حال ہی میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے گجرات میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے 2002 کے فسادات کے سلسلے میں تبصرہ کیا تھا کہ بی جے پی نے فرقہ وارانہ تشدد میں شامل لوگوں کو سبق سکھایا تھا۔ سابق بیوروکریٹس اور حقوق کے کارکنوں نے اسے ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
امت شاہ۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: ممتاز شہریوں اور حقوق کے کارکنوں نے الیکشن کمیشن سے اپیل کی ہے کہ وہ گجرات میں ایک انتخابی ریلی کے دوران مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے حالیہ بیان پر کارروائی کرے۔
مذکورہ بیان میں، شاہ نے
کہا تھا کہ کس طرح فسادیوں کو 2002 میں ‘سبق سکھایا گیا’ اور تب سے اب تک بی جے پی نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ (گجرات میں) امن و امان قائم ر ہے۔
ان کے اس بیان کو ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن سے اس طرح کے ‘فرقہ وارانہ بیان’ کی اجازت نہیں دینے کی اپیل کرتے ہوئےانہوں نے معاملے کی تحقیقات اور ضروری سزا دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
شاہ کا بیان انتہائی قابل اعتراض اور بدامنی پیدا کرنے کی کوشش ہے
کارکنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ بیان تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153اےکی خلاف ورزی ہے، جو ‘مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے سے متعلق ہے’اور اس پر عوامی نمائندگی ایکٹ1951 کی دفعہ 8 بھی لاگو ہوتی ہے، جو 153اے سمیت آئی پی سی کی مختلف دفعات میں قصوروار پائے جانے پر نااہل قرار دیتی ہے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت ہند کے سابق سکریٹری ای اے ایس شرما نے 26 نومبر کو چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار اور الیکشن کمشنر اے سی پانڈے اور اے کے گوئل کو لکھے ایک خط میں سب سے پہلے گجرات کے کھیڑا ضلع کے مہودھا میں ایک ریلی کے دوران شاہ کے ‘انتہائی قابل اعتراض بیان’ کا مسئلہ اٹھایا۔
شاہ نے کہا تھا، گجرات میں کانگریس کے دور میں اکثر فرقہ وارانہ فسادات ہوتے تھے۔ کانگریس مختلف برادریوں اور کمیونٹی کےلوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتی تھی۔ کانگریس نے اس طرح کے فسادات کے ذریعے اپنا ووٹ بینک مضبوط کیا اور سماج کے ایک بڑے طبقے کے ساتھ ناانصافی کی۔
انہوں نے مزید کہا، لیکن 2002 میں سبق سکھانے کے بعد ایسے عناصر نے وہ راستہ چھوڑ دیا۔ وہ لوگ 2002 سے 2022 تک تشدد سے دور رہے۔ بی جے پی نے فرقہ وارانہ تشدد میں شامل افراد کے خلاف سخت کارروائی کرکے گجرات میں دیرپا امن قائم کیا ہے۔
‘سبق سکھایا’ کا مطلب ہے کہ لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے
شرما نے کہا کہ شاہ کے 25 نومبر کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے حکام کے علاوہ سیاسی پارٹیوں اور لوگوں کے بعض طبقات نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ‘دوسروں کو سبق سکھایا’۔
سال 2002 میں گودھرا میں ٹرین میں آگ لگنے کے واقعے میں تقریباً 59 ہندو ترتھ یاتری اور کار سیوک مارے گئے تھے۔اس کے بعد ریاست میں مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد ہوا تھا۔
سابق بیوروکریٹ نے کہا کہ اگر شاہ نے واقعی یہ بیان دیا ہے، تو یہ ‘ماڈل ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے’، خاص طور پر اس شق کے حوالے سے جس میں کہا گیا ہے کہ ‘ووٹ حاصل کرنے کے لیے ذات پات یا فرقہ وارانہ جذبات کی کوئی اپیل’ نہیں ہوگی۔
انہوں نے الیکشن کمیشن سے اس بیان کو اس تناظرمیں دیکھنے کو کہا کہ مرکزی وزارت داخلہ نے بلقیس بانو کیس میں ریپ کے 11 مجرموں کو رہا کرنے کی منظوری دی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ کیس 2002 میں گودھرا کے بدنام زمانہ واقعات سے براہ راست جڑا ہوا تھا، جس نے ملک کے ضمیر کو ہلا کر رکھ دینے والے ایک شرمناک سلسلہ کو جنم دیا ۔
شرما نے الیکشن کمیشن کو یاد دلایا کہ وہ آرٹیکل 324 کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا نگہبان ہے اور اس لیے اپیل کی ہے کہ وہ شاہ کے بیان کی سچائی کا پتہ لگانے کے لیے فوری طور پر میٹنگ منعقد کرے، وضاحت طلب کرے اور پھر اگر ضروری ہو تو فوری طور پر تعزیری کارروائی کرے۔
یہ کہتے ہوئے کہ بیان نے پہلے ہی گجرات کے انتخابات کو متاثر کیا ہوگا، شرما نے آگاہ کیا کہ ‘ٹوکن پنلٹی’ لگاکر کمیشن اس نقصان کی بھرپائی نہیں کر سکتا، جو پہلے ہی ہوچکا ہے۔
شرما نے یہ بھی کہا کہ لوگ الیکشن کمیشن سے توقع کرتے ہیں کہ وہ انتخابی عمل کو دیانتداری اور شفافیت کے ساتھ بغیر کسی بیرونی دباؤ کے انجام دے گا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات سے پہلے بھی الیکشن کمیشن میں درج شکایتوں میں شاہ کا نام سامنے آیا تھا، جب اس وقت کے الیکشن کمشنر
اشوک لواسا نے وزیر اعظم نریندر مودی اور شاہ سے الیکشن کمیشن کے ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرکے معاملے میں دی گئی پانچ کلین چٹ کی مخالفت کی تھی۔
سماجی کارکن جگدیپ چھوکر نے بھی حال ہی میں شاہ کے بیان کو لے کر الیکشن کمیشن کو خط لکھا ہے۔
یہ کہتے ہوئے کہ وہ شرما کے خط کی حمایت کرتے ہیں، چھوکر نے کہا کہ وزیر داخلہ کا بیان تعزیرات ہند کی دفعہ 153اے اور عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کی دفعہ 8 کی بھی خلاف ورزی ہے۔
چھوکر نے مزید مطالبہ کیا کہ ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ کی سنگین خلاف ورزی کے پیش نظر کمیشن کو فوری طور پر گجرات میں انتخابات کو اس وقت تک کے لیے ملتوی کرنے کی ہدایت کرنی چاہیے جب تک کہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے ماحول سازگار نہیں ہو جاتا۔
سماجی کارکن نے الیکشن کمیشن سے آئی پی سی کی دفعہ 153 اے کی خلاف ورزی کی شکایت اور ایف آئی آر درج کرنے کے لیے کارروائی شروع کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔