اداریہ: نفرت بھری انتخابی سیاست پر الیکشن کمیشن کی خاموشی بھی جرم ہے

04:38 PM Apr 19, 2019 | مدیر

الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری صرف مثالی ضابطہ اخلاق ہی نہیں بلکہ عوامی نمائندگی  قانون کو بھی برقرار رکھنا ہے، جس کے تحت وزیر اعظم سمیت مختلف بی جے پی رہنماؤں کی نفرت بھری تقریر جرم کے زمرہ میں آتی ہیں۔

(فوٹو: رائٹرس / امت دوے)

لوک سبھا انتخاب کے لئے انتخابی مہم شروع ہوتے ہی بی جے پی نے ہندو جذبات کو ابھارا ہے اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا ہے۔ بی جے پی نے جان بوجھ کر ڈر اور نفرت کی زبان کا استعمال کرکے ‘بنگلہ دیشیوں’کو نشانہ بنایا ہے، جو ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کا نعم البدل  بن گیا ہے۔تمام بنگلہ دیشی مہاجروں کو ‘ گھس پیٹھیا’ بتاکر بی جے پی کی اعلیٰ قیادت نے آسام اور باقی ہندوستان میں تشویشناک  ماحول کو اور گہرا کر دیا ہے۔ اس طرح کی نفرت کی زبان اکثر بھیڑ کو اکساتی ہے، جو لگاتار ملک بھر کے بےقصور مسلمانوں پر مہلک حملہ کرتے رہے ہیں، جن کے ہونے سے لگتا ہے کہ مرکز کی حکمراں پارٹی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

بی جے پی کی اس مہم کے پیچھے ان کی جارحانہ اور نراجی(Anarchism)راشٹرواد کے لئے ان کی وابستگی ہے، جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے نظریہ کے مطابق ہے۔ گزشتہ دنوں بی جے پی نے اپنا منشور ‘سنکلپت بھارت -سشکت بھارت ‘جاری کیا، جس میں راشٹر واد کو اپنی ترغیب بتاتے ہوئے آئین کی دفعہ 370 اور جموں و کشمیر سے دفعہ 35اے ہٹانے، فرقہ وارانہ شہریت (ترمیم) بل کو منظور کرنے، ایودھیا میں رام مندر بنانے کا وعدہ کیا۔ان میں سے ہرایک وعدہ ممکنہ جدو جہد سے بھرا ہوا ہے، جو خاص طورپر ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ہیں۔

اپنی باٹنے والی مہلک حکمت عملی کو جاری رکھتے ہوئے بی جے پی صدر امت شاہ نے مغربی بنگال کے رائےگنج کی ایک ریلی میں بنگلہ دیشی مہاجروں کو ‘دیمک’ کہا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، یہ غیر قانونی مہاجر دیمک ہیں۔ یہ وہ اناج کھا رہے ہیں، جو غریبوں کو ملنا چاہیے، یہ ہماری نوکریاں چھین رہے ہیں۔امت شاہ نے ناشائستہ زبان کا استعمال کرنے کے علاوہ تمام بنگلہ دیشیوں کو مغربی بنگال کا غیر قانونی مہاجر قرار دیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے، جب ہم نے بنگال میں امت شاہ کا اتنا خطرناک پروپیگنڈہ سنا۔امت شاہ نے دو مہینے پہلے فرقہ وارانہ طور پر حساس ضلع مالدہ میں ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بنگال حکومت لوگوں کو سرسوتی پوجا منانے کی منظوری نہیں دے رہی۔ محرم پر درگا کی مورتیوں کے وسرجن کو منظوری نہیں دینے کے ممتا بنرجی کے فیصلے پر بی جے پی صدر نے بھیڑ سے سوال کیا، ہماری درگا کی مورتیوں کا وسرجن کرنے ہم کہاں جائیں‌گے؟ پاکستان؟

یہ سب اشارہ کرتے ہیں کہ بی جے پی انتخابی طور پر اہم بنگال اورنارتھ ایسٹ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کی کھائی کو اور گہرا کرنا چاہتی ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لئے پارٹی تین جذباتی مدعوں کا استعمال کر رہی ہے، جس میں این آر سی، شہریت ترمیم بل اور بنگلہ دیشیوں کی منتقلی شامل ہے۔ان میں سے ہرایک مدعا پولرائزیشن کرنے والا ہے، جس کا مقصد مختلف کمیونٹی کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا ہے-پھر چاہے وہ ہندو بنام مسلمان یا باہری بنام اندرونی ہی کیوں نہ ہو۔42 لوک سبھا سیٹوں والا مغربی بنگال ان اہم ریاستوں میں سے ہے، جہاں بی جے پی بہت دھیان دے رہی ہے۔ بنگال میں 2014 کے انتخاب سے پہلے بی جے پی کی انتخابی موجودگی بمشکل ہی تھی، لیکن ان پانچ سالوں کے اندر پارٹی بنگال میں اہم حزب مخالف جماعت کی شکل میں  ابھری ہے، جو پارٹی کی تقسیم کاری، مسلم مخالف تشہیر کا ہی اثر ہے۔

مرکز اور ریاست کی قیادت نے بنگال میں ترنمول کانگریس کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی پر ‘ خوش کرنے والی  سیاست ‘ کرنے اور ‘غیر قانونی بنگلہ دیشی مہاجروں ‘ کو پناہ دینے پر سوال کھڑا کرتا رہا ہے۔ بی جے پی یقیناً اس ریاست میں آگ سے کھیل رہی ہے، جس کی وراثت فرقہ وارانہ تشدد  رہی ہے۔ہمیں یہ بھی دھیان دینا چاہیے کہ بی جے پی کی ایک فرقے کو دوسرے کے خلاف بھڑکانے، اکثریتی  کمیونٹی کو اقلیتی کمیونٹی کے خلاف کھڑا کرنے کی حکمت عملی کسی ایک ریاست تک محدود نہیں ہے۔ یہ پوری طرح نظریاتی اور انتخابی حکمت عملی ہے، جس کو پارٹی نے قبول کیا ہے۔جیسےجیسے ہم انتخابات میں آگے بڑھتے ہیں، بی جے پی کی یہ بیان بازی ہمیں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ پارٹی کا ایجنڈہ کیا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی ودربھ علاقے کے وردھا میں ہوئی ریلی کی  تقسیم کاری تقریر کو کون بھول سکتا ہے، جس میں’پوری دنیا کے سامنے ہندوؤں کی توہین’ کی بات کہہ‌کر مودی نے کانگریس پر جم کر حملہ بولا تھا۔

ساتھ ہی وائناڈ سے انتخاب لڑنے کے راہل گاندھی کے فیصلے پر ان کا یہ کہنا کہ ایسا اس لئے ہے کیونکہ وائناڈ ایک ایسا انتخابی حلقہ ہے، جہاں ‘اقلیت اکثریت میں ہے، ‘ ہندوستان کے آئین کو براہ راست خطرہ تو ہے، ساتھ ہی اس کی اقدار کو کمزور کرنے والا بھی ہے۔الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری صرف مثالی ضابطہ اخلاق کو بنائے رکھنا ہی نہیں بلکہ عوامی نمائندگی قانون کو بنائے رکھنا بھی ہے، جس کے تحت مودی کی اس طرح کی تقریر جرم ہے۔ اس مسلسل نفرت اورحسد بھری انتخابی سیاست کے درمیان الیکشن کمیشن کی خاموشی موجودہ عام انتخاب کے سب سے خطرناک پہلوؤں میں سے ایک ہے۔