کسانوں کی تحریک اس کاجیتا جاگتا ثبوت ہے کہ اگرمقصد واضح ہو تو اختلاف رائےکے باوجودمشترکہ جد وجہد کی جا سکتی ہے۔ سنیکت کسان مورچہ نے ایک لمبے عرصے بعد مشترکہ جدجہدکی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا ہے۔
یہ لمحہ کسانوں کا ہے۔ان کی جد وجہدکاہے۔اس جدوجہد کی عظمت کا ہے۔ ان کے صبروتحمل کا ہے۔ اپنی سمجھ پر کسانوں کے بھروسے کا ہے۔ بے خوفی کا ہے۔ حاکمیت کے سامنے اعتدال پسندی کا ہے۔
مہارت کے آگےعام آدمی کےصواب دید کا ہے۔اسلحہ کےآگے اپنی قوت کا ہے۔اقتدارکی انانیت کے سامنےجدوجہد کی خاکساری کا ہے۔ چالاکی اورفریب کے سامنے کھلی اوربے خوف سادگی کا ہے۔تلخی کے سامنے نرمی کا ہے۔ یہ لمحہ مذہب کے دنیاوی سیاق کا بھی ہے۔ ستیہ گرہ کا بھی ہے۔
اس لمحے کو کیا ہم آلودہ کریں اس کی بحث سے اور اس کےلفظوں کے تجزیے سے جو تشدد، نفرت، انانیت، غرور، منافقت، تنگ نظری اور گھٹیا پن کے مترادف ہیں؟ اسے اس کا لمحہ نہ بننے دیں۔ یہ اس کی حکمت عملی کی ہوشیاری سے حیران ہونے کا وقت نہیں ہے۔
یاد رکھیں، تاناشاہ اور فاشسٹ کبھی جھکتے ہوئے دکھنا نہیں چاہتا۔ جب وہ جھکے، اسے اس کی چالاکی کہہ کر اس سے مرعوب ہونے کی جگہ عوامی طاقت کی فتح پر مبارکباد دینے کی ضرورت ہے۔
سال ہونے جا رہا ہے جب یہ تحریک شروع ہوئی تھی۔ اس کا مرکز پنجاب تھا اور یہ ہریانہ تک پھیلا۔ پھر راجستھان اورمغربی اتر پردیش اس کے دائرے میں آئے۔
یہ سچ ہے کہ ہندوستان کے بقیہ علاقے اس تحریک میں اس طرح شامل نہیں ہو پائے جس طرح پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش کے کسان تھے لیکن تھی یہ کسانوں کی تحریک ہی۔ کسانوں نے پہلے اپنے صوبوں میں جدوجہدکیا اور پھر دہلی کوچ کا فیصلہ کیا۔
دہلی ان کی راجدھانی ہے، اقتدار کی نہیں،یہ اعلان ان کا تھا۔ اقتدارکے پاس لیکن پولیس، فوج، نوکر شاہی کی طاقت ہے، ہتھیاروں کا زور ہے۔ سو، اس کے زور پر دہلی کی سرحدوں پر انہیں روک دیا گیا۔ کسانوں نے طاقت کی آزمائش اپنی قوت ارادی کے سہارے ہی کرنے کا فیصلہ کیا۔
جن گرو گووند سنگھ اور تیغ بہادر سنگھ کے نام پر ہندوؤں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں اقتدارکے خلاف جدوجہد کی علامت مان کر یہ تحریک آگے بڑھی۔ ایک مرکزی اقتداراگر سب کو کچلنا چاہے تو احتجاج وہاں سے ہوگا جسےسرکل کہتے ہیں۔گرو تیغ بہادر کو اس طرح اس تحریک نےاقتدار سے مقابلے کے لیےحوصلہ کی علامت کے طور پر استعمال کیا۔
یہ سمتی کی تحریک تھی۔ وہ سمتی جس کی اہمیت جواہر لال نہرو نے متھرا میں ایک کسان سے سمجھی تھی۔ اس نے ان سے اور کانگریس کے لوگوں سے کہا تلسی کے حوالے سے ‘جہاں سمتی تہں سمپتی نانا۔’ سمتی جو کمتی کو پہچانتی ہے۔سمتی جو معصوم ہے لیکن نادان نہیں ہے۔ اس لیے کسانوں نے سارے اکساووں کو دیکھا اور سمجھا اور ان کے جال پھنسنے سے انکار کر دیا۔
یہ تحریک اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ اگر مقصدواضح ہو تواختلاف رائے کے باوجود مشترکہ جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ سنیکت کسان مورچہ نے ایک لمبے عرصے بعدجدوجہد کی پالیسی کو عملی جامہ پہنا کردکھلایا۔ مشترکہ جدوجہد ممکن ہے اگر چولھا ساجھا ہو۔
اس تحریک سےسیاسی پارٹیوں کو بھی سبق لینا چاہیے۔ یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ان کے لیے وہ اہم ہیں یا ان کامقصد۔
یہ لمحہ جدوجہد کی اہمیت کو قائم کرنے کا ہے۔ اقتدارکی طاقت کتنی ہی ہو، وہ کتنی ہی وسائل سے مالا مال ہو، اگر اپنےمقصد کی پاکیزگی اور اسباب کی پاکیزگی میں یقین ہے تو جدوجہد میں مایوس ہونے کی وجہ نہیں ہے۔ اصل بات ہے جدوجہد۔ فتح ہوگی یا نہیں، یہ جدوجہد کے علاوہ دوسری چیزوں سے طے ہوگا۔ ہم ان عوامل کو متاثر نہ کر پائیں تو بھی ہمارے پاس جدوجہد کے علاوہ اور کوئی متبادل نہیں۔
پچھلے سات سال ہندوستانی عوام کے ہر طبقے کی تباہی کے سال رہے ہیں۔ چھوٹے کاروباریوں، نوکری پیشہ لوگوں، مزدوروں، نوجوانوں کے خلاف جیسےاس حکومت نے جنگ چھیڑ دی ہے۔مسلمانوں اور عیسائیوں یا دلتوں کی ابھی ہم بات نہیں کر رہے۔
جی ایس ٹی ہو یا نوٹ بندی، اس نے عام آدمی کی کمر توڑ دی۔ لیکن نہ تو کاروباری کھڑے ہوئے نہ نوجوان۔ ہاں مسلمان، وہ بھی مسلمان عورتیں کھڑی ہوئیں۔ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہار گئیں کیونکہ این آرسی کے عمل کے باوجود ساری ڈینگوں کے باجود اس کوشروع نہیں کیا جا سکا۔ کسان کھڑے ہوئے تھے حصول اراضی قانون کی مخالف میں اور اسے رد کرنا پڑا تھا۔
اس تحریک کے پیچھے ایک تحریک کی تعلیم ہے۔ سی اے اےکے خلاف تحریک کی۔ اس کے صبر، صبر اورپائیداری کی۔ اس کی ہم آہنگی کی۔ آئین اور عدم تشدد پر اس کے زور کی۔ وہ ایک ملتوی تحریک ہے۔ لیکن وہ ہے، اس کی جدوجہدہے۔
زرعی قوانین کے نافذ ہونے کے بعد ساری سیاسی پستی کے بیچ کسانوں نے جدوجہد کی راہ پر جانے کا فیصلہ کیا۔ماہرین زراعت طنز سےمسکرائے، کسانوں پر انہوں نے ترس کھایا۔ سیاسی پارٹی پہلے ذرا سکپکائے لیکن پھر تحریک سے انہوں نے طاقت حاصل کی۔ کسانوں نے اپنی جدوجہد کو آلودہ نہ ہونے دیا۔اقتدار کے سارے جبر اور جھوٹ کے باوجود۔
اقتدار کے سارےمراکز نے کسانوں پر حملہ کیا۔ عدالت نے چالاکی کی۔ کسانوں نے محض اپنی جدوجہد کی آسانی کے سہارے شکست ماننے سے انکار کیا۔
سنگھو، ٹکری، شاہجہاں پور اور غازی پورہندوستانی جمہوریت کے سفرسنگ میل ہیں۔ ابھی سیاسیات کو بھی انہیں سمجھنا باقی ہے۔
جیسا ہم نے کہا یہ مقدس لمحہ ہے۔ جدوجہد کے استحکام کے اعلان کا۔فتح سے کہیں زیادہ۔ ابھی ہم اسی پر توجہ مرکوز کریں۔
دہلی مبارک ہوئی ہے کہ اس کی سرحدوں سے جمہوریت کی جان فسطائیت کی گھٹن زدہ آلودگی میں اس کی سانس بچانے اس تک جاری ہوئی ہے۔ اس فتح کے نتائج کے تجزیے کا لمحہ بھی آئے گا۔
ابھی توجدوجہدکو زندہ بادکہیں۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)