فیک نیوز راؤنڈ اپ: گزشتہ ایک مہینے سے شہریت ترمیم قانون کے خلاف ملک بھر میں ہو رہے مظاہروں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب اور مکاتب کے افراد بھی شرکت کر رہے ہیں اور آئین مخالف اس قانون کو کسی بھی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر بھگوا ہنڈلوں کے ذریعے اس مہم کو توڑنے کی مکمل کوشش کی جا رہی ہے۔
گزشتہ 15 جنوری کو بی جے پی آئی ٹی سیل کے انچارج امت مالویہ نے ایک ٹوئٹ کیا تھا جس میں انہوں نے یہ الزام لگایا تھا کہ شاہین باغ میں شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین 500 روپے فی روز کی شرح پر یہ مظاہرے کر رہی ہیں۔ اس گمراہ کن ٹوئٹ کے جواب میں مظاہرین نے امت مالویہ کو ایک کروڑ روپے کا
ہتک عزت کا نوٹس بھیجا ہے۔امت مالویہ فیک نیوز عام کرنے والے ان لوگوں میں سب سے پہلے ہیں جنہوں نے شاہین باغ احتجاج کو بدنام کرنے کے لئے جھوٹ، فریب اور پروپیگنڈہ کا سہارا لیا۔ اور اس کے بعد شاہین باغ مظاہرے کو بدنام کرنے کا ایک سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
روہت سردانہ فین کلب نامی فیس بک پیج پر 18 جنوری کو ایک تصویر شئیر کی گئی جس میں دکھایا گیا تھا کہ کچھ خواتین احتجاج میں شرکت کر رہی ہیں اور ان کے پس منظر میں کسی دکان کے شٹر پر ایک پوسٹر لگا ہوا تھا جس پر لکھا تھا کہ شاہین باغ میں صبح 7 بجے سے رات 12 بجے تک کا فکس ریٹ 500 روپے ہے۔ اس تصویر کو متعدد صارفین نے سوشل میڈیا پر عام کیا۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ تصویر جھوٹی تھی اور یہ کہ اس کو فوٹو شاپ کی مدد سے تبدیل کیا گیا تھا۔آلٹ نیوز نے اس تصویر کو گوگل میں ریورس امیج سرچ کیا تو معلوم ہوا کہ اصل تصویر
دی اسٹیٹس مین اخبار کی رپورٹ سے لی گئی تھی جس کو مورف کیا گیا تھا۔ اصل تصویر میں لکھا تھا، “سی اے اے واپس لو، این آر سی واپس لو”۔ اس تصویر کو منی شرما نے اے ایف پی کے لئے شوٹ کیا تھا اور یہ
گیٹی امیجز میں بھی موجود ہے۔ لہٰذا، یہ واضح ہو جاتا ہے کہ 500 روپے فی روز کا دعویٰ کرنے والا پوسٹرجھوٹا تھا اور شاہین باغ احتجاج کو بدنام کرنے والے بڑے پروپیگنڈہ کا حصہ تھا۔
گزشتہ ایک مہینے سے شہریت ترمیم قانون کے خلاف ملک بھر میں ہو رہے مظاہروں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب اور مکاتب کے افراد بھی شرکت کر رہے ہیں اور آئین مخالف اس قانون کو کسی بھی قیمت پر قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر بھگوا ہنڈلوں کے ذریعے اس مہم کو توڑنے کی مکمل کوشش کی جا رہی ہے۔ ان ہنڈلوں کو علم ہے کہ ان تمام مظاہروں میں مسلم افراد، خاص طور پر مسلم خواتین، سب سے آگے ہیں، اس لئے ان کی کوشش ہے کہ پہلے مسلمانوں کو ہی بدنام کیا جائے اور اپنے اس مقصد کے تحت وہ کسی بھی موضوع پر کبھی بھی کچھ بھی عام کرنے لگتے ہیں۔
فیک نیوز کی دنیا میں مشہور نام اور پروپیگنڈہ ویب سائٹ پوسٹ کارڈ نیوز کے بانی مہیش وکرم ہیگڑے نے بھی ایسا ہی کیا۔ انہوں نے
19 جنوری کو ٹوئٹ کیا جس کا تعلق منگلور ائیرپورٹ پر بم کی موجودگی سے تھا۔ ہیگڑے نے لکھا؛
کچھ روز پہلے، جہادیوں نے منگلور شہر کو تقریباً آگ لگا دی تھی۔ اور اب منگلور ائیرپورٹ پر ایک بم دستیاب ہوا ہے۔ کچھ غداروں کی وجہ سے یہ جہادی طاقتور ہوتے جا رہے ہیں۔ جب پولیس ان جہادیوں کے خلاف کوئی قدم اٹھاتی ہے تو سیاسی لیڈر ان کے تحفظ میں آگے آجاتے ہیں۔ یہ شرمناک ہے۔
اسی طرح وشو ہندو پریشد کے لیڈر پرتیش وشوناتھ نے بھی مسلمانوں کو بدنام کرتے ہوئے لکھا؛
بنگلورے ائیرپورٹ پر ایک لاوارث بیگ میں بم دستیاب ہوا ہے۔ جہادی شہر میں داخل ہونے اور حملہ کرنے کی فراق میں ہیں۔ جہادیوں سے ہوشیار رہیں اور کسی بھی مشکوک شخص کی اطلاع پولیس کو دیں۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ ہیگڑے اور پرتیش جو کچھ اپنے ٹوئٹس میں لکھا وہ حقیقت کے برعکس تھا۔ غور طلب ہے کہ گزشتہ ہفتے منگلور ائیرپورٹ پر بم کی موجودگی کی خبر آئی تھی جس کے بعد پولیس نے تفتیش شروع کی۔ تفتیش میں آر ایس ایس کے رکن آدتیہ رائے کا نام مبینہ طور پر بم رکھنے والوں میں شامل ہے۔ 22 جنوری کو انگریزی اخبار
دی ہندو نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں یہ لکھا تھا کہ کرناٹک پولیس ائیرپورٹ پر بم رکھنے میں آدتیہ رائےکےرول پرتفتیش کررہی ہے۔اس رپورٹ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھاتھاکسی مسلمان کااس میں کیاکردارہے۔
مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ پروپیگنڈہ کی اسی فہرست میں ایک معاملہ اس وقت سامنے آیا جب سوشل میڈیا میں یہ عام کیا جانے لگا کہ انبالہ شہر کے جین بازار میں ایک ملا نے پانچ سالہ بچی کا ریپ کرنے کی کوشش کی جس سے وہاں کی خواتین نے اس کو ننگا کرکے گھمایا۔
ٹوئٹر اور فیس بک دونوں جگہ یہ ویڈیو کافی وائرل ہوا لیکن اس کے ساتھ فرقہ واریت پر مبنی جو دعویٰ کیا گیا تھا وہ بالکل جھوٹ تھا۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ معاملہ دراصل ایو تیزنگ کا تھا جس میں پون عرف سونو نام کے لڑکے نے یہ حرکت کی تھی۔ اس خبر کو انگریزی اخبار
دی ٹائمز آف انڈیا نے بھی رپورٹ کیا تھا۔ آلٹ نیوز نے مزید وضاحت کے لئے انبالہ پولیس اسٹیشن سے رابطہ قائم کیا۔ وہاں موجود سنیتا ڈھاکا نے آلٹ نیوز کو بتایا کہ انہوں نے ہی سونو نامی اس شخص کو گرفتار کیا تھا۔ سنیتا نے بالکل واضح کیا کہ اس معاملے میں کسی بھی مسلم شخص کا نام نہیں ہے اور پون عرف سونو پر POCSO کی دفعہ 12 اور انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 506 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ شواہد کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ انبالہ کے ویڈیو کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔
دایاں بازو کی مسلمانوں کے خلاف نفرت صرف یہیں تک محدود نہیں رہتی ہے بلکہ یہ نفرت ان کو اس بات سے بھی بیزار کر دیتی ہے کہ جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے ساتھ آزادی کی جنگ میں حصہ لینے والے مجاہد اور ہندوستانی ڈپلومیٹ کی تصویر کس ادب و احترام سے شئیر کی جائے!
ٹوئٹر پر ایک تصویر کو عام کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ نہرو اور اندرا کے ساتھ اس تصویر میں نہرو کا سمدھی اور اندرا کا سسر یونس خان ہے۔ سخی راجپوت نامی شخص نے فیس بک پر یہ تصویر شئیر کرتے ہوئے لکھا؛
یہ دیکھئے، بہت تلاش کرنے کے بعد یہ تصویر حاصل ہوئی ہے۔ تصویر میں بائیں جانب کھڑا شخص کوئی اور نہیں نہرو کا سمدھی اور اندرا کا سسر یونس خان ہے۔ اندرا کے شوہر فیروز خان کا باپ۔ سوچا کہ اس خالص برہمن کی زیارت آپ کو بھی کرا دوں۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ فیروز گاندھی کے والد کا نام یونس خان نہیں تھا بلکہ ان کا نام فریدون جہاں گیر گاندھی تھا۔ الٹ نیوز نے Yandex میں ریورس امیج سرچ کی تو وہاں یہ تصویر دستیاب ہوئی۔ اس تصویر میں اندرا گاندھی اور نہرو کے ساتھ روسی آرٹسٹ نکولس رارش Nicholas Roerich ہیں اور ان کے قریب میں محمد یونس کھڑے ہیں۔ غور طالب ہے کہ محمد یونس مجاہدین آزادی میں سے ہیں اور بعد میں وہ ہندوستان کے معروف ڈپلومیٹ ہوئے۔ یونس نہرو خاندان کے قرابت داروں میں سے تھے۔ یہ تصویر 1942 کی ہے جب نہرو اور اندرا گاندھی رارش اسٹیٹ گئے تھے۔
اس طرح یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر کیے گئے دعوے جھوٹے تھے۔