فی الحال نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے ہیں۔ مگر آئین کی رو سے نئے صدر کا انتخاب 50 دنوں کے اندرکروانا ضرور ی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اچانک تبدیلی نے ایران کو سیاسی طور پر غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا ہے۔
دسمبر 2022 میں ابراہیم رئیسی کی تصویر کے ساتھ ایک حامی۔ تصویر: X/@raisi_com
اتوار کی دوپہر جب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر آذربائیجان کی سرحد سے متصل ارسباران پہاڑوں کے آسمان میں لاپتہ ہوگیا، تو تلاش بسیار کے بعد ایران کے بچاؤ دستوں نے پڑوسی ممالک کومطلع کیا کہ وہ اپنے علاقوں میں تلاش کرنے میں مدد دیں۔ خدشہ تھا کہ شدید دھند کی وجہ سے پائلٹ نے کسی ملک کی سرحد عبور کی ہو۔
آذربائیجان، ترکی، عراق اور آرمینیا کے بچاؤ دستے رات بھر اس ہیلی کاپٹر کا پتہ لگانے میں ناکام رہے۔ مگر علی الصبح جب ترکی کا بغیر پائلٹ ڈرون طیارہ سرحدی علاقہ میں محو پرواز تھا کہ اس نے کچھ عجیب طریقے سے برتاؤ کرنا شروع کردیا۔
جس کا مطلب تھا کہ اس نے کسی گرم چیز کو ڈھونڈ لیا ہے اور اس سے سگنل لے رہا ہے۔ کسی میزائل یا کسی طیارہ کی موجودگی کی صورت میں ترکی کا یہ تیار کردہ بیرک تر اکانجی ڈرون اس طرح کی سگنلز کنٹرول روم کو دیتا ہے۔
آفات سے نپٹنے والی ترک حکومتی تنظیم آفاد کے ایک افسر کے مطابق، اس ڈرون کے کنٹرول روم میں اسکرین پر ایک تکون سا نظر آرہا تھا اور اس کا ایک سرا ایرانی سرحد کے اندر اوزی گاؤں سے دو کلومیٹر دور جنوب مغرب کے پہاڑوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ ترک افسران نے جب یہ اطلاع ایرانی حکام کو دی، تو اگلے آدھے گھنٹے کے بعد ہی تصدیق ہوگئی کہ امریکی ساخت کا یہ بیل ہیلی کاپٹر، جو ایرانی صدر اور وزیر خارجہ جہ حسین امیرعبداللہیان سمیت کئی دیگر افسران کو لے جا رہا تھا، حادثہ کا شکار ہو کر تباہ ہو چکا ہے۔
ایک ایرانی اہلکار نے بتایا کہ ترکی کے کوآرڈینیٹ ملنے تک وہ امید کر رہے تھے کہ شاید ہیلی کاپٹر نے کہیں ہارڈ لینڈنگ کی ہو۔ صدر رئیسی تہران سے تقریباً 600 کلومیٹر شمال مغرب میں آذربائیجان کی سرحد پر واقع شہر جولفہ کے قریب سفر کر رہے تھے۔ دھند کی وجہ سے وہ پہلے راستہ بھٹک گیا اور پھر نامعلوم وجوہات کی وجہ سے تباہ ہوگیا۔
رئیسی، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے ساتھ سرحد پر ایک ڈیم کے افتتاح میں حصہ لے رہے تھے۔ جہاں ہیلی کاپٹر گرا ہے، وہ خدافرین ڈیم سے تقریباً 80 میل کے فاصلہ پر ہے۔
فی الحال نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے ہیں۔ مگر آئین کی رو سے نئے صدر کا انتخاب 50 دنوں کے اندرکروانا ضرور ی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اچانک تبدیلی نے ایران کو سیاسی طور پر غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا ہے۔
ابراہیم رئیسی اپنے قدامت پسندانہ خیالات کہ وجہ سے سخت گیر دھڑے کے لیڈر مانے جاتے تھے۔ 2021 میں جب و ہ ملک کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے، تو گارڈین کونسل نے ان کا راستہ صاف کرنے کے لیے متعدد اصلاح پسند اور اعتدال پسند امیدواروں کو نااہل قرار دیا۔
بطور ایک مصنف رئیسی کو 1988 کے متنازعہ عدالتی کمیشن میں اپنے کردار اور پھر 2002 میں حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ایک خاتون مہسا امینی کی حراستی موت کے بعد برپا تشدد کو بزور طاقت دبانے کی وجہ سے کافی عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ مظاہرے اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کے سب سے بڑے اور طویل ترین مظاہروں میں سے تھے، جس میں مغربی میڈیا کے مطابق 500 سے زیادہ مظاہرین ہلاک اور سینکڑوں زخمی، لاپتہ، یا حراست میں لیے گئے۔
رئیسی کے دور صدارت کا سب سے بڑا کارنامہ 2023 میں چین کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال کر نا تھا۔ سعودی عرب اور ایران کی باہمی چپقلش نے کئی دہائیوں سے اسلامی دنیا کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا تھا۔ ان کے اس قدم نے مغربی ممالک خاص طور پر امریکی سفارت کاری کو ایسی مات دی کہ اس کی باز گشت کئی برسوں تک سنائی دیتی رہے گی۔
گو کہ امریکی خفیہ اداروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مکالمہ چل رہا تھا، مگر ان کو امید تھی کہ جوہری معاملات پر ایران کے سخت گیر رویہ کی وجہ سے یہ تعلقات اتنی جلدی معمول پر نہیں آئیں گے۔
ان کی قیادت میں، ایران نے یورینیم کی افزودگی جاری رکھی، جس سے مغرب کے ساتھ کشیدگی بڑھ گئی۔ تاہم، رئیسی نے عرب ممالک کو رام کردیا۔ اس مفاہمت نے یمن میں امن مذاکرات کی راہیں کھول دیں، جہاں دونوں ممالک متحارب گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق رئیسی نے خارجہ امور میں عملیت پسندی کو اپنایا۔ سعودی عرب کے ساتھ مفاہمت نے دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کی راہیں کھول دیں۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نومبر میں، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے دوران، شام کے صدر بشار الاسد اور رئیسی دونوں نے ریاض میں عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی، جس میں اسرائیل کے خلاف مزید تعزیری اقدامات کی وکالت کی گئی۔
رئیسی کی قیادت میں، ایران نے ممکنہ امریکی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے چابہار بندرگاہ کے معاہدے کو سرد خانہ سے نکال کر اس کا ایک ٹرمینل باضابطہ ہندوستان کے حوالے کر دیا۔ دونوں ممالک نے حال ہی میں اس اسٹریٹجک بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے کے لیے 10 سالہ معاہدے پر دستخط کیے۔ ہندوستان شہید بہشتی ٹرمینل کو اپنی تحویل میں لے گا اور اس کو جدید ترین بنانے کے لیے 120 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس کے ساتھ بندرگاہ میں متعلقہ منصوبوں کے لیے 250 ملین ڈالر کی اضافی قرض کی سہولت فراہم کی جائے گی، جس سے معاہدے کی مالیت $370 ملین ہو جائے گی۔
اپریل میں رئیسی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان جنوری میں سرحدی کشیدگی اس وقت بڑھ گئی تھی جب ایران نے سرحد پار سے پاکستان میں فضائی حملے کیے تھے جس میں دو بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ حملہ مسلح گروپ جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایرانی علاقے میں میزائل داغا اور تہران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق ان حملوں کے فوراً بعد ہی رئیسی کی ایما پر ایرانی وزیر خارجہ تناؤ کو ختم کرنے کے لیے اسلام آباد آنا چاہتے تھے۔ مگر پاکستان نے ان کو انتظار کر نے کے لیے کہا، کیونکہ عوامی پوسچرنگ کے لیے ان کو جوابی کارروائی کرنی تھی۔ رئیسی کے دورہ سے جلد ہی تعلقات دوبارہ پٹری پر آگئے۔
اسی طرح اگست 2023 میں انہوں نے ایران اور امریکہ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی منظوری دی۔ جس کی وجہ سے کوریا میں منجمد چھ بلین ڈالر تک ایران کی رسائی ہوگئی۔ اکتوبر میں جب حماس نے اسرائیل کی طرف سے بنائی گئی سرحدوں کوعبور کر کے کئی فوجی ٹھکانوں پر یہودی بستیوں پر حملہ کیا، تو کئی ممالک نے ایران کو مالی اور فوجی امداد و ٹریننگ فراہم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ مگر چند دن بعد، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اس کے ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں۔
اس دوران اسرائیل نے ایران کو اس قضیہ میں شامل کرنے کی بھر پور کوشش کی، تاکہ ایران کو روکنے کے نام پر مغربی ممالک اور امریکہ بھی اس جنگ میں شامل کر ایک تو اس کا دائرہ وسیع کیا جائے، تو دوسری طرف دنیا کی توجہ غزہ سے ہٹ جائے۔ مگر رئیسی نے یہ دال گلنے نہیں دی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جب اسرائیل نے ایران کے دمشق میں موجود سفارت خانے کو نشانہ بنایا، اس کا جواب بھی خاصی دانشمندی سے دیا گیا۔ اسرائیل کو وارننگ بھی ملی، مگر جنگ کے دائرہ کو وسیع کرنے کا جوا ز بھی نہیں دیا گیا۔ فلسطین کے مزاحمتی گروپوں کی ایران کی مسلسل پشت پناہی نے مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا کی سڑکوں پر اس کا اثر و رسوخ بڑھا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے مصر جیسے کئی دیگر عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے عوامی سطح پر آگے آنے پر مجبور ہونا پڑا۔
رئیسی کی موت سے یہ سوالات کھڑے ہوگئے ہیں کہ اب ایران کے 85 سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانشینی کون کرے گا، جو ملک کے سب سے طاقتور شخص ہیں۔ جس طرح ان کو صدر بنایا گیا، اس سے لگتا تھا کہ ان کو اس پوسٹ کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
آئین کے مطابق ماہرین کی 88 رکنی اسمبلی سپریم لیڈر کے جانشین کا انتخاب کرتی ہے۔ تاہم، خود اسمبلی کے ارکان کو ایران کی گارڈین کونسل کے ذریعے پہلے جانچا جاتا ہے، جو کہ ایک طاقتور 12 رکنی ادارہ ہے جو انتخابات اور قانون سازی کی نگرانی کرتا ہے۔
ویسے تو ممکنہ جانشینوں کی فہرست کو انتہائی خفیہ رکھا گیا ہے۔ فروری کے اوائل میں ماہرین کی اسمبلی کے ایک سینئر رکن محمد علی موسوی جزائری نے اس کو خفیہ رکھنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھاکہ ممکنہ امیدوارں کو ایران کے دشمنوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
مگر ذرائع کے مطابق موجودہ سپریم لیڈر کے بیٹے مجتبیٰ خامنہ ای، آیت اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی اور صدر رئیسی کو خامنہ ای کے جانشین کے بطور شارٹ لسٹ کردیا گیا تھ
۔ماہرین کا کہنا ہے کہ رئیسی کی موت نے مسابقت کا میدان دیگر امیدواروں کے لیے اب آسان کر دیا ہے۔ 56 سالہ عالم دین مجتبی خامنہ ای طاقتور اسلامی انقلابی گارڈ کور (آئی آر جی سی) کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔
رئیسی اور ان کے رفقاء کی بے وقت موت نے ایران کو ایک گہری سیاسی غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے میں ایران کے نئے لیڈروں کی کامیابی مستقبل کے راستے کا تعین کرے گی، جو آنے والے برسوں کے لیے مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاسی حرکیات کو تشکیل دے گی۔