روبیکا اپنے پروگرام کے درمیان کئی مرتبہ وہ بی جے پی یا ان کے لیڈروں کی حمایت کرتی ہوئی نظر آئیں۔
ملک کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر گزشتہ ہفتے یہ چرچہ عام رہی کہ 2008 مالیگاؤں بلاسٹ کی ایک ملزم سادھوی پرگیہ ٹھاکر عام انتخابات میں بھوپال سے اپنی امیدواری پیش کر رہی ہیں اور لوک سبھا کا الیکشن لڑنے جا رہی ہیں۔ جب یہ خبر عام ہوئی تو سوشل میڈیا پر موجود عوام کے ایک بڑے حصے نے اس کی مذمت کی اور کہا کہ دہشت گردانہ حملے کی ملزم کو انتخابات میں بطور امیدوار اجازت دینا انسانی اصولوں کی پامالی کے برابر ہے۔بالی ووڈ فنکارہ
سورا بھاسکر نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں لکھا کہ؛
پارلیامنٹ امیدواروں کی ہماری روشن فہرست میں حالیہ اضافہ؛ایک ممکنہ دہشت گرد .. مالیگاؤں دھماکوں کی ملزمہ .. سادھوی پرگیہ..
سورا بھاسکر کے اس ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کرتے ہوئے نیوز 18 کے صحافی امیش دیوگن نے دعویٰ کیا کہ سادھوی پرگیہ کو عدالت نے بری کر دیا ہے۔امیش دیوگن کا یہ
ٹوئٹ عبارتی اور انگریزی قواعد کی خامیوں سے لبریز تھا اور غالباً اسی وجہ سے انہوں نے اپنے ٹوئٹ کے آدھے حصے کو ہندی میں بھی لکھا تھا۔امیش کی خواہش رہی ہوگی کہ کسی بھی طرح وہ اس بات کو صارفین تک پہنچا دیں جو ان کے مطابق سچ تھی۔ لیکن ان کی سچ بات کتنی سچی تھی اس بات کا انکشاف
الٹ نیوز نے کیا؛
ثبوتوں اور دلائل کی بنا پر کسی ملزم کا جرم میں شریک ہونا نہ پایا جانااور اس کا حقیقتاًبے گناہ ہونا، دو مختلف چیزیں ہیں. نچلی عدالت میں پیش کی گئی دلیلوں اور ثبوتوں کی بنا پر اگر یہ فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ ملزم جرم میں شریک نہیں تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملزم بے قصور ثابت ہوا، لہٰذا اس کو جرم سے بری کیا گیا! ہندوستانی عدلیہ کے نظام کے مطابق جب کسی نچلی عدالت میں کوئی فیصلہ سنایا جاتا ہے تو مقدمے کی دونوں پارٹیوں کو حق ہوتا ہے کہ وہ اعلیٰ عدالت میں جائیں اور مقدمے کی شنوائی کرائیں۔اعلیٰ عدالت میں جب از سرنو معاملے کو دیکھا جاتا ہے اور عدالت کی بڑی بنچ اس پر غور و فکر کرتی ہے تو دو طرح کے معاملات ہو سکتے ہیں۔ایک تو یہ کہ اعلیٰ عدالت نچلی عدالت کی تائید کرتے ہوئے فیصلہ سنائےکہ ملزم پرلگائےگئےالزام بےبنیادہیں۔ اس معاملے میں اعلیٰ عدالت کافیصلہ ملزم کی برأت کافیصلہ ہوگا۔دوسری طرف، اگر اعلیٰ عدالت نچلی عدالت کے فیصلے کو رد کرتی ہے تو یہ اس طرف اشارہ ہوگا کہ نچلی عدالت میں دلائل اور ثبوتوں کی واجب تشریح نہیں کی گئی۔
آلٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ سادھوی پرگیہ کا معاملہ یہ ہے کہ ان کو کسی عدالت نے بری نہیں کیا ہے بلکہ سادھوی کو بامبے ہائی کورٹ نے ضمانت پر رہا کیا ہے. بامبے ہائی کورٹ کے
بیل آرڈر میں کہا گیا ہے کہ پرگیہ ٹھاکر ‘بریسٹ کینسر’ کی مریض ہیں اور وہ سپورٹ کے بغیر اٹھ بیٹھ نہیں سکتی ہیں۔
لہٰذا، امیش دیوگن کے ٹوئٹ کی حقیقت یہ ہے کہ سادھوی پرگیہ کو برأت نہیں، ضمانت پر رہا کیا گیا ہے جس کی وجہ ان کی بیماری ہے، بے گناہی نہیں۔
سابق وزیر تعلیم اسمرتی ایرانی کی ڈگری کی پہیلی اس وقت سلجھ گئی جب موجودہ عام انتخابات کے لئے انہوں نے پرچہ داخل کیا اور اس میں واضح طور پر یہ لکھا کہ وہ دہلی یونیورسٹی کے ادارہ برائے فاصلاتی تعلیم سے بی کام کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں لیکن ان کی ڈگری مکمل نہیں ہو پائی۔
محترمہ ایرانی جس حقیقت کو تسلیم کر چکی تھیں، اور جس کو تمام ملک جانتا تھا اس حقیقت سے اے بی پی نیوز کی صحافی روبیکا لیاقت یا تو روبرو نہیں تھیں یا پھر دانستہ طور پر حقیقت کو چھپا رہی تھیں۔ روبیکا اے بی پی نیوز کے لئے آج کل ‘سیدھا سوال’ نامی شو ہوسٹ کر رہی ہیں۔اس شو میں روبیکا ملک کسی انتخابی حلقےمیں جاتی ہیں اور وہاں ان کی موجودگی میں وہاں کی مقامی عوام اپنے مقامی سیاستدانوں سے سوال پوچھتے ہیں، جو ‘سیدھا سوال’ ہوتا ہے یعنی عوام براہ راست اپنے لیڈروں سے مخاطب ہوتی ہے۔
روبیکا اسی طرح کا ایک پروگرام بہار کے دربھنگہ میں ہوسٹ کر رہی تھیں جہاں انہوں نے اپنے پروگرام کی شروعات بھی اس جملے سے کی کہ بہار کے اس علاقے متھلا نچل کے لوگوں کی زبان شکر سے بھی زیادہ میٹھی ہے! پروگرام کے درمیان کئی مرتبہ وہ بی جے پی یا ان کے لیڈروں کی حمایت کرتی ہوئی نظر آئیں۔لیکن پروگرام کے اختتام پر روبیکا نے
38:16 پر وہ کیا جس کی غیر جانبدار صحافی سے امید نہیں کی جا سکتی ہے۔
جب عوام میں سے کسی شخص نے مقامی بی جے پی لیڈر کو مخاطب ہوکر کہا کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ لالو پرساد یادو درجہ 9 تک ہی پاس ہیں لیکن آپ اپنی منسٹر اسمرتی ایرانی کی ڈگری کے بارے میں نہیں بتاتے ہیں! اس شخص کا ‘سیدھا سوال’ اس کے لیڈر سے تھا لیکن سوال کا جواب روبیکا نے دیا۔انہوں نے کہا کہ اسمرتی ایرانی ایم اے پاس ہیں !
اسمرتی ایرانی نے
2014 اور
2019 کے انتخابات کی امیدواری کے لئے جو پرچے داخل کئے تھے ان دونوں میں ہی’بی کام پارٹ ون’ درج کیا تھا لیکن اس برس انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ ان کا ‘بی کام’کبھی مکمل ہی نہیں ہو پایا!
نیوز 18 نے اس خبر کو اپنے پورٹل پر 11 اپریل کو شائع کیا۔ اور روبیکا کا یہ شو 16 اپریل کو یو ٹیوب پر شائع ہوا۔
روبیکا لیاقت نے جو کیا وہ غیر جانبدارانہ صحافت کے برعکس تھا۔جب عوام کا سوال براہ راست ان کے لیڈر سے ہے تو صحافی اس کے درمیان کیوں آ رہا ہے؟ مزید یہ کہ جب روبیکا اسمرتی ایرانی کی وکالت کر رہی تھیں تو وہ عوام کو گمراہ کیوں کر رہی تھیں؟ کیا جھوٹ کی وکالت جھوٹ سے کرنا واجب ہے؟
سرشٹی راج چوہان نامی شخص نے اپنے فیس بک پروفائل پر ایک ویڈیو شئیر کرتے ہوئے لکھا؛
اسے کہتے ہیں فارم بھرنے جانا، دیکھ لو چمچوں شیر کی چال۔
اس ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ سڑک پر بڑے ہجوم کے بیچ نریندر مودی بی جے پی صدر امت شاہ کے ساتھ اس گاڑی کے پیچھے چل رہے ہیں جو پھولوں سے سجی ہوئی ہے۔ اس ویڈیو کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ ویڈیو عام انتخابات میں پرچہ داخل کرنے جاتے نریندر مودی کا ہے جو ایک شیر کی طرح چل رہے ہیں!سرشٹی راج چوہان کے علاوہ اس ویڈیو کو دوسرے صفحات اور پروفائلز پر بھی شئیر کیا گیا۔
اس ویڈیو کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ویڈیو سابق پرائم منسٹر اٹل بہاری واجپائی کے آخری سفر کا ویڈیو ہے جہاں ان کے جسم کو ہندو رسم ورواج کے مطابق شمشان لے جایا جا رہا ہے۔مودی جس گاڑی کے پیچھے چلتے ہوئے نظر آ رہے ہیں اس کو پھولوں سے سجاکر ارتھی کی شکل دی گئی ہے۔واجپائی کا یہ سفر اس لئے عظیم معلوم دیتا ہے کیوں کہ ان کا آخری سفر ‘اسٹیٹ فیونرل’ تھا جس میں حکومت نے بڑے انتظامات کیے تھے۔نریندر مودی نے عام انتخابات کے لئے ابھی پرچہ داخل نہیں کیا ہے۔وہ 26 اپریل کو بنارس سے پرچہ داخل کریں گے۔
لہذا یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ ویڈیو ‘مودی کی دلیری’ کی نہیں ہے، بلکہ واجپائی کی ارتھی کی ہے۔ارتھی کی اصل ویڈیو؛
عام انتخابات کے اس دور میں ایک جانب صحافی دانستہ طور پر جھوٹ بول رہے ہیں تو دوسری طرف جھوٹے ٹوئٹ اور فیس بک پوسٹس کو ان کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے۔معروف صحافی برکھا دت کو منسوب کرتے ہوئے ایک ٹوئٹ کی تصویر گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کو بھگوا فکر کے صارفین نے شئیر کیا۔ تصویر میں برکھا کے ٹوئٹ کے جواب میں مختار عباس نقوی کا بھی کمینٹ ٹوئٹ تھا۔ تصویر کے مطابق برکھا نے دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی مسلم مخالف ہے جس نے مسلمانوں کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا۔
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ ٹوئٹ جھوٹا تھا جس کو کسی سافٹ ویئر سے تشکیل کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ برکھا کے ٹوئٹ کے جواب میں جو کمینٹ مختار عباس نقوی نے کیا تھا وہ کافی طویل ہے جب کہ ٹوئٹ میں صرف 280 حروف لکھنے کی اجازت ہے۔
برکھا دت نے خود بھی اس ٹوئٹ کو
فرضی قرار دیا۔
(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)