عام آدمی پارٹی کے باغی ایم ایل اے کپل مشرا نے اپنے ٹوئٹ اور فیس بک پوسٹ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ مندروں کے کنکشن کاٹ دیے گیے ہیں ۔
دہلی اسمبلی کے ایم ایل اے کپل مشرا نے 6 فروری کو ٹوئٹ کیا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے ہندوؤں سے اپنی نفرت کے سبب بڑا ظلم کیا ہے اور دہلی کے 350 سے زیادہ مندروں کے بجلی کنکشن منسوخ کر دیے ہیں۔ مبینہ طور پر مسلمانوں سے ان کی محبت اور ہندوؤں سے نفرت کی دلیل دیتے ہوئےعام آدمی پارٹی کے سابق رہنما کپل مشرا نے اپنے میں لکھا؛
کیجریوال نے مسجدوں کو 44000 روپے فی ماہ دینے کے اعلان کے بعد اب دہلی کے تمام مندروں کے بجلی کنکشن کاٹنے کا آرڈر۔
BSES نے دہلی میں 350 سے زیادہ بجلی کنکشن کاٹ دئیے ہیں۔
کیجری وال حکومت کا آرڈر-کٹیں گے سبھی مندروں کے کنکشن۔
کپل مشرا عام آدمی پارٹی کے سابق رکن اور باغی ایم ایل اے ہیں۔ اور کیجریوال کے سخت مخالف ہیں۔ کیجریوال سے ان کی سیاسی عداوت کا اندازہ ٹوئٹر پر ان کے بائیو سے لگایا جا سکتا ہیں جہاں انہوں نے لکھا ہے کہ؛ ملک اور کیجریوال میں سے ایک کو چننا تھا، میں نے اپنا ملک چنا !
کپل مشرا کے علاوہ بھی دوسرےصارفین نے اس طرح کے ٹوئٹ کئے اور فیس بک پر پوسٹ لکھے۔ کپل مشرا نے اپنے ٹوئٹ اور فیس بک پوسٹ میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ مندروں کے کنکشن کاٹ دئیے گیے ہیں لیکن
دوسرے صارفین نے لکھا کہ مندروں کے کنکشن مستقبل میں کاٹے جائیں گے۔
بوم لائیو نے انکشاف کیا کہ کپل مشرا اور دیگر صارفین کے دعوے جھوٹے تھے۔ بوم نے
بامبے سب اربن الکٹری سٹی سپلائی، دہلی یعنی BSES کے ٹوئٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وقت پر بل کی رقم ادا کرنے والے کسی بھی گراہک کا کنکشن نہیں کاٹا گیا ہے۔ مزید، بوم نے BSES Yamuna Power Ltd کے دفتر میں رابطہ قائم کیا تو وہاں ایکانش سری واستو نامی افسر نے بتایا کہ ہر مسجد اور مندر میں بجلی کے میٹر لگے ہوئے ہیں اور کہیں بھی کوئی کنکشن نہیں کاٹا گیا ہے۔
عام آدمی پارٹی کے سوشل میڈیا سیل سے بھی اس بات کی تصدیق بوم نے کی کہ کیا مندروں کی بجلی کاٹ دی گئی ہے؟ پارٹی کے سوشل میڈیا کارکن انکت لعل نے کہا کہ،ذرا بھی فہم رکھنے والا شخص اس بات پر یقین نہیں کرےگا۔ بےشک یہ خبر جھوٹی ہے اور افواہ ہے۔ کالکا جی مندر کے پجاری لوکیش بھاردواج سے جب بوم نے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بوم کو بتایا کہ،کوئی بھی کسی مندر کی بجلی کیسے کاٹ سکتا ہے، کس MLA نے ایسا ٹوئٹ کیا ہے، ضرور ہی ان کے خود کے مندر کی بجلی کاٹی گئی ہوگی کیونکہ انہوں نے وقت پر بل کی ادائیگی نہیں کی ہوگی’۔ جب کپل مشرا سے رابطہ کیا گیا تو ان کے دفتر سے جواب ملا کہ وہ ایک میٹنگ میں تھے۔
لہٰذا، یہ مکمل طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ مندروں میں بجلی کاٹنے کی خبر جھوٹی تھی۔
بالی ووڈ ایکٹر پرکاش راج معروف صحافی گوری لنکیش کے قتل کے بعد میڈیا کی سرخیوں میں رہے تھے، انہوں نے گوری لنکیش کے قاتلوں کے تعلق سے بھگوا فکر کو اپنے بیانات میں کافی نشانہ بنایا تھا اور وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکز میں ان کی ‘مودی سرکار’ کو بھی نہیں بخشا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ فیس بک اور ٹوئٹر پر بھگوا ٹرولس کی آنکھوں کی کرکری بن گئے۔ سوشل میڈیا میں وقتاً فوقتاً ان کے خلاف نفرت عام کی جاتی ہے، ان کے نام سے جھوٹے بیان منسوب کئے جاتے ہیں اور ان کو ملک اور ہندو مذہب کا دشمن بتایا جاتا ہے۔
اسی انداز میں گزشتہ ہفتے بھی پرکاش راج کی ایک تصویر وائرل کی گئی جس میں وہ ایک گرجاگھر میں کھڑے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ ٹوئٹر پر
نشانت آزاد نامی شخص نے ان کی تصویریں اپلوڈ کرتے ہوئے لکھا کہ؛
خود کو غیر مذہبی کہنے والے پرکاش راج نے کچھ روز پہلے کہا تھا کہ ایپا کوئی دیوتا نہیں ہیں۔ ان کی طرح بیوقوف لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کسی مذہب کو نہیں مانتے تا کہ وہ ہندو مذہب اور اس کے دیوی-دیوتاؤں کوخوب گالیاں دے سکیں !
بوم لائیو نے اپنی
تفتیش میں پایا کہ پرکاش راج کی یہ تصویریں سیاحت کے برعکس تھیں۔ دراصل وہ گرجاگھر ضرور تشریف لے گئے تھے لیکن یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ وہ صرف گرجا گھر ہی نہیں گئے تھے! 5 فروری کو انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر کچھ
تصویریں عام کی تھیں جس میں انہوں نے دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں پر اپنی حاضری درج کرائی تھی۔انہوں نے واضح کیا تھا کہ عوام سے تعلقات بڑھانے اور تمام عقائد کے نعمتوں کو حاصل کرنے کے لئے وہ ایسا کر رہے ہیں۔ اپنی اس مہم میں پرکاش صرف گرجاگھر یا درگاہ نہیں گئے تھے بلکہ انہوں نے مندر اور گرودوارے پر بھی حاضری دی تھی۔ اس طرح یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ پرکاش راج کے خلاف یہ محض ایک پروپیگنڈا تھا جس کو بھگوا فکر کے ٹرولس ہوا دے رہے تھے۔
شاردا چٹ فنڈ معاملے کے بعد جب CBI کی ٹیم بنگال گئی تھی تو بنگال پولیس نے CBI کی ٹیم کو گرفتار کر لیا جس کے بعد سیاسی حلقوں میں ہنگامہ ہوا۔ اسی دوران پرائم منسٹر نریندر مودی نے کولکاتا میں ایک ریلی میں عوام سے خطاب بھی کیا۔ ان کی کچھ
تصویریں سوشل میڈیا میں وائرل کی گئیں۔ ان تصویروں بہت کثیر تعداد میں عوام مودی کو سن رہی ہے اور لوگوں کا سیلاب وہاں موجود ہے۔
الٹ نیوز نے ان تصویروں کی تفتیش کی اور یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہ تصویریں 2019 کی نہیں ہیں بلکہ یہ مودی کی پرانی ریلیوں کی تصویریں ہے اور تقریباً 4 سال پرانی ہیں۔
تصویر 1:یہ تصویر 2014 کی ہے اور نریندر مودی کی
ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تصویر چار سال سے بھی زیادہ پرانی ہے۔
تصویر 2: یہ تصویر نریندر مودی کی 2014 ریلی کی ہے جو بنگلور میں ہوئی تھی۔اس تصویر کو
BJP Karnataka کے فیس بک پیج پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر 3: یہ تیسری تصویر کولکاتا کی ایک ریلی کی ہے جو 2013میں منعقدکی گئی تھی اوراس میں بہت زیادہ بھیڑجمع تھی۔
سب سے پہلے یہ تصویریں
نریندر مودی فار پی ایم نامی پیج پر عام کی گئیں تھیں۔ جس کا بانی روہت گنگوال نامی شخص ہے۔ یہ شخص BJP کے اعلیٰ لیڈران کے بہت قریبی ہے۔
5 فروری کو راہل گاندھی نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ایک ویڈیو شئیر کی تھی جس میں وہ ملک بھر کے کچھ طلبا کے ساتھ ایک ڈائننگ ٹیبل پر کھانا کھا رہے ہیں اور اس دوران ملک کے حالات اور سیاست پر گفتگو بھی کر رہے ہیں۔
گفتگو کے دوران راہل گاندھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوستان میں نوجوانوں کے لئے نوکریوں کا فقدان ہے۔انہوں نے کہا کہ چین ایک دن میں 50000 نوکریاں پیدا کرتا ہے جب کہ ہندوستان صرف450 نوکریاں پیدا کرتا ہے۔
راہل گاندھی نے اپنے دعوے کے ساتھ اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا کہ یہ ڈیٹا کس دورانیہ کا ہے! بوم لائیو نے انکشاف کیا کہ راہل گاندھی کی مکمل طور پر درست نہیں ہے۔ جب کہ چین کے تعلق سے ان کا دعویٰ حقیقت کے بہت قریب ہے لیکن ہندوستان میں نوکریوں کو لیکر ان کے دعوے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔
بوم نے بتایا کہ چین کی Ministry of Human Resources&Social Security کے مطابق سال 2017 میں 135لاکھ نوکریاں پیدا کی گئیں تھی، جو ایک دن کے حساب سے تقریباً 37000 کے برابر ہوتی ہیں۔ سال 2018 کے پہلے 6 ماہ میں 75 لاکھ نوکریاں پیدا کی گئیں تھی، یعنی ایک دن میں تقریباً 41۔5 ہزار نوکریاں !
اس کے برعکس، ہندوستان میں نوکریوں کا کوئی پختہ ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے راہل گاندھی کے دعوے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ EPFO Data پر جو اعداد موجود ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ راہل گاندھی کے دعوے حقیقت کے خلاف ہے۔
The post
پرکاش راج اور نریندرمودی کی تصویریں اور راہل گاندھی کے دعوے کا سچ appeared first on
The Wire - Urdu.