دی گارڈین نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ فیس بک نے مبینہ طور پر فرضی اکاؤنٹ کے ذریعے بی جے پی ایم پی کی مقبولیت کو بڑھنے دیا، جبکہ مہینوں پہلے اس کے بارے میں ایک ملازم نے کمپنی کو واقف کرا دیا گیا تھا۔
نئی دہلی: فیس بک نے ہندوستان میں فرضی اکاؤنٹ کو ہٹانے کامنصوبہ بنایا تھا، لیکن جیسے ہی اسے پتہ چلا کہ اس میں ایک بی جے پی ایم پی کا بھی نام ہے تو انہوں نے اپنے قدم پیچھے کھینچ لیے۔
دی گارڈین نے اپنی ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے۔
اخبار کے مطابق،کمپنی نے مبینہ طور پر فیک اکاؤنٹ کے ذریعے ایک بی جے پی ایم پی کی مقبولیت کو بڑھنے دیا، جبکہ مہینوں پہلے اس کے بارے میں ایک ملازم نے ادارے کوواقف کرا دیا تھا۔ حالانکہ گارڈین نے اس بی جے پی رہنما کا نام نہیں بتایا ہے۔
انہوں نے انٹرنل کارپوریٹ دستاویزوں، وہسلبلوئر بنے سابق فیس بک ملازم کا بیان، فیک اکاؤنٹ ہٹانے کے سلسلےمیں کمپنی کے ذریعے تیار کیے گئے نوٹس کی بنیادپر یہ دعوے کیے ہیں۔میڈیا رپورٹ میں کہا گیا،‘کمپنی فرضی اکاؤنٹس ہٹانے کامنصوبہ بنا رہی تھی، لیکن جیسے ہی انہیں پتہ چلا کہ اس نیٹ ورک میں ایک رہنما شامل ہیں، انہوں نے قدم پیچھے کھینچ لیے۔’
جبکہ فیس بک نے اس طرح کے دیگر نیٹ ورک کےخلاف فوراً کارروائی کی،جس میں سے ایک کانگریس پارٹی کے ممبروں کی مقبولیت کو بڑھانے والا گروپ بھی شامل ہے۔ حالانکہ فیس بک نے ان الزامات سے انکار کیا ہے۔
دی گارڈین کے مطابق اس طرح کے فیک اکاؤنٹ نیٹ ورک کا انکشاف پہلی بار سوفی جینگ نے کیا تھا جو کہ فیس بک کی سابق ڈیٹا سائنٹسٹ ہیں اور پچھلے کچھ مہینوں سے کمپنی کی کمیوں/بے ضابطگیوں کا
انکشاف کر رہی ہیں۔
جینگ کو پہلی باردسمبر 2019 میں ایسے چار مشتبہ نیٹ ورک کا پتہ چلتا تھا، جو ہندوستان کے بڑے رہنماؤں کے پیج پر فرضی مقبولیت (لائکس، شیئر، کمینٹس اینڈ ری ایکشن)دکھا رہے تھے۔ اس میں سے دو بی جے پی اور دو کانگریس سے وابستہ تھے۔
جب جینگ نے اس کے بارے میں بتایا تو فیس بک نے جانچ شروع کی اور پایا کہ یہ اکاؤنٹ فرضی ہیں۔ اس کے بعد جانچ کرنے والوں نے ان اکاؤنٹس کو لاک کرنے کی سفارش کی اور کہا کہ اگر اس میں سے کوئی مناسب سندمہیا کراتا ہے تو اسے پھر سے شروع کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دسمبر 2019 میں ایک فیس بک اسٹاف کو یہ کام سونپا گیا اور انہوں نے پہلے تین نیٹ ورک کے 500 سے زیادہ اکاؤنٹ کو لاک کر دیا، لیکن اگلے دن جب وہ چوتھے نیٹ ورک کے تقریباً50 اکاؤنٹ کو بند کرنے کی تیاری کر رہے تھے، تبھی ان کی نظر اس اکاؤنٹ پر گئی جس کی وجہ سے انہوں نے کام روک دیا اور اوپر کے لوگوں سے صلاح لینی چاہی۔
ملازم نے فیس بک کے ٹاسک مینجمنٹ سسٹم میں مبینہ طور پر لکھا،‘بس یہ کنفرم کرنا چاہتا تھا کہ کیا ہم ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟’ انہوں نے کہا کہ سسٹم میں ایک اکاؤنٹ کے بارے میں ‘گور نمنٹ پارٹنر’اور‘ہائی پرایورٹی انڈین’ لکھا ہے۔
میڈیا رپورٹ میں کہا گیا،‘جینگ کو پتہ چل گیا کہ یہ ایم پی کااپنا اکاؤنٹ تھا اور ایسے نیٹ ورک میں ان کا نام ہونا اس بات کا پختہ ثبوت تھا کہ یا تو وہ یا کوئی اور ان کا فیس بک اکاؤنٹ استعمال کر کےیہ50 فرضی اکاؤنٹ چلا رہا تھا۔’
اس سلسلےمیں جینگ نے فروری، 2020 میں خط لکھ کر مانگ کی کہ کسی بھی طرح کی جانبداری سے بچنے کے لیے ہمیں ان اکاؤنٹس کو بند کرنے پر آگے بڑھنا چاہیے۔ حالانکہ مبینہ طور پر انہیں اس کا جواب نہیں ملا۔اس کے بعد اگست میں انہوں نے ایک اور خط لکھا، جس میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس معاملے کو ترجیح میں رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی جا رہی ہے۔ حالانکہ اس کا بھی انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔
بعد میں ملازم نے کمپنی سے استعفیٰ دے دیا اور ستمبر 2020 میں چھوڑنے سے پہلے انہوں نے ایک آخری بار اس جانب دھیان دلایا کہ ‘ایم پی سے وابستہ اکاؤنٹس کا نیٹ ورک ابھی چل ہی رہا ہے۔’
اس کے علاوہ میڈیا رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہاں کمپنی ایک بی جے پی ایم پی سے وابستہ فیک اکاؤنٹس کے نیٹ ورک کو بند نہیں کر رہی تھی، وہیں کانگریس پارٹی کے ممبروں کے اشتہار سے وابستہ دو میں سے ایک نیٹ ورک کے خلاف کمپنی نے باربار کارروائی کی۔
دی گارڈین کے ذریعےرابطہ کیے جانے پر فیس بک نے ان الزامات سے انکار کیا اور کہا کہ دسمبر 2019 اور 2020 کے شروعات میں‘بڑی تعداد’ میں اکاؤنٹس کو بلاک کیا گیا تھا۔دی وائر کی جانب سے بھیجے گئے سوالوں کے جواب میں فیس بک ترجمان نے کہا کہ فرضی اکاؤنٹس ہٹانے کو لےکر کمپنی جینگ کے دعووں سے متفق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ‘کمپنی کی ایسی امیج مشتہر کرنے کے لیے ہم جینگ سے کلی طور پر متفق نہیں ہیں۔ ہم دنیا بھر کے فرضی اکاؤنٹ کے خلاف کارروائی کرتے ہیں اور اس کے لیے پوری ٹیم بنائی گئی ہے۔’کمپنی نے دعویٰ کیا کہ ان کی ٹیم نے پچھلے کچھ سالوں میں ایسے کئی معاملوں کی جانچ کی ہے اور انہوں نے ہندوستانی اکاؤنٹ کو ہٹانے کو لےکرعوامی طو رپر بتایا ہے۔
فیس بک نے کہا کہ وہ اپنے ضابطوں کے مطابق ا سپیم اور فرضی لائیک، شیئر وغیرہ کا پتہ لگاتے ہیں اور اس کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔
(اس خبر کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے)