اسرائیلی شہریوں کے اعلیٰ یورپین معیار زندگی کی ایک قیمت ہے۔ یہ قیمت کون ادا کرتا ہے؟ دراصل مالدار یورپی شہروں کی طرز پر عوامی خدمات بہم پہنچانے اور اعلیٰ معیار زندگی کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ وسائل امریکی ٹیکس دہندگان کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ امریکی اداروں اور شہریوں میں اب اس پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ کب تک اور کیوں اسرائیل کی ناز برداری کرتے رہیں گے؟
علامتی تصویر، بہ شکریہ ایکس: @TheFlagOfIsrae
مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ایک جزیرہ کی مانندہے، جوانفرا اسٹرکچر اور معیار زندگی کے حوالے سے اس کے ایشیائی پڑوسیوں کے برعکس کسی یورپین سرزمین کا حصہ لگتا ہے۔ ہلچل سے بھر پور شہر تل ابیب سے غازہ کی سرحد سے متصل شہر نگار سدیرات کی طرف سفر کرتے ہوئے یہودی علاقوں میں رتیلے ٹیلوں کے بجائے ہریالی نظر آتی ہے۔
اسی طرح شمال میں جبل الکرمل کے دامن میں حیفہ شہر تو جرمن شہر فرینکفورٹ کی کاپی لگتا ہے۔ فلسطینی آبادی کو اس شہر سے بے دخل کرنے کے بعد جرمنی سے ہجرت کرنے والے یہودیوں نے اس کو ہو بہو اپنے آبائی شہر کی طرز پر از سر نو تعمیر کیا۔
جبل الکرمل جہاں حضرت الیاس سے وابستہ غار ہے، کی ڈھلانوں پر بہائی فرقہ نے انتہائی خوبصورت باغ تعمیر کیا ہے، جو کشمیر کے شالامار اور نشاط کو شرمندہ کردیتا ہے۔ اس پر انہوں نے ایک روحانی مرکز تعمیر کیا ہے۔
اسرائیل اور فلسطین کے مغربی کنارہ کو بس ایک دیوار ہی جدا کرتی ہے۔ مگر یہ دو علیحدہ براعظم لگتے ہیں۔ دیوار کی دوسری طرف فلسطینی بچے دھول مٹی سے کھیلتے ہوئے، پانی حاصل کرنے کے لیے قطاروں میں کھڑے اور سڑک پر گدھا گاڑیاں خراماں خراماں چلتی نظر آتی ہیں۔
مگر اسی دیوار کے اسرائیلی سائیڈ میں انتہائی پوش رہائش گاہیں، پارکیں اور جدید گاڑیاں سڑکوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں۔
ظاہر سی بات ہے کہ اسرائیلی شہریوں کے اس اعلیٰ یورپین معیار زندگی کی ایک قیمت ہے۔ سوال ہے کہ یہ قیمت کون ادا کرتا ہے؟ کیونکہ اسرائیل کے اکثر شہری تو ہندوستان اور پاکستان کی طرح مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، جو زندگی کی گاڑی کو کھینچنے اور بچوں کے کیریر کے فراق میں گلتے رہتے ہیں۔
مالدار یورپی شہروں کی طرز پر عوامی خدمات بہم پہنچانے اور اعلیٰ معیار زندگی کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ یہ وسائل امریکی ٹیکس دہندگان کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ امریکی اداروں اور شہریوں میں اب اس پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ کب تک اور کیوں اسرائیل کی نا ز برداری کرکے اس کے شہریوں کے معیار زندگی کا خرچ اٹھائیں گے؟
امریکی کانگریس کی ریسرچ رپورٹوں کے مطابق 1946سے 2023تک امریکہ نے اسرائیل کو 297بلین ڈالر کی امداد دی ہے۔ کونسل فار فارن ریلیشن کے مطابق یہ امداد 310بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے۔ اور اس میں 230 بلین ڈالر کی ملٹری امداد ہے۔
اس کے مقابلے میں، مصر، جو امداد لینے کے معاملے میں دوسرے نمبر پر ہے، کو 167 بلین ڈالر موصول ہوئے ہیں، جبکہ فلسطین نے 1950 سے اب تک صرف 11 بلین ڈالر وصول کیے ہیں۔یہ بھی ذہن نشین ہو کہ مصر کی آبادی 11 کروڑ اور اسرائیل کی آبادی 90 لاکھ ہے اور اس میں 21 فیصد آبادی عرب مسلمانوں کی ہے، جس کو اسرائیلی عرب کہا جاتا ہے۔
پاکستان کو1947 سے 70بلین ڈالر اور ہندوستان کو 82بلین ڈالر کی امریکی امداد موصول ہوئی ہے۔
امریکی مالی امداد اسرائیل کے سالانہ بجٹ کا 3 فیصد اور تقریباً ایک فیصد جی ڈی پی کا احاطہ کرتا ہے۔ کل دفاعی بجٹ کا 20 فیصد حصہ امریکی امداد پر منحصر ہے۔
اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق نے یہ مالی امداداس کے علاوہ ہے، جو امریکہ اہم اور جدید ٹکنالوجی، جیسے آئرن ڈوم اور ایرو میزائل ڈیفنس سسٹم کی صورت میں فراہم کرتا ہے۔
مالی سال یعنی 2023 اور 2024کے اوائل ماہ میں اسرائیل کو ہوشربا 18بلین ڈالر کی امداد دی گئی، جس میں معیشت کی مضبوطی اور اضافی ملٹری امداد شامل ہے۔ اس امدادی پیکج میں میزائل اور میزائل دفاعی نظام کے لیے 5.2 بلین ڈالر، جدید ہتھیاروں کے لیے 3.5 بلین ڈالر، ہتھیاروں کی پیداوار میں بہتری کے لیے 1 بلین ڈالر اور دیگر دفاعی ساز و سامان اور خدمات کے لیے 4.4 بلین ڈالر شامل ہیں۔
اس کے علاوہ غزہ میں جاری اسرائیلی کاروائی کے لیے 2.4 بلین ڈالر مختص رکھے گئے۔ اپریل میں، امریکی ایوان نمائندگان نے اسرائیل کے لیے 17 بلین ڈالر اور غزہ جنگ کے لیے تقریباً 2 بلین ڈالر فراہم کرنے کا ایک بل منظور کیا، جس میں 3.8 بلین ڈالر کی سالانہ امداد اور 14.5 بلین ڈالر کی اضافی امداد شامل ہے۔
دس سالہ معاہدے کے تحت، امریکہ نے بنیادی طور پر فارن ملٹری فنانسنگ (ایف ایم ایف) پروگرام کے ذریعے 2028 تک اسرائیل کو تقریباً 4 بلین ڈالر سالانہ کی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔
جن دیگر ممالک کو اس طرح کی امداد دی جاتی ہے، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان پیسوں سے صرف امریکی کمپنیوں کے بنائے گئے ساز و سامان کو ہی خریدیں۔ مگر اسرائیل کو یہ چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ اس امداد کا ایک بڑا حصہ اسرائیلی دفاعی کمپنیوں کے تیار کردہ آلات خریدنے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔
کسی بھی ملک کو امریکہ کی طرف سے دی گئی فوجی امداد سخت امریکی قوانین کے ساتھ مشروط ہے جس کے لیے کانگریس کی اطلاع دینے اور ہتھیاروں کے اہم سودوں پر نظرثانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح امریکہ نے اسرائیل کے خلاف لیہی قانون کو سختی سے لاگو نہیں کیا ہے، جو کہ غیر ملکی حکومتوں کو جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتی ہیں، کو سیکورٹی امداد دینے سے منع کرتا ہے۔
اس امداد کے خلاف اب کئی موثر آوازیں میدان میں آرہی ہیں۔ کونسل آن فارن ریلیشنز کے سٹیون اے کک اور سابق امریکی سفیر مارٹن انڈیک کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی معاشی اور عسکری طاقت کے پیش نظر اس طرح کی مسلسل مالی امداد کا جواز نہیں بنتا۔ امریکہ میں اس بات پر بھی ناراضگی بڑھ رہی ہے کہ اسرائیل سفارتی آداب کو پس پشت ڈال کر انتہائی بدتمیزی کے ساتھ امریکہ کو چڑاتا ہے۔
اسرائیل کی ڈھٹائی کے خلاف اب امریکی محکمہ خارجہ کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ جوش پال جو 11 سال سے زائد عرصے تک محکمہ خارجہ کے بیورو آف پولیٹیکو ملٹری افیئرز کے ڈائریکٹر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ دوسال قبل ایک چیریٹی گروپ کی رپورٹ ان کے محکمہ کے پاس آئی، جس میں یروشلم کی جیل میں بند ایک 13 سالہ فلسطینی لڑکے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے جب اپنی سطح پر انکوائری کی تو اس الزام کو صحیح پایا۔پال نے بطور ڈائریکٹر اسرائیل سے وضاحت طلب کی۔
وضاحت کیا آتی، اگلے دن اس چیریٹی گروپ کے تمام دفاتر پر اسرائیلی فوج نے ریڈ کی اور ان کے تما م کمپیوٹر و دفتری ریکارڑ ضبط کرکے اس کو ایک دہشت گرد گروپ کے بطور نامز د کرکے اس پر پابندی لگا دی۔ یہ اسرائیل کا رویہ ایک ایسے ملک کے ساتھ ہے، جس کے بل بوتے پر وہ قائم ہے۔
امریکی فوجی امدادکی ایک وجہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں کوالٹیٹیو ملٹری ایج (کیو ایم ای) فراہم کرنا ہے۔ یہ قانون، جو 2008 امریکی کانگریس نے پاس کیا۔ا س کے مطابق سرائیل کو امریکہ کے جدید ترین فوجی ہتھیاروں اور پلیٹ فارمز تک رسائی کا حق دیا گیا۔ جوش پال جیسے کئی امریکی حکومتی اہلکاروں کے حالیہ استعفیٰ نے اب صورت حال تبدیل کردی ہے۔
یہ امریکہ اسرائیل تعلقات کے درمیان بڑھتی ہوئی بے چینی کی نشاندہی کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ریاست مشی گن کے شہر ہیم راک کی اسٹی کونسل نے حال ہی میں اسرائیلی مصنوعات کی بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ جس کی رو سے شہر میں اب کوئی اسرائیلی مصنوعات بیچ نہیں سکے گا۔ شاید اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو خطے میں امن قائم کرنے اور ایک عام ملک کی طرح رہنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔