فیک نیوز راؤنڈ اپ: گزشتہ ہفتے بھگوا پورٹلوں کے علاوہ دی ہندو، اسکرال، دی نیو انڈین ایکسپریس جیسے اداروں نے بھی فیک نیوز کی اشاعت کی، یہ جھوٹی خبریں نصرت جہاں، مہوا مترا اور نرملا سیتا رمن سے متعلق تھیں۔
ترنمول کانگریس کی نو منتخب ایم پی نصرت جہاں نے گزشتہ ماہ کاروباری -تاجر نکھل جین سے شادی کی اور جب وہ شادی کے بعد پارلیامنٹ آئیں تو انہوں نے اپنی مانگ میں سیندور لگایا ہوا تھا اور گلے میں منگل سوتر پہنا ہوا تھا۔ میڈیا میں ان کی تصویریں عام ہو گئیں اور سوشل میڈیا کے صارفین ان تصویروں پر تبصرے کرنے لگے۔ اس بین المذاہب شادی پر سوشل میڈیا میں بات چل ہی رہی تھی کہ ملک کے مین اسٹریم میڈیا نے ہنگامہ برپا کر دیا اور اپنی رپورٹز میں دعویٰ کیا کہ مدرسہ دار العلوم دیوبند نے فتویٰ دیا ہے کہ نصرت جہاں نے ایک غیر مسلم سے شادی کر کے جو کارنامہ انجام دیا ہے، اس کی اجازت اسلام نہیں دیتا ہے؛ شریعت کے مطابق مسلمان صرف مسلمان سے ہی شادی کر سکتا ہے۔
سب سے پہلے
اے بی پی نیوز نے 28 جون کو ایک عالم جن کا نام اسد قاسمی تھا، ان کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ نصرت فلموں میں کام کرتی ہیں، ایکٹر جو ہوتے ہیں دین ان کے لئے اہمیت نہیں رکھتا، انھیں جو کرنا ہوتا ہے وہ کرتے ہیں، اس لیے اس موضوع پر گفتگو کرنا ہی بیکار ہے، جو شریعت کا حکم تھا وہ میں نے میڈیا تک پہنچایا ہے۔
اے بی پی نیوز نے مولانا اسد قاسمی کو اپنی رپورٹ میں ‘عالم’ قرار دیا تھا، جس کو بعد میں نیوز 18 نے دیوبند مولوی کہا اور انتہا یہ ہو گئی
دی نیو انڈین ایکسپریس نے اسد قاسمی کی ذاتی رائے کو ‘دیوبند کا فتویٰ’ قرار دے دیا. اور دیکھتے ہی دیکھتے بھگوا پلیٹ فارموں کے علاوہ
لبرل اور پروگریسیو پورٹلوں پر بھی اس موضوع پر مضامین لکھے جانے لگے! ٹائمز ناؤ نے اپنے پروگرام میں اسد قاسمی کی ویڈیو بھی چلائی جس میں انہوں نے وہی بات دوہرائی جو اے بی پی نیوز نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا، مزید انہوں نے یہ بھی کہا کہ نصرت جہاں کی ذاتی زندگی میں ہم کوئی دخل اندازی نہیں کر سکتے! جب کہ معروف اخبار دی ہندو نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ مولانا اسد نے کہا کہ نصرت جہاں نے ایک غیر مسلم سے شادی کر کے اسلام کی توہین کی ہے ! دی ہندو نے اس دعوے کی کوئی دلیل بھی نہیں دی ہے.ہائپر لنک کے طور پر ویب سائٹ پر موجود ‘
islam‘ ٹیگ کی لنک لگائی ہے۔
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ دیوبند کی ویب سائٹ پر اس طرح کا کوئی فتویٰ نہیں ہے. ہم نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ نکاح اور شادیوں کے تعلق سے دار العلوم نے آخری فتویٰ
15مئی 2018 کو دیا تھا۔ الٹ نیوز نے جب دار العلوم دیوبند سے رابطہ قائم کیا تو وہاں کے سینئر آفیشل اشرف عثمانی نے بتایا کہ دار العلوم نے ایسا کوئی فتویٰ جاری نہیں کیا ہے۔میڈیا کسی بھی مولوی کی ذاتی رائے کو اٹھا لیتی ہے اور اس کو دار العلوم کے فتوے کے طور پر پیش کرنے لگتی ہے۔ اس طرح یہ واضح ہوتا ہے کہ کس طرح میڈیا نے غیر موجود چیز کو میڈیا میں شکل دی اور کچھ نیوز اداروں نے تو اس غیر موجود دستاویز کو اپنی رپورٹز میں نقل بھی کیا۔
ترنمول کانگریس کی ہی دوسری ایم پی مہوا مترا نے 25 جون کو لوک سبھا میں اپنی پہلی تقریر کی تھی جس میں انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے ملک کے موجودہ حالات کے تعلق سے کہا تھا کہ حکومت کو جو انتخابی اکثریت حاصل ہوئی ہے، وہ جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے کیوں کہ حکومت خود کو اس ملک کا مختار کل سمجھتی ہے، اس لئے اپوزیشن کا یہ فرض بنتا ہے کہ ملک کے حالات پر تبصرہ کیا جائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں اس حکومت کے صاحب اقتدار ہونے کے بعد فسطائی طاقتوں کو فروغ ملا ہے. اپنے دعوے کی دلیل میں انہوں نے 6 نکات کا ذکر کیا جس میں حکومت کا ملک کے میڈیا کو کنٹرول کرنا بھی شامل تھا۔اپنی تقریر کا اختتام مترا نے راحت اندوری کے شعر پر کیا:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے!
مترا کی اس تقریر کے بعد سوشل میڈیا میں دعوے کے گئے کہ مترا نے جن نکات کا تذکرہ اپنی تقریر میں کیا تھا، وہ دراصل ان کا اپنا مطالعہ نہیں ہے بلکہ انہوں نے وہ الفاظ اور دلائل دوسری جگہ سے چرائی ہیں۔
مکرند پرنجپے،
شوبھا ڈے،
وویک اگنی ہوتری جیسے لوگوں نے ایسا دعویٰ کیا۔ انہوں نے کہ مترا نے یہ نشانیاں مارٹن لانگ مین کے
مضمون سے چوری کی ہیں جو 31 جنوری 2017 کو واشنگٹن منتھلی نامی مجلہ میں شائع کیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا کے بعد زی نیوز کے ایڈیٹر سدھیر چودھری نے بھی اپنے پروگرام DNA میں اس بات کو دوہرایا۔
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ وویک اگنی ہوتری، شوبھا ڈے یا سدھیر چودھری کے دعوے غلط ہیں کیونکہ اپنی تقریر میں مترا نے کہیں نہیں کہا ہے کہ جو نکات وہ پیش کر رہیں تھی وہ انکا مطالعہ ہے۔اس کے برعکس ، مترا نے اپنی تقریر کے اختتام پر راحت اندوری کے شعر سے قبل ان نشانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ نکات ہالوکاسٹ میوزیم کے ایک پوسٹر میں موجود ہیں۔
مترا کے
دفاع میں مارٹن لانگ مین نے ٹوئٹ کیا کہ انہوں نے میرے مضمون سے کچھ نہیں چرایا ہے۔ یہ بہت مضحکہ خیز ہے، لیکن رائٹ ونگ والے بیوقوف لوگ ہر ملک میں موجود ہیں!
میڈیا کی اسی پیش قدمی کا ثبوت ہمیں اس وقت بھی ملا جب گزشتہ ہفتے میڈیا نے مالیاتی وزیر نرملا سیتا رمن کو منسوب کرتے ہوئے نوٹ بندی کے تعلق سے ان کا وہ بیان خبر کی سرخی کی شکل میں شائع کیا جو انہوں نے دیا ہی نہیں تھا!
ہندو بزنس لائن،
این ڈی ٹی وی ،
اسکرال جیسے ذمہ دار اداروں نے بھی اس طرح کی غلط رپورٹنگ کی۔ میڈیا میں دعویٰ کیا گیا کہ مالیاتی وزیر نرملا سیتا رمن نے راجیہ سبھا کے ایوان میں جواب دیا کہ نوٹ بندی کے بعد ملک کی معیشت پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں۔ جب این ڈی ٹی وی نے اس سرخی کے ساتھ اپنی خبر کو شائع کیا تو نرملا سیتا رمن نے از خود این ڈی ٹی وی سے جواب مانگا کہ آپ نے یہ سرخی کہاں سے بنا لی؟ یہ راجیہ سبھا میں دئے گئے میرے جواب سے تو بالکل نہیں ہیں۔
این ڈی ٹی وی نے جواب دیا کہ انہوں نے یہ سرخی پی ٹی آئی کی ویب سائٹ سے لی ہے۔ جب یہ معاملہ میڈیا کی نظر میں آیا تو سبھی نے اپنی خبروں کی سرخیاں تبدیل کر لیں ۔ الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ دگوجے سنگھ نے یہ سوال کیا تھا کہ کیا حکومت نے ایسا کوئی مطالعہ کیا یا کروایا ہے جس سے اس بات کا علم ہو جائے کہ نوٹ بندی کا ملک کی معیشت پر کیا اثر ہوا ہے؟ اس سوال کے جواب میں نرملا سیتا رمن نے واضح کیا کہ ایسا کوئی مطالعہ حکومت کی طرف سے نہیں کروایا گیا ہے ۔
(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)