فیک نیوز راؤنڈ اپ: یہ ایک اہم سوال ہے کہ امت شاہ نے جو اعداد پارلیامنٹ کے دونوں ایوان میں پیش کئے، اس کے ذرائع کیا تھے؟ان کی حکومت نے شہریت ترمیم بل پیش کرکے آئین ہند کی روح کو چاک کیا ہے اور جھوٹے اعداد کی بنا پر عوام کو گمراہ کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے اس بل کو منظوری دے کر مہاتما گاندھی، ڈاکٹر امبیڈکر، پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کو رسوا کیا ہے اورسو سالہ جنگ آزادی کی قدروں کو پامال کیا ہے۔
فوٹو: مہتاب عالم/ دی وائر
12 دسمبر کو صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے شہریت ترمیم بل پر دستخط کر دیے اور اس طرح یہ بل لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظور ہوکر اب قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ملک بھر میں اس قانون کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں اور اس آئین مخالف قانون کو ہندوستان کی سیکولر قدروں کو تباہ کرنے کی طرف ایک بڑا قدم بتایا جا رہا ہے۔ انڈین یونین مسلم لیگ اور ٹی ایم سی کی رکن پارلیامان مہوا مترا نے اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دی ہے۔ جس وقت یہ بل پارلیامنٹ میں پاس کیا جا رہا تھا اس وقت ہندوستان کے مختلف علاقوں میں عوام اس بل کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ آسام، میگھالیہ اور تریپورہ جیسے صوبوں کے علاوہ دہلی، علی گڑھ، سہارنپور اور حیدرآباد جیسے تقریباً
دو ہزار شہروں میں عوام نے اپنا احتجاج درج کیا۔ خصوصی طور پر صوبہ آسام میں عوامی احتجاج نے سخت صورت اختیار کر لی اور لوگ کرفیو کو توڑکر سڑکوں پر اتر ائے۔
جب آسام سے احتجاج کی خبریں میڈیا میں آرہی تھیں، اسی وقت سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو گردش میں تھا۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ پولیس کے کچھ سپاہی کسی شاہراہ پر عوام کو گولیاں مار رہے ہیں۔ فیس بک پر دعویٰ کیا گیا کہ ویڈیو آسام کاہے جہاں پولیس شہریت ترمیم بل کے خلاف احتجاج کرنے پر پولیس عوام کو اپنا سیدھا نشانہ بنا رہی ہے۔ ٹوئٹر پر بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا گیا:
آلٹ نیوز نی انکشاف کیا کہ دراصل یہ ویڈیو کافی پرانا ہے اور وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا میں وائرل ہوتا رہتا ہے۔ یہ ویڈیو جھارکھنڈ کا ہے ۔ یہ ویڈیو کھونٹی پولیس کی موک ڈرل کا ہے جہاں پولیس شہریوں کے سامنے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ پولیس کے پاس عوام کی حفاظت کے سارے انتظام ہیں اور کسی بھی مشکل وقت میں پولیس شہریوں کے ساتھ ہے۔ ویڈیو میں استعمال کی گئی گولیاں نقلی ہیں اور موک ڈرل کے دوران ہنسی اور قہقہوں کی آواز بھی سنی جا سکتی ہے۔ ویڈیو کے اخیر میں ایک اعلان بھی کیا گیا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ موک ڈرل کا ویڈیو ہے جس کا آسام اور شہریت ترمیم قانون کے خلاف ہونے والےاحتجاج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ویڈیو موک ڈرل کے نام سے بھی یو ٹیوب پر موجود ہے۔
دی وائر اردو پر ہم پہلے بھی اس پر تبصرہ کر چکے ہیں۔
اسی طرح ایک دوسرا ویڈیو بھی سوشل میڈیا میں عام کیا گیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ کچھ افراد تار کی باڑ کو پار کر کے زمین کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں داخل ہو رہے ہیں ۔ یہ ویڈیو سوشل میڈیا میں مختلف موقف کے ساتھ شئیر کیا گیا۔ ٹوئٹر کے ایک صارف نے وزیر داخلہ امت شاہ کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا :
موٹو بھائی امت شاہ جی، غیر قانونی طور پر گھس پیٹھ کرنے والوں کے خلاف ہمیں ہندوستان میں ایک عظیم دیوار کی ضرورت ہے۔ لہٰذا، این آر سی کو فوری طور پرنافذ کریں اور بارڈر کی سکیورٹی میں اضافہ کریں۔
مذکر حسین نامی دوسرے ٹوئٹر یوزر نے اپنا مختلف موقف پیش کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا:
لوک سبھا میں شہریت ترمیم بل پاس ہونے کے بعد تمام بنگلہ دیشی ہندو بنا اجازت کے ہندوستان میں داخل ہو رہے ہیں۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ ویڈیو بہت پرانا ہے اور یہ بھی وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر وائرل ہوتا رہتا ہے۔
اسی سال جنوری میں نیوز نیشن نے اسے اپنے چینل پر ‘ایکسکلو زو ‘ کہہ کر نشر کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ سب سے پہلے نیوز نیشن پر ہی نشر کی جا رہی ہے۔ آلٹ نیوز نے اس ویڈیو کو سافٹ ویئر کی مدد سے مختلف فریمز میں تقسیم کیا اور کچھ خاص فریمز کو گوگل میں ریورس امیج سرچ کیا۔ سرچ کے نتائج میں اس ویڈیو سے ملتا جلتا ویڈیوز حاصل ہوا جو ‘ملن میلہ’سے متعلق تھی۔ ملن میلہ بنگلہ دیش ہندوستان بارڈر پر سال میں دو دفعہ منعقد کیا جاتا ہے جس میں بارڈر کے دونوں جانب رہنے والے شہری اپنے رشتےداروں سے ملاقات کرتے ہیں۔
جب ملن میلہ لکھ کر یو ٹیوب میں سرچ کیا گیا تو ایک ویڈیو ہوبہو حاصل ہوا۔ یہ ویڈیو یو ٹیوب پر بسواجیت سرکار نامی اکاؤنٹ سے 20 مئی 2015 کو اپلوڈ کیا گیا تھا۔ ویڈیو کے ٹائٹل میں Aboidho Probes یعنی غیر قانونی داخلہ لکھا تھا۔ آلٹ نیوز نے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ اس حقیقت تک نہیں پہنچ پائےکہ اس ویڈیومیں لوگ باڑکےآرپارکیوں جارہےہیں۔ حالانکہ آلٹ نیوز نے یہ بالکل واضح کر دیا کہ اس ویڈیو کا شہریت ترمیم بل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فیک نیوز ویب سائٹ اوپ انڈیا نے 11دسمبر کو ایک رپورٹ شائع کی جس میں انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ کانگریس لیڈر کپل سبل نے پارلیامنٹ میں امبیڈکر کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ٹو نیشن تھیوری کی حمایت کی تھی۔ اس طرح سبل نے کانگریس کو کلین چٹ دے دی۔ اوپ انڈیا نے یہ مضمون فنانسنگ پورٹل منی کنٹرول کے ایک ٹوئٹ کو اساس بناکر شائع کیا تھا۔ منی کنٹرول نے کپل سبل کو منسوب کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا:
“میں اس بل کی مخالفت کرتا ہوں۔ ‘ٹو نیشن تھیوری’ کانگریس نے نہیں دی تھی۔ یہ ساورکر کی دین ہے اور امبیڈکر نے اس کی حمایت کی تھی۔ کانگریس متحدہ ملک میں یقین رکھتی ہے “
منی کنٹرول کے اس غلط ٹوئٹ کو بنیاد بناکر اوپ انڈیا کی مدیر
نوپر شرما نے بھی ٹوئٹ کیا کہ کپل سبل ملک کی تقسیم کے لئے امبیڈکر کو ذمہ دار مانتے ہیں اور کانگریس کو کلین چٹ دیتے ہیں۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ کپل سبل کو منی کنٹرول اور اوپ انڈیا نے منسوب کرتے ہوئے غلط ٹوئٹ کئے۔ پارلیامنٹ میں ان کے الفاظ کو اس ویڈیو میں سنا جا سکتا ہے:
کپل سبل نے پارلیامنٹ میں کہا تھا:
ٹو نیشن تھیوری کانگریس کی نہیں ہے، اگر آج آپ اس بل کو پاس کر دیتے ہیں تو آپ اس تھیوری کی تکمیل کر دیں گے۔ یہ دو ملکوں کا تصور ساورکر نے ایجاد کیا تھا اور انہوں نے جو کہا تھا میں اس کو یہاں دوہراتا ہوں، “ہندوستان میں دو متضاد قومیں رہتی ہیں۔ بہت سیاست داں ایسے ہیں جو ناسمجھ ہیں اور یہ مانتے ہیں کہ ہندوستان پہلے سے ہی ایک ہم آہنگ قوم کی شکل میں منظم ہے یا پھر اس کو اس طرح ہم آہنگی سے باندھا جا سکتا ہے۔ یہ باتیں بے معنی نہیں ہیں لیکن سوچ وچار نہ کرنے والے ہمارے دوست اپنے خوابوں کو ہی حقیقت تسلیم کر لیتے ہیں اس لئے جب کوئی فرقہ وارانہ فساد ہوتا ہے تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں اور پھر ان فسادات کا الزام فرقہ وارانہ تنظیموں پر رکھ دیتے ہیں۔”
کپل سبل آگے کہتے ہیں،
ٹو نیشن تھیوری ساورکر نے ایجاد کی تھی اور اس پر ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا، “یہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ جناح اور ساورکر کو ایک دوسرے کی مخالفت کرنی چاہیے لیکن یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل متفق نظر آتے ہے۔ افسوس!”
اس طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کپل سبل نے یہ نہیں کہا تھا کہ امبیڈکر نے ٹو نیشن تھیوری کی حمایت کی تھی۔ آلٹ نیوز کے انکشاف کے بعد اوپ انڈیا نے اپنے مضمون میں تبدیلیاں کر دی، اس کی یو آر ایل بھی بدل دی اور پہلے مضمون کے یو آر ایل کونئے مضمون کے یو آر ایل پر ری ڈائریکٹ کر دیا۔ جس سے پرانا مضمون دستیاب نہیں ہے۔ لیکن
آلٹ نیوز کے محفوظ کردہ
آرکائیو لنک پر وہ ابھی موجود ہے۔
دینک بھاسکر اخبار نے بھی اوپ انڈیا کی طرح یہی کیا جب انہوں نے کہا کہ کانگریس لیڈر جیوتیرادتیہ سندھیا نے شہریت ترمیم بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل آئین ہند کے خلاف ہے لیکن یہ بھارت کی تہذیب کے مطابق ہے اور اس لئے میں اس کی حمایت کرتا ہوں۔
ہندی اخبار امر اجالا نے بھی یہی شائع کیا:
سندھیا نے پھر کی بغاوت، دفعہ 370کے بعد شہریت بل کی حمایت کی۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ جو کچھ سندھیا نے میڈیا سے اپنے بیان میں کہا میڈیا بالکل اس کے الٹ مواد شائع کر رہا ہے۔دراصل سندھیا نے کہا تھا کہ یہ بل آئین کے خلاف تو ہے ہی، لیکن دوسروں کو اپنانے کی جو اس مٹی کی ہزاروں سال کی ہندوستانی تہذیب ہے ، جوکو ‘باسودھیو کٹمب’ کے نام سے معروف ہے، یہ بل اس کے بھی خلاف ہے۔ اس لئے اس بل کی مخالفت کرنا ضروری ہے۔
سندھیا نے اپنے ٹوئٹ میں بھی اسی بات کو لکھا:
بلا شبہ، میڈیا اس وقت سماج میں زہر گھول رہا ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں شہریت ترمیم بل پیش کرتے ہوئے کئی جھوٹے دعوے کیے جن میں ایک یہ تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں آزادی کے بعد سے اقلیتوں کی تعداد میں بڑی کمی آئی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ:
“1947میں پاکستان کے اندر اقلیتوں کی آبادی 23 فیصد تھی اور 2011 میں وہ گھٹ کر 3.7 فیصد ہو گئی۔ بنگلہ دیش میں 1947 میں اقلیتوں کی آبادی 22 فیصد تھی اور 2011 میں وہ کم ہو کر 7.8 فیصد ہو گئی۔ کہاں گئے یہ لوگ؟ یا تو ان کا مذہب تبدیل ہوا، یا وہ مار دئے گئے، یا بھگا دئے گئے یا بھارت آ گئے۔”
انڈیا ٹوڈے پر شائع ایک طویل مضمون میں مکیش راوت لکھا کہ
امت شاہ کے دعوے پختہ دلیلوں سے خارج ہیں اور مبنی بر جھوٹ ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ 1947 میں پاکستان کی آبادی کی صورت حال پر کوئی پختہ ڈیٹا موجود نہیں ہے، اور جب وزیر داخلہ ایوان میں اپنی بات رکھ رہے تھے تو انہوں نے بھی اپنے ذرائع کا حوالہ نہیں دیا۔ حالانکہ پاکستانی پارلیامنٹ کی سابق رکن فرح نازاسفہانی نے 2013میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں انہوں نے انھیں اعداد کو پیش کیا تھا جو امت شاہ نے ایوان میں ملک کے سامنے رکھیں۔ فرح ناز اسفہانی نے بھی اپنے ذرائع کو مخفی رکھا !
مکیش راوت لکھتے ہیں کہ آزادی سے پہلے پاکستان کی آبادی پر کچھ ڈیٹا 1941کی مردم شماری میں ملتا ہے لیکن وہ غیر متعلقہ ہے کیونکہ وہ متحد بھارت کا ڈیٹا ہے، پاکستان کا نہیں۔آزادی کے بعد پاکستان کی پہلی مردم شماری 1951میں ہوئی جس میں مغربی پاکستان (یعنی موجودہ پاکستان) اور مشرقی پاکستان (یعنی موجودہ بنگلہ دیش) کی آبادی شامل تھی۔ اس مردم شماری کے مطابق پاکستان میں غیر مسلموں کی مشترکہ آبادی 14.20فیصد تھی۔اہم نکتہ یہ ہے کہ مغربی پاکستان میں غیر مسلم آبادی وہاں کی کل آبادی کی 3.44 فیصدتھی جبکہ مشرقی پاکستان میں یہ اعداد23.20 فیصد تھے۔ مغربی پاکستان میں غیر مسلم آبادی آئندہ مردم شماری میں 2.83 (1961)، 3.25(1972)، 3.33 (1981) اور 3.7 (1998) تھی۔
ان اعداد سے جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ امت شاہ پارلیامنٹ میں اپنی مرضی کے مطابق بول کر ملک کو گمراہ کر کے چلے گئے۔ مغربی پاکستان کے متعلق امت شاہ کے دعوے مبنی بر جھوٹ تھے کیونکہ:
1- حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مغربی پاکستان میں غیر مسلم آبادی کبھی 23 فیصد نہیں رہی۔
2- مشرقی پاکستان کو ملاکر بھی وہاں کی غیر مسلم آبادی مشترکہ آبادی کی صرف 14.2 فیصد ہی رہی اور اس نے کبھی پندرہ فیصد کے دائرے کو پار نہیں کیا۔
3- آزادی کے وقت مغربی پاکستان میں غیر مسلم آبادی صرف 3.44 فیصد تھی۔
4- اب تک کی تمام مردم شماری کے اعداد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں غیر مسلم آبادی 3.5 فیصد کے ارد گرد ہی رہی ہے۔
بنگلہ دیش کے تعلق سے امت شاہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہاں غیر مسلم آبادی 1947 میں 22 فیصد تھی اور اب 7.8فیصد ہو گئی ہے۔امت شاہ کے یہ دعوے بھی بالکل غلط ہیں کیونکہ 1947 کے اعداد موجود نہیں ہیں اور 1951 مردم شماری کے مطابق وہاں غیر مسلم آبادی 23 فیصد تھی جو 2010 میں گھٹ کر 9.6 ہو گئی ہے۔ غیر مسلم آبادی کے موجودہ اعداد ابھی موجود نہیں ہیں۔
یہ ایک اہم سوال ہے کہ امت شاہ نے جو اعداد پارلیامنٹ کے دونوں ایوان میں رکھے، اس کے ذرائع کیا تھے؟۔ان کی حکومت نے شہریت ترمیم بل پیش کرکے آئین ہند کی روح کو چاک کیا ہے اور جھوٹے اعداد پر عوام کو گمراہ کیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند نے اس بل کو منظوری دے کر مہاتما گاندھی، ڈاکٹر امبیڈکر، پنڈت نہرو اور مولانا آزاد کو رسوا کیا ہے اور سو سالہ جنگ آزادی کی قدروں کو پامال کیا ہے۔
اپسالہ یونیورسٹی سویڈن میں پیس اسٹڈیز اور کانفلکٹ کے پروفیسر اشوک سوین نے 13دسمبر کو ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں انہوں نے یہ الزام لگایا کہ ہندوستانی مسلمان آج شہریت ترمیم بل تک احتجاج کے لئے منتظر رہے اور انہوں نے کبھی احتجاج نہیں کیا جب:
- ہندتوا گینگ نے ان کو بیف کے نام پر لنچ کیا
- ہندتوا گینگ نے ان کو لو جہاد کے نام پر پریشان کیا
- مودی نے تین طلاق قانون پاس کیا
- مودی نے کشمیریوں کو غلام بنایا
- عدالت نے بابری مسجد کی زمین رام مندر کو سپرد کر دی !!
پروفیسر اشوک کےاس ٹوئٹ پرلوگوں نے اعتراض کیا، رعنا صفوی نے لکھا کہ مسلمان کسی کو بھی اس کی کوئی وضاحت پیش کرنا واجب نہیں سمجھتے، بہتر ہے کہ اس ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا جائے۔
پروفیسر اشوک کا یہ ٹوئٹ ان کی کم علمی کو اجاگر کرتا ہے۔ پروفیسر اشوک نے جن معاملات کا ذکر اپنے ٹوئٹ میں کیا، ان سب پر ہندوستان کے مسلمانوں نے احتجاج کئے تھے جن کی کچھ سرخیاں یہاں ایک ٹوئٹر تھریڈ میں موجود ہیں۔ غور طلب ہے کہ ہندوستانی مسلمان صرف اپنے وطنی مسائل پر ہی کھڑے نہیں ہوئے ہیں، انہوں نے عالمی سطح پر ہوئے ظلم کی مذمت کی ہے، پیرس حملے پر عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے، دہشت گرد تنظیم ISIS کی مذمت کی ہے اور ان خبروں کو دی وائر سے لیکر الجزیرہ تک نے شائع کیا ہے۔
پروفیسر اشوک ہندوستان کے زمینی حقائق سے آگاہ نہیں ہیں اور کم علمی کے شکار معلوم ہوتے ہیں۔