مرکزی حکومت سے جمعہ کو ہونے والی آٹھویں دور کی بات چیت سے پہلے ہزاروں کسانوں نے دہلی اور ہریانہ میں ٹریکٹر مارچ نکالا۔کسانوں کا کہنا ہےکہ 26 جنوری کوہریانہ،پنجاب اور اتر پردیش کے مختلف حصوں سے قومی راجدھانی میں آنے والے ٹریکٹروں کی مجوزہ پریڈ سے پہلےیہ محض ایک ریہرسل ہے۔
ٹکری بارڈر کو جاتے کسان۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سرکار سے بات چیت سے پہلے ہزاروں کسانوں نے مرکز کے تین نئے زرعی قوانین کے خلاف جمعرات کو سنگھو، ٹکری اور غازی پور بارڈر اور ہریانہ کے ریواسن میں ٹریکٹر ریلی نکالی۔مظاہرہ کر رہے کسانوں نے کہا کہ 26 جنوری کو ہریانہ، پنجاب اور اتر پردیش کے مختلف حصوں سےقومی راجدھانی میں آنے والے ٹریکٹروں کی مجوزہ پریڈ سے پہلے یہ محض ایک ریہرسل ہے۔
بھارتیہ کسان یونین(ایکتا اگراہاں)کے چیف جوگندر سنگھ اگراہاں نے کہا کہ 3500 سے زیادہ ٹریکٹروں اور ٹرالیوں کے ساتھ کسان مارچ میں حصہ لے رہے ہیں۔پنجاب کے بڑے کسان یونین میں سے ایک اگراہاں نے کہا کہ وہ تین قوانین کو واپس لینے کے علاوہ کسی بات پر راضی نہیں ہوں گے۔
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت اور کسان تنظیموں کے بیچ جمعہ کو آٹھویں دور کی بات چیت ہونی ہے۔مظاہرہ کر رہے کسان تنظیموں اور تین مرکزی وزیروں کے بیچ سوموار کو ساتویں دور کی بیٹھک بے نتیجہ رہی تھی کیونکہ کسان تینوں قوانین کورد کرنے کی اپنی مانگ پر قائم ہیں۔
دہلی پولیس اور ہریانہ پولیس کے اہلکاروں کی بھاری تعیناتی کے بیچ ٹریکٹر پر سوار کسانوں نے صبح 11 بجے کنڈلی مانیسر پلول ایکسپریس وے کی جانب مارچ شروع کیا۔
اپنے ٹریکٹروں پر بیٹھےمظاہرہ کر رہے کسان اپنے مظاہرہ کی جگہوں سے نکلے، گاڑیوں پر ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے گانے بج رہے تھے۔ ان کے دیگر ساتھی کسان مونگ پھلی، ناشتہ، چائے، اور اخباروں وغیرہ سامان کے ساتھ راستوں میں کھڑے بھی دکھے۔
غازی پور سے بھارتیہ کسان یونین رہنما راکیش ٹکیت کی قیادت میں ٹریکٹر مارچ پلول کی طرف بڑھا ہے۔سنیکت کسان مورچہ کے ایک سینئر ممبر ابھیمنیو کوہاڑ نے کہا، ‘آئندہ دنوں میں ہم تینوں زرعی قوانین کے خلاف اپنی تحریک کو تیز کریں گے۔ آج کے مارچ میں ہریانہ سے تقریباً 2500 ٹریکٹر آئے ہیں۔’
انہوں نےکہا، ‘ہم آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر سرکار ہماری مانگیں قبول نہیں کرےگی تو کسانوں کا مظاہرہ آگے اور تیز ہوگا۔’سنگھو سے ٹکری بارڈر، ٹکری سے کنڈلی، غازی پور سے پلول اور ریواسن سے پلول کی طرف ٹریکٹر ریلیاں نکالی گئی ہیں۔
پنجاب کے ہوشیاپور سے ٹریکٹر ریلی میں حصہ لینے پہنچے ہرجندر سنگھ نے کہا،‘سرکار ایک کے بعد ایک بیٹھک کر رہی ہے۔ انہیں پتہ ہے ہمیں کیا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قانون واپس لیے جائیں لیکن ہمیں صرف بیکار کی بیٹھکیں مل رہی ہیں۔ اس ریلی کے ذریعے ہم 26 جنوری کو کیا کریں گے اس کی محض جھلک دکھا رہے ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘آج کی ریلی صرف دہلی کی سرحد پر ہو رہی ہے، لیکن ایک بار جب ہمارے کسان رہنما راجدھانی میں داخل ہونے کا فیصلہ کریں گے، تو ہم وہ بھی کریں گے۔’
سونی پت میں کسانوں کی ٹریکٹر ریلی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
دی ہندو کے مطابق ٹریکٹر ریلی میں حصہ لے رہے کچھ کسان رہنماؤں کو ہریانہ پولیس نے حراست میں بھی لیا۔میوات وکاس سبھا کے صدر سلام الدین نے بتایا کہ ہریانہ کے کنڈلی مانیسر پلول ایکسپریس وے پر نونہ سے پلول تک مجوزہ ٹریکٹر ریلی کے معاون رمضان چودھری کو نونہ پولیس نے حراست میں لیا۔
ان کے ساتھ چار پانچ اور رہنماؤں کو حراست میں رکھا گیا ہے۔ انہیں ریلی سے پہلےجمعرات صبح گھر میں نظربند کر دیا گیا۔انہوں نے الزام لگایا ہے کہ پولیس گروگرام الور شاہراہ پر کے ایم پی کی جانب مارچ کرنے کے لیے ٹریکٹروں کو اکٹھا نہیں ہونے دے رہی ہے۔
اکھل بھارتیہ میواتی سماج کے صدر رمضان چودھری کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے انہیں صبح تقریباً 8 بجے گھر سے اٹھا لیا اور ان سے ملنے نہیں دے رہی ہے۔وہیں، نونہ ایس پی نریندر بجارنیا نے حراست میں لینے کی بات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ چودھری کو ٹریفک منصوبہ تیار کرنے کے لیے ریلی کے راستہ کی تفصیلات مانگنے کے لیے تھانے بلایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ٹریکٹر ریلی کی اجازت دی گئی تھی، لیکن گروگرام الور شاہراہ پر بڑی تعداد میں بھاری کامرشیل گاڑیوں کی آمدورفت کے بعد سے ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی ضرورت تھی۔بتا دیں کہ شدید سردی، بارش کے باوجود پنجاب، ہریانہ اور ملک کے کچھ دوسرے حصوں کے ہزاروں کسان پچھلے 40 دنوں سے زیادہ سے دہلی کی الگ الگ سرحدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
مرکز کی جانب سے لائے گئے نئے تین قوانین کے خلاف پچھلے ایک مہینے سے بھی زیادہ سے ہزاروں کسان راشٹریہ راجدھانی کی الگ الگ سرحدوں پر گزشتہ26 نومبر سے مظاہرہ کر رہے ہیں۔
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)