35اے ہٹانے کو لےکر عبداللہ پر حکومت کے خلاف لوگوں کوصف بند کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔

حکم میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ ملک کی یکجہتی اور سالمیت کو خطرے میں ڈالنے اور دہشت گردوں کی ستائش کرنے کے بجائے آئین کے آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35اے پر بحث کر سکتے تھے۔آرڈر میں نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ پر علیحدگی پسند نظریہ کو بڑھاوا دینے کے علاوہ لوگوں کی زندگی اور آزادی کے لئے خطرہ پیدا کرنے کے الزام ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے، ‘ ضلع (سرینگر) کے اندر اور وادی کے دیگر حصوں میں حالات کو بگاڑنے کی  عبداللہ کے پاس زبردست صلاحیت ہے۔ ‘ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ ایک فرد کے طور پر ان کو ملک کے خلاف عام لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے دیکھا گیا ہے۔پی ایس اے آرڈر میں کہا گیا ہے کہ عبداللہ کی رہائش گاہ ‘ جی-40 گپکر روڈ ‘ کو ایک عارضی جیل قرار دیا گیا ہے۔ ریاستی انتظامیہ نے ان پر عوامی نظام میں خلل ڈالنے کے مقصد سے قانون سے ٹکراؤ مول لینے والے بیان دینے کا الزام لگایا ہے۔

پی ایس اے میں دو دفعات ہیں-‘ عوامی نظام ‘ اور ‘ ریاست کی حفاظت کو خطرہ ‘۔ پہلی دفعہ بغیر مقدمہ کے تین سے چھ مہینے کی حراست کا اہتمام کرتی ہے جبکہ دوسری دفعہ دو سال تک کی حراست کی اجازت دیتی ہے۔علیحدگی پسند اور وادی میں عبداللہ کے سیاسی مخالفوں نے انھیں ریاست کے ہندوستان میں شامل رہنے کا ایک مضبوط حامی قرار دیا ہے۔

گزشتہ دنوں سی پی آئی ایم رہنما تاریگامی نے کہا تھا کہ ،نہ تو میں غیر ملکی ہوں، نہ ہی ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور دوسرے کشمیری رہنما دہشت گرد ہیں۔انہوں نے  نے کہاتھا، ‘نہ تو میں غیر ملکی ہوں اور نہ ہی ڈاکٹر فاروق عبداللہ یا دوسرے  کشمیری رہنما دہشت گرد ہیں۔ 4 اگست کوسرینگر میں کل جماعتی میٹنگ ہوئی۔ میٹنگ کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے ڈاکٹر عبداللہ نے میڈیا کو جانکاری دی اور لوگوں سے دہشت نہ پھیلانے کی اپیل کی۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد آدھی رات کو میرے اور ڈاکٹر عبداللہ کے ساتھ تمام رہنماؤں کو نظربند کر دیا گیا۔ ‘انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی آرٹیکل 370 کی زیادہ تر دفعات کو ختم کرنے کو چیلنج دینے کے لئے الگ سے پی آئی ایل  داخل کرے‌گی۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان  پٹ کے ساتھ)