قابل ذکر ہے کہ 751 رکنی یورپی پارلیامان میں 651 اراکین کی غیر معمولی اکثریت نے شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے علاوہ جموں و کشمیر میں عائد پابندیوں پر بحث کے لیے کُل چھ قراردادیں منظور کی ہیں۔ ان پر 29 جنوری کو بحث اور 30 جنوری کو ووٹنگ ہو گی۔
Protesters at Shaheen Bagh. Photo: Twitter/@natashabadhwar
نئی دہلی : ہندوستان میں متنازعہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف کئی ملکوں نے آواز اٹھائی ہے۔ اب یورپی پارلیامان میں بھی اس پر بحث کے لیے ایک قرارداد منظور کر لی گئی ہے، جس پر ہندوستان نے شدید اعتراض کرتے ہوئے اس کو داخلی معاملہ قرار دیا ہے۔یہ پیش رفت ایک ایسے وقت ہوئی ہے، جب وزیر اعظم نریندر مودی مارچ میں انڈیا – یورپی یونین سمٹ میں شرکت کے لیے برسلز جانے والے ہیں۔ 751 رکنی یورپی پارلیامان میں 651 اراکین کی غیر معمولی اکثریت نے شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کے علاوہ جموں و کشمیر میں عائد پابندیوں پر بحث کے لیے کُل چھ قراردادیں منظور کی ہیں۔ ان پر 29 جنوری کو بحث اور 30 جنوری کو ووٹنگ ہو گی۔ قراردادیں منظور ہو جانے کے بعد انہیں ہندوستانی حکومت، پارلیامان اور یورپی کمیشن کے سربراہان کو بھیجی جائیں گی۔
قرارداد کے مسودے میں کہا گیا ہے،ہندوستان میں شہریت کا تعین کرنے کے طریقے میں انتہائی خطرناک طور پر تبدیلی کی گئی ہے۔ لوگوں کے خدشات کو دور کرنے اور اصلاحات کی بجائے حکومت کے متعدد رہنما مظاہرین کو بدنام کرنے، ان کی تذلیل کرنے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یورپی یونین کے اراکین پارلیامان نے اس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کے ذریعے بہت بڑی سطح پر لوگوں کو شہریت سے محروم کیا جا سکتا ہے، جس کی وجہ سے کئی لوگ وطن سے محروم ہو جائیں گے۔
ہندوستان نے یورپی یونین کی اس قرارداد پر شدید تنقید کی ہے۔ حکومتی ذرائع نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، یورپی یونین کو ایسے اقدام نہیں اٹھانے چاہیے، جو جمہوری طور پر منتخب ممبران پارلیامان کے اختیارات اور اتھارٹی پر سوال کھڑے کریں۔دہلی میں حکومتی ذرائع کا کہنا تھا، سی اے اے پوری طرح ہندوستان کا داخلی معاملہ ہے اور یہ قانون پارلیامان کے دونوں ایوانوں میں بحث کے بعد جمہوری طریقے سے بنایا گیا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یورپی پارلیامان میں قرارداد پیش کرنے والے اور اس کی حمایت کرنے والے کوئی اگلا قدم اٹھانے سے قبل ہم سے رابطہ کریں گے تاکہ انہیں حقائق کی مکمل اور درست معلومات مل سکے۔
قرارداد کے مسودے میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق اعلامیے کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور یورپی یونین اسٹریٹیجک پارٹنرشپ معاہدہ 2005 کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوستانی حکام سے اپیل کی گئی ہے کہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ ‘تعمیری مذاکرات’ کریں اور’متیازی سلوک والے سی اے اے’ کو منسوخ کرنے کے ان کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کریں۔کیوں کہ سی اے اے ہندوستان میں شہریت کا تعین کرنے کے طریقے میں خطرناک تبدیلی کرے گا۔’
نریندر مودی حکومت کا کہنا ہے کہ نئے شہریت ترمیم قانون سے کسی کی شہریت نہیں ختم ہو گی بلکہ اسے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ظلم و زیادتی کا شکار ہونے والی اقلیتوں (ہندو، سکھ، مسیحی، جین،پارسی، بدھ)کو تحفظ حاصل ہو سکے گا۔اس قانون میں تاہم مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
واضح ہو کہ کچھ عرصہ قبل یورپی یونین کے ڈیڑھ سو سے زیادہ قانون سازوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ہندوستان کے ساتھ کسی بھی طرح کے تجارتی معاہدے سے قبل انسانی حقوق کے حوالے سے سخت ضابطے اور ان کے نفاذ کے لیے مؤثر میکانزم طے کیے جائیں۔ یورپی یونین کے اراکین پارلیامان نے جموں و کشمیر کی صوررت حال سے نمٹنے میں ہندو قوم پرست جماعت کے طریقہ کار پر بھی سخت نکتہ چینی کی تھی اور گزشتہ اکتوبر میں چند اراکین پارلیامان کو کشمیر کا دورہ کرائے جانے پر اعتراض کیا تھا۔
یورپین فری الائنس گروپ نے ایک بیان میں کہا تھا،ہم اس طرح کے دورے کو مودی حکومت کے قوم پرستی کے ایجنڈے کو نافذ کرنے اور ان کی حکومت میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کو درست ٹھہرانے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔اس ماہ کے اوائل میں جب مودی حکومت نے بعض غیر ملکی سفارت کاروں کو جموں و کشمیر کا دورہ کروایا تو یورپی یونین کے سفارت کاروں نے اس میں شامل ہونے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا تھا کہ انہیں اس طرح کے ‘گائیڈیڈ ٹور’ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
گزشتہ برس ہندوستان کے دورے کے دوران جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی کشمیر کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ’غیر پائیدار’اور’اچھے نہیں’ ہیں۔ ان کے اس بیان کے بعد یورپی یونین میں اس معاملے پر بحث و مباحثے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
(ڈی ڈبلیو اردو کے ان پٹ کے ساتھ)