’وقت کے ساتھ میں نے اپنی شناخت کو چھپانا شروع کر دیا ہے۔ جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ کہاں سے ہیں، تو میں کہتی ہوں – یہیں دلی سے۔‘
سکینہ* (فوٹو:اسپیشل ارینجمنٹ)
نئی دہلی: سکینہ* اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے 2017 میں سری نگر سے دہلی آئی تھیں۔ اس کے بعد وہ یہیں نوکری کرنے لگیں۔ ان کا خاندان سری نگر میں رہتا ہے، لیکن اصل میں شمالی کشمیر کے ایک ضلع سے تعلق رکھتا ہے۔ جب جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹایا گیا،وہ چھٹیوں پر اپنے گھر آئی ہوئی تھیں۔
چھبیس سالہ سکینہ نے دی وائر کے ساتھ گزشتہ پانچ سالوں کا اپنا تجربہ شیئر کیا ہے۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
جب آرٹیکل 370 ہٹایا گیا، میرے والد بیرون ملک کام کرتے تھے۔ فون سروس بند ہونے کے باعث ہم ان سے بات تک نہیں کر سکتے تھے۔ ہم سب کافی فکرمند رہتے تھے۔ والدہ اور بہن بھائیوں کی حالت بہت زیادہ خراب تھی، کیونکہ مجھے کالج شروع ہونے کے بعد ستمبر کے مہینے میں وہاں سے نکلنے کا موقع مل گیا۔ وہ اسی ماحول میں اذیت برداشت کرنے کے لیے پیچھےچھوٹ گئے۔
اکتوبر 2019 میں فون سروس بحال ہونے کے بعد بھی میرے خاندان والے میرے والد سے بات نہیں کر سکتے تھے۔ چونکہ کشمیر میں بین الاقوامی کالنگ پر پابندی برقرار تھی، میرے والد مجھے فون کرتے تھے، پھر میں گھر کے باقی لوگوں کو فون لگاتی تھی اور کال کو مرج کر دیتی تھی… جب انہوں نے پہلی بار ایک دوسرے کی آواز سنی، سب کی آنکھیں نم تھیں۔
یہ غلط ہے کہ دفعہ 370 ہٹائے جانے کے بعد کشمیر میں استحکام آیا ہے۔ میں نے اور میری برادری نے بہت کچھ کھویا، لیکن سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کچھ قریبی لوگ بچھڑ گئے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ہوئے شٹ ڈاؤن نے ہماری زندگی کو درہم برہم کر دیا۔ دوستوں اور اہل خانہ سے میرا رابطہ ٹوٹ گیا،یہاں تک کہ جب حالات مبینہ طور پر معمول پر آ گئے،تب بھی وہ تعلقات پہلے جیسے نہیں ہو پائے۔ کچھ دوست ہمیشہ کے لیے دور ہوگئے۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کا میرے خاندان پر شدید معاشی اثر پڑا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی سے پہلے ہم نے ایک نیا کاروبار شروع کیا تھا اور کافی پیسہ لگایا تھا، لیکن شٹ ڈاؤن کے نتیجے میں کاروبار بند ہو گیا اور خاندان کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
میرے بہت سے جاننے والوں کو گھر اور تعلیمی قرضوں کی ادائیگی میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں کے لیے کشمیر سے باہر تعلیم حاصل کر رہے اپنے خاندان کے افراد کو پیسے بھیجناایک بڑا مسئلہ تھا۔ کچھ خاندانوں کو ہندوستان میں کہیں اور پڑھنے والے اپنے بچوں کی کفالت کے لیے رقم ادھار لینا پڑی کیونکہ شٹ ڈاؤن کے دوران ان کی کوئی آمدنی نہیں ہو رہی تھی۔
گھریلو تشدد اور ذہنی صحت کے شکار لوگوں کے لیے تباہ کن رہا فیصلہ
’ذرا تصور کیجیے کہ آپ کو مہینوں تک گھر کے اندر رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ بیرونی دنیا سے رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ جس گھر میں گھر والوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی، وہاں ماحول عموماً خراب رہتا تھا۔ ان لوگوں کا حال بھیانک خواب جیسا تھا۔ یہ فیصلہ ذہنی صحت کے مسائل اور گھریلو تشدد اور جنسی استحصال کے شکار لوگوں کے لیے تباہ کن تھا۔ طویل عرصہ تک گھر میں بند رہنے کی وجہ سے ان کی پریشانی کئی گنا بڑھ گئی۔‘
شٹ ڈاؤن کے باعث بچے گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔ یہ ان کی ذہنی صحت کے لیے بہت نقصان دہ تھا۔ سماجی میل جول کی کمی کی وجہ سے بچوں میں خود اعتمادی اورعزت نفس سے متعلق مسائل پیدا ہوئے۔ ان کی سماجی صلاحیتیں نارمل طریقے سےپروان نہیں چڑھیں۔‘
تعلیم پر حملہ
‘میں نے 2016 میں 12 ویں مکمل کی تھی، لیکن وادی میں بدامنی کی وجہ سے مجھے ایک سال کا وقفہ لینا پڑا۔ 2016 میں 4-5 ماہ تک انٹرنیٹ بند رہا، جس کی وجہ سے کالج میں داخلوں کا وقت ختم ہو گیا۔ جس ڈگری کو مکمل ہونے میں تین سال لگتے ہیں، کشمیر میں کرفیو کی وجہ سے پانچ سے چھ سال لگ جاتے ہیں۔
کشمیر کے تعلیمی اداروں اور طلباء کو پچھلی دہائی میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2010 کی بدامنی نے تعلیم کو بری طرح متاثر کیا۔ اس کے بعد 2011 میں افضل گرو کی پھانسی اور 2014 کے سیلاب کے بعد حالات مزید بگڑ گئے۔
جب ہم ان واقعات سے سنبھلنے لگے تھے، 2016 بدامنی کا ایک اور دور لے کر آیا۔ اس سے تعلیم ایک بار پھر متاثر ہوئی۔ اگست 2019 میں 4-5 ماہ کا شٹ ڈاؤن تھا، جس کے فوراً بعد موسم سرما شروع ہوا، جس سے تعلیم میں مزید خلل پڑا۔ اس سے نوجوانوں کے حوصلے ٹوٹ گئے۔‘
جبری خاموشی میں ڈوبی زندگی
’دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد کشمیریوں کی زندگی میں ڈرامائی تبدیلی آئی۔ جو لوگ کبھی عوامی بحث ومباحثہ میں مصروف رہتے تھے، وہ کافی خاموش ہو گئے ہیں۔ میں سوچتی تھی کہ وادی میں سناٹا اور مظاہروں کا فقدان طوفان کا پیش خیمہ تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ میں نے دیکھا کہ یہ خاموشی ایک بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہے، لوگ اب اختلاف رائے کا اظہار کرنے سے ڈرتے ہیں۔‘
آج کل بہت سے لوگ اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کے بجائے ان کو دبانے کے لیے زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔ ہمارے انسانی حقوق پر حملے کو ناانصافی کے طور پر دیکھا جاتا تھا،اس کو اب آسانی سے قبول کر لیا جاتا ہے۔ لوگ اپنے حقوق اور آزادیوں پر حملوں کے عادی ہو چکے ہیں، ایک نئی اور زیادہ مجبور حقیقت کو اپنا رہے ہیں۔‘
دہلی میں لوگ طعنے دیتے ہیں
دہلی آتے جاتے، کوئی دکاندار، چائے والا یا کیب والا، کوئی بھی پوچھ لیتا ہے، کیوں وہاں تو اب سب ٹھیک ہوگیا ہے نہ؟ میرے شریک کار بھی ہمارے اوپر ہوئے ظلم کو جنگ میں فتح کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس معاملے کے ماہر ہیں کہ ہماری کمیونٹی کو کیسا برتاؤ کرنا چاہیے، یا اختلاف رائے کے اظہار پر ہمیں کس طرح سزا دی جانی چاہیے۔ اس سے مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی شناخت کو چھپانا شروع کر دیا ہے۔ جب کوئی مجھ سے پوچھتا ہے کہ آپ کہاں سے ہیں، تومیں کہتی ہوں – یہیں دلی سے۔‘
میں اس وقت کا انتظار کر رہی ہوں جب ہماری شناخت کو اہمیت دی جائے گی، اور اسے ڈیمنائزنہیں کیا جائے گا۔‘
(*بدلا ہوانام)