الیکشن کمیشن نے راجیہ سبھا کی پارلیامانی کمیٹی کو بتایا تھا کہ یہ وقت میں پیچھے جانےوالا قدم ہے اور اس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سے جڑی شفافیت پر اثر پڑےگا۔
الیکشن کمیشن (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: الیکشن کمیشن نے صرف وزارت قانون ہی نہیں بلکہ راجیہ سبھا کی پارلیامانی کمیٹی کو بھی خط لکھکر متنازعہ الیکشن بانڈ اسکیم کو لےکر تشویش کا اظہار کیاتھا۔ کمیشن نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ یہ ایک پیچھے جانے والا قدم ہے اور اس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سے جڑی شفافیت پر اثر پڑےگا۔کمیشن نے پارلیامانی کمیٹی کو یہ خط وزارت قانون کو بھیجے گئے خط سے آٹھ دن پہلے بھیجا تھا۔ کمیشن کے ذریعے وزارت قانون کو بھیجے گئے خط کو لےکر میڈیا میں کافی بحث بھی ہوئی تھی۔
آرٹی آئی کارکن کوموڈور لوکیش بترا (ریٹائر)کے ذریعے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئےگئے اور دی وائر کے ذریعے جانچے گئے دستاویزوں سے یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔ کمیشن نے 18 مئی 2017 کو محکمہ-متعلق مزدور، عوامی شکایت، قانون اور انصاف پر پارلیامانی کمیٹیاکو خط لکھکر الیکشن بانڈ اسکیم کے برے اثرات اور کمیشن کی رائےکے بارے میں بتایاتھا۔ کمیشن نے لکھا تھا، ‘حکومت ہند نے مالی بل 2017 کے ذریعے ایک ‘ الیکشن بانڈاسکیم ‘ پیش کی ہے۔ اس کے تحت مرکزی حکومت کے ذریعے نوٹیفائڈ بینک یہ بانڈ گراہک کوجاری کر سکتے ہیں، جس کو وہ سیاسی جماعتوں کے کھاتے میں جمع کرائیںگے۔ ‘
کمیشن نے آگے لکھا تھا، ‘حالانکہ عوامی نمائندگی قانون 1951 کی دفعہ 29-سی میں ترمیم کرکے الیکشن بانڈ کے ذریعےچندہ دینے والوں کے بارے میں الیکشن کمیشن کو جانکاری دینے سے منع کر دیا گیا ہے۔یہ ایک پیچھے جانے والا قدم ہے اور اس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی فنڈنگ سے جڑی شفافیت پر اثر پڑےگا۔
EC letter to Parliamentary … by
The Wire on Scribd
اس کے علاوہ الیکشن کمیشن نے غیر ملکی ذرائع کے ذریعے بھی چندہ حاصل کرنےپر سخت اعتراض کیا تھا۔ عوامی نمائندگی قانون، 1951 کی دفعہ 29-بی کے اہتماموں کے تحت سرکاری کمپنیوں اورایف سی آر اے، 1976 [غیر ملکی چندہ (ضابطہ)قانون، 1976] کے تحت واضح کردہ ‘ غیرملکی ذرائع ‘سے چندہ لینے پر پابندی ہے۔ ‘غیر ملکی ذرائع ‘ میں غیر ملکی شہری،غیرملکی حکومت، غیر ملکی کمپنیاں اور غیر ملکی کمپنیوں میں ہندوستانی کمپنیوں کی50 فیصد سے زیادہ حصےداری شامل ہیں۔ حالانکہ مالی بل 2016 کے ذریعے ‘ غیر ملکی ذرائع ‘کی وضاحت میں تبدیلی کی گئی ہے۔
کمیشن نے کمیٹی کو لکھا تھا، ‘اس کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کے ذریعےہندوستانی کمپنیوں کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے کا دروازہ کھل گیا ہے۔ اس کی شرط صرف اتنی ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں کو غیر ملکی کمپنی میں سرمایہ کاری کرنےکے لئے فیما 1999 کے اصول اور قانون پر عمل کرنا ہوگا۔ ‘ الیکشن کمیشن نے سخت الفاظ میں کہا تھا، ‘یہ عوامی نمائندگی قانون 1951 کی دفعہ 29-بی کے جذبہ کے خلاف ہے اور کمیشن اس کی حمایت نہیں کرتا ہے۔’
موجودہ وقت میں اس کمیٹی کے چیئر مین بی جے پی کے سینئر رہنما بھوپیندریادو ہیں۔ سال 2017 میں کمیٹی کے چیئر مین کانگریس رہنما آنند شرما تھے۔ اس سے پہلے الیکشن کمیشن نے 26 مئی 2017 کو وزارت قانون کے محکمہ قانون ساز کو خط لکھکر الیکشن بانڈ اسکیم پر اعتراض کیا تھا اور اس کو انتخابی اصلاحات کی سمت میں ایک رکاوٹ بتایا تھا۔
کمیشن نے اس خط میں لکھا تھا، ‘ الیکشن بانڈ کے ذریعے چندہ دینے والوں کےبارے میں الیکشن کمیشن کو جانکاری دینے سے منع کرنے کی وجہ سے یہ پتہ نہیں چل پائےگاکہ کس پارٹی نے عوامی نمائندگی قانون، 1951 کی دفعہ 29-بی کے اہتماموں کی خلاف ورزی کی ہے یانہیں، جس کے تحت سرکاری کمپنیوں اور غیر ملکی ذرائع سے چندہ لینے پر پابندی ہے۔ ‘مالی بل 2017 کے ذریعے کمپنیز ایکٹ 2013 کی دفعہ 182 میں ترمیم کرنے کی تجویز رکھی گئی تھی، جس کے ذریعے کسی کمپنی کےذریعے سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے سے تین مالی سال پہلے تک اوسطاً 7.5 فیصد کا فائدہ کمانے کی شرط ضروری ہونے کے اہتمام کو ہٹا دیا گیا۔
پہلے یہ اہتمام تھا کہ اگر کوئی کمپنی کسی پارٹی کو چندہ دینا چاہتی ہے تواس کی شرط یہ تھی کہ اس کو چندہ دینے والے سال سے تین سال پہلے تک اوسطاً 7.5 فیصد کا فائدہ کمانا ضروری ہے، تبھی وہ کمپنی چندہ دینے کے لائق مانی جائےگی۔ حالانکہ مالی بل 2017 کے ذریعے اس اہتمام کو ہٹا دیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے اس پر کہاتھا، ‘ اس کی وجہ سے کئی شیل کمپنیاں کھل سکتی ہیں جن کا واحد مقصد سیاسی جماعتوںکو چندہ دینا ہوگا۔ اس کی وجہ سے شیل کمپنیوں کے ذریعے کالا دھن آئےگا۔ ‘
کمیشن نے مشورہ دیا تھا کہ اس ترمیم کو خارج کر کے پرانے اہتمام کو پھرلایا جائے۔ کمپنیز ایکٹ 2013 کی دفعہ 182 (3) میں یہ اہتمام تھا کہ جو کوئی کمپنی کسی سیاسی جماعت کو چندہ دے رہی ہے، اس کو اپنے فائدے اور نقصان کے حساب کتاب میں یہ جانکاری دینی ہوگی۔ حالانکہ اس میں ترمیم کرکے اس مد کے زمرہ میں خرچ شدہ رقم تک کی جانکاری دینے کی بات رکھی گئی۔
کمیشن نے گہری فکر کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خط میں لکھا تھا کہ اس کی وجہ سے شفافیت پر بہت زیادہ برا اثر پڑےگا۔
الیکشن کمیشن نے مشورہ دیا تھا کہ شفافیت کو دھیان میں رکھتے ہوئے مالی بل 2017 کے تحت عوامی نمائندگی قانون، 1951 کی دفعہ 29-سی اور کمپنی ایکٹ، 2013 میں کی گئی ترمیم پر پھر سے غور کیا جانا چاہیے اور اس کو بدلکر سیاسی جماعتوں کے ذریعےالیکشن بانڈ کے ذریعے ملنے والے چندے کی تفصیلی جانکاری الیکشن کمیشن کو دینے اورکمپنیوں کے ذریعے پارٹی-وار دئے گئے چندے کاانکشاف کرنے کا اہتمام کیا جاناچاہیے۔
حالانکہ مرکزی حکومت نے ان اعتراضات کو درکنار کرتے ہوئے مالی بل، 2017 کو منی بل کےطور پر پاس کرا دیا۔انتخابی اصلاحات پر کام کرنے والا غیرسرکاری ادارہ ایسوسی ایشن فارڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر)نے تمام اہتماموں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہےاور اس کو خارج کرنے کی مانگ کی ہے۔
اے ڈی آر کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ مالی قانون 2017 اور اس سے پہلے مالی قانون 2016 میں کچھ ترمیم کی گئی تھی اور دونوں کو منی بل کے طور پر منظور کیا گیا تھا، جن سے غیر ملکی کمپنیوں سے لا محدود سیاسی چندے کے دروازے کھل گئے اور بڑے پیمانے پر انتخابی بدعنوانی کو جواز حاصل ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی سیاسی چندے میں پوری طرح غیرشفافیت ہے۔ اس عرضی کے جواب میں الیکشن کمیشن نے بھی سپریم کورٹ میں حلف نامہ دائر کرکے کہا کہ الیکشن بانڈ پارٹیوں کو ملنے والے چندے کی شفافیت کے لئے خطرناک ہے۔
واضح ہو کہ پچھلے مہینے الیکشن بانڈ کے متعلق میں کئی انکشاف سامنے آئےہیں، جس سے یہ پتہ چلا ہے کہ آر بی آئی، الیکشن کمیشن، وزارت قانون، آر بی آئی گورنر، چیف الیکشن کمشنر اور کئی سیاسی جماعتوں نے مرکزی حکومت کو خط لکھکر اس اسکیم پر اعتراض کیا تھا۔
حالانکہ وزارت خزانہ نے ان تمام اعتراضات کو خارج کرتے ہوئے الیکشن بانڈاسکیم کو منظور کیا۔ اس بانڈ کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو چندہ دینے والوں کی پہچان بالکل مخفی رہتی ہے۔آر بی آئی نے کہا تھا کہ الیکشن بانڈ اور آر بی آئی قانون میں ترمیم کرنےسے ایک غلط روایت شروع ہو جائےگی۔ اس سے منی لانڈرنگ کی حوصلہ افزائی ہوگی اورسینٹرل بینکنگ قانون کے بنیادی اصولوں پر ہی خطرہ پیدا ہو جائےگا۔
آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ جب الیکشن بانڈ اسکیم کا ڈرافٹ تیار کیا گیا تھا تو اس میں سیاسی جماعتوں اور عوام کے ساتھ صلاح مشورہ کا اہتمام رکھا گیا تھا۔ حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ اجلاس کے بعد اس کو ہٹا دیا گیا۔ اس کے علاوہ الیکشن بانڈ اسکیم کا ڈرافٹ بننے سے پہلے ہی بی جے پی کو اس کے بارے میں جانکاری تھی۔ بلکہ مودی کے سامنے پیش کرنے سے چار دن پہلے ہی بی جے پی جنرل سکریٹری بھوپیندر یادو نے اس وقت کے وزیر خزانہ ارون جیٹلی کو خط لکھکرالیکشن بانڈ اسکیم پر ان کی پارٹی کے مشوروں کے بارے میں بتایا تھا۔
یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ الیکشن بانڈ کے ذریعے سب سے زیادہ چندہ بی جے پی کو حاصل ہوا ہے۔