پانچ سال پہلے ہم نے کہا تھا کہ ہم نئے طریقے سے ایسے میڈیا کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں جو صحافیوں، قارئین اور ذمہ دار شہریوں کی مشترکہ کوشش ہو۔ ہم اپنے اس اصول پرقائم ہیں اور یہی آگے بڑھنے میں ہماری مدد کرےگا۔
میڈیا کے ایک ایسے منظرنامے میں، جہاں کئی اخباروں کی تاریخ تقریباً 200 سال پرانی ہے، دی وائر کا پانچ سال مکمل کرنا شاید بہت اہم واقعہ نہ ہو۔لیکن ہندوستان میں ڈیجیٹل صحافت کی آمد کو ابھی ایک دہائی سے بھی کم کاعرصہ ہوا ہے، اوراس مختصرعرصے میں اس نے کئی چیلنجز دیکھے ہیں تیزی سے بدلتی تکنیک سے لےکر مالی وسائل کی کمی اور اقتدار کی بدنیتی۔
پانچ سال پہلے جب آج ہی کے دن دی وائر کا اجرا ہوا تھا، تب اس شعبہ میں غیر یقینی صورتحال زیادہ تھی۔ آج کےمقابلے یہاں کافی کم لوگ تھے ،اس کے علاوہ منافع کمانے یاسرمایہ کاروں کو اس میں لانے کے بجائے ایک ناٹ فار پرافٹ (غیر منافع بخش)ادارہ بنانے کے ہمارے فیصلے کو کہیں زیادہ جوکھم بھرا مانا گیا تھا۔
لیکن اس بات کی گواہی تو ہمارے قارئین اور ناظرین ہی دیں گے کہ ہم نے غیر منافع بخش رہنے کا جو جوکھم لیا تھا جس سے ہماری صحافت آزاد اور کسی بھی دباؤ سے آزاد رہے وہ درست ثابت ہوا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارا کسی‘باس’کو جواب نہ دینا ہی ہمیں ان رپورٹس کو سامنے لانے میں مدد کرتا ہے، خواہ وہ کسی کے خلاف جاتی ہوں۔
جیسے جیسے ڈیجیٹل میڈیا نے پاؤں پھیلائے ہیں، آن لائن رہنے والے قارئین کو مختلف اختیارات ملے ہیں، لیکن پوری نیوز انڈسٹری یا صحافت کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ان پانچ سالوں میں پریس کی آزادی پر لگاتار حملے ہوئے، اندر سے بھی اور باہر سے بھی، جس نے نہ صرف اس کی آزادی بلکہ بھروسےکو بھی کم کیا ہے۔
سرکار میڈیا کو ایک ساتھی کی طرح دیکھتی ہے اور اس کی مدد سے اپنی امیج کو چمکاتی ہے۔ کئی بڑے میڈیا ہاؤس رضاکارانہ طور پر اس اسکیم کا حصہ بنے ہیں۔کئی مشہوراخبار اور ٹی وی چینل سرکاری بھونپو بن چکے ہیں، جو سرکار کے دعووں کو دکھاتے ہیں اور اپنی تنقید اس کے مخالفین کے لیےمحفوظ رکھتے ہیں۔
سرکار یا اس کی قیادت سے کوئی اہم سوال نہیں کیا جاتا، جوابدہی کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آتا۔ چیختے ہوئے چینلوں، نفرت اور تعصب کی دکانداری کرنے والے بے شرم اینکروں کے بارے میں کم ہی کہا جائے تو بہتر ہے۔وہ بہادر صحافی، جو اپنے پیشہ کے اصولوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، انہیں اکثر اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ کچھ کوقتل کر دیا گیا، کئی لوگوں کی نوکری گئی اور کچھ لوگوں کے خلاف عدالتوں میں معاملے چل رہے ہیں۔
دی وائر بھی اس دباؤ سےآزاد نہیں ہے، نہ صرف
ہتک عزت کے مقدمے بلکہ اب تو بات
غیر قانونی مجرمانہ مقدمے تک پہنچ گئی ہے۔لیکن ہمارے چیلنجز جموں وکشمیر کے
ان تین صحافیوں– جن پر یواے پی اے کے تحت معاملہ درج ہوا یا کوئمبٹور، انڈمان اور ایسی ہی جگہوں کے صحافیوں سے کم ہیں، جنہیں فرضی الزامات میں گرفتار کیا گیا۔
اس بات کی معقول وجوہات ہیں کہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے 180 ممالک کی فہرست میں ہندوستان 142ویں نمبرپر ہے۔ پھر بھی وزیر اطلاعات ونشریات کا اس بارے میں ردعمل یہ ہے کہ ان کی سرکار اس طرح کے
تمام سروے کو بے نقاب کرےگی۔دی وائر کی مالی اعانت کا یہی وقت ہے۔ اگر دی وائر اب تک محفوظ ہے، تو اس کی وجہ ہمارے قارئین اورناظرین کا ساتھ ہے۔
وہ ہمارے ساتھ کھڑے رہے اورباقاعدگی سے مالی اعانت دےکر ہم پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا۔اس مالی تعاون کے بغیر ہم وہاں نہیں ہوتے جہاں آج ہیں۔
سچی صحافت باقی رہےگی…
ہندوستانی صحافت اب بھی انتہائی نازک مرحلے میں ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو مانتے ہیں کہ اب ہندوستانی میڈیا اصلاحات سے آگے بڑھ چکا ہے اور یہ کبھی اپنی پیشہ ورانہ ایمانداری کودوبارہ حاصل نہیں کر سکےگا۔ہو سکتا ہے ان کے پاس ایسا کہنے کی وجوہات ہوں۔ لیکن ہندستان میں اب بھی ایسے اخبار، ٹی وی چینل اور ویب سائٹ ہیں، جو یہ لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی بہت سے صحافی جن میں کئی نوجوان بھی ہیں، جوتبدیلی کے لیے کام کر رہے ہیں۔
اسی کے ساتھ ملک کےمختلف حصوں میں ایسے آزادصحافیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو عوامی مفاد کے لیے کام کرتے ہیں اور یہ یقینی بناتے ہیں کہ بڑے میڈیا اداروں کی خاموشی کے بیچ ان کی آواز جگہ بنا سکے۔اب بھی ہزاروں کہانیاں باقی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے چیلنجز کے بیچ، جن لوگوں کومین اسٹریم کا حصہ ہونے کے باوجود شاید ہی کبھی مین اسٹریم کے میڈیا میں جگہ ملتی ہے، وہ ہمارے شعور کا حصہ بن چکے ہیں۔
پورے ملک میں صحافی اس موقع پر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کی کہانیاں بتا رہے ہیں، حالانکہ کچھ میڈیا اداروں نے اس کا مذاق اڑانے کی کوشش کی ہے، لیکن ہندوستانی سچ جاننا چاہتے ہیں نہ کہ منظم پروپیگنڈہ۔ اور یہی وجہ ہے کہ سچی اور اچھی صحافت ہمیشہ آگے بڑھےگی۔
دی وائر کا مقصد اپنے قارئین اور ناظرین تک جمہوری صحافت کو لانا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ آپ ہمارا تعاون کرتے رہیں گے۔جیسا کہ ہم نے
پانچ سال پہلے کہا تھا کہ ہم نئے طریقے سے ایسے میڈیا کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں جو صحافیوں، قارئین اور ذمہ دار شہریوں کی مشترکہ کوشش ہو۔
ہم اپنے اس اصول پر قائم ہیں اور یہی آگے بڑھنے میں ہماری مدد کرےگا۔