بک ریویو: کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے ملزمان میں کمیونسٹ بھی شامل ہیں ۔ صاحب کتاب نے راجیہ سبھا میں بھی کانگریس کی نمائندگی کی لیکن کانگریس کے اندر فرقہ پرستی کا جو زہر پھیل رہا تھا وہ اسے نظر انداز نہیں کر سکے اور ایک سچے مؤرخ کی طرح انہوں نے حقائق سامنے رکھ دیے ۔
ہندوستان کی سیاسی تاریخ دلچسپ بھی ہے اور آنکھیں کھولنے والی بھی ۔ اور جب یہ تاریخ ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی جیسی غیر جانبدار شخصیت کے قلم سے تحریر ہوئی ہو تو دلچسپی دوچند ہو جاتی ہے اور آنکھیں صرف کھلتی ہی نہیں ہیں ، آنکھیں مارے حیرت کے کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں ۔ کم از کم ڈاکٹر صاحب مرحوم کی مختصر سی’میری سیاسی سرگزشت ‘پڑھ کر میرا حال تو کچھ ایسا ہی ہوا ہے ۔
ڈاکٹر صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد تھے ۔ سیاسیات پر ان کی کئی کتابیں اردو اور انگریزی دونوں ہی زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں ۔ انگریزی زبان میں ان کی خود نوشت
دی لائف اینڈ ٹائمس آف اے مسلم نیشنلسٹ کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہو چکی ہے ۔ امید ہے کہ کوئی اردو زبان میں اس کا ترجمہ کرے گا ۔
سیاسیات کے موضوع سے ڈاکٹر صاحب کو بچپن ہی سے لگاؤ تھا ، اس کی وجہ ملک کے اس وقت کے حالات تو تھے ہی ، گھر کا ماحول بھی اس کا ایک بڑا سبب تھا ۔ ڈاکٹر صاحب مولانا عبدالماجد دریابادی کے سگے بھتیجے تھے ۔ مرتب ڈاکٹر سلیم قدوائی ، جو صاحبِ کتاب کے صاحبزادے ہیں ، پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ؛
ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی نے جس زمانے میں ہوش سنبھالا وہ ملک کی تاریخ کا ایک نہایت ہنگامی اور پرآشوب دور تھا ۔…غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف نفرت کا لاوا ابل رہا تھا ۔ غیر معمولی طور پر حساس ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی اپنے گردوپیش کے ماحول سے نہ تو بے خبر رہ سکتے تھے اور نہ ہی ان واقعات و حادثات کو نظر انداز کر سکتے تھے ۔
پردادا مفتی مظہر کریم 1857 کے مجاہد آزادی تھے ، چچا مولانا عبدالماجد دریابادی چوٹی کے لیڈر تھے ، مولانا محمد علی جوہر کا گھر پر آنا جانا تھا ، تحریک خلافت آزادی کے تذکرے گھر میں ہوتے تھے ، اخباربینی گھٹی میں اور’ سیاست میں دلچسپی محمد ہاشم قدوائی کے خمیر میں شامل تھی ،’ لہٰذا زمانہ طالب علمی سے ہی عملی سیاست میں شامل ہو گئے تھے ۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنے دور کے سیاسی حالات کا مشاہدہ بھی کیا اور تجزیہ بھی ۔ کتاب میں دلچسپ انداز میں ملک بھر کے طلباء کی انگریز مخالف جدوجہد کا تذکرہ کیا گیا ہے ، اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ طلبا کیسے مسلم ، ہندو اور کمیونسٹ گروپوں میں تقسیم تھے ، اور کیسے یہ ملک کی آزادی کی تحریک کے لیڈران کے دست و بازو بنے ہوئے تھے ۔
اپنی کتاب کی رونمائی کے موقع پر ہاشم قدوائی محمد حامد انصاری کے ہمراہ ۔ فوٹوکریڈٹ: علی گڑھ موومنٹ
اور کیسے ان کے الگ الگ نظریات ایک دوسرے سے الجھنے کا سبب بنتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب خود کو قوم پرور مسلمان کہتے تھے اور لکھنؤ میں تعلیم کے حصول کے دوران انہوں نے یونیورسٹی میں نیشنلسٹ مسلم طلباء کی ایک یونین کا قیام بھی کیا تھا ۔ اس کے قیام کا مقصد ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی کے اپنے لفظوں میں ملاحظہ فرمائیں؛
اس زمانے میں اپنے ہم خیال مسلم طلبا سے گفتگو کرنے کے بعد میں نے ایک نیشنلسٹ مسلم اسٹوڈنٹس یونین کے نام سے تنظیم قائم کی ۔ اس جماعت کے قیام کا مقصد مسلم طلباء میں سیاسی شعور پیدا کرنا تھا اور انہیں مسلم لیگ کی غلط اور نقصان دہ پالیسیوں اور تقسیم ملک کی مضرتوں سے آگاہ کرنا تھا تاکہ ان میں سچی ہندوستان قوم پروری کا جذبہ بیدار ہو ۔
اس یونین نے محمد علی جناح کو کانگریس اور گاندھی جی سے گفت و شنید کے آعاز کے لیے تار بھی بھیجا تھا ۔ اس یونین کے مقابل مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی ، جو مسلم لیگ اور جناح کی حامی تھی، ان دونوں کے درمیان مقابلہ آرائی رہتی تھی ۔ کتاب میں ایک ایسے واقعے کا ذکر کیا گیا ہے جو ڈاکٹر صاحب کے بقول اگر نہ ہوا ہوتا تو شاید ملک کے حالات میں فرقہ پرستی کا زور نہ بڑھتا ۔
صوبہ جاتی اسمبلیوں کے 1936 کے چناؤ کے موقع پر کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان ایک طرح کی انتخابی مفاہمت ہو گئی تھی ، کوئی تحریری معاہدہ نہیں تھا لیکن سوائے ایک آدھ مسلم سیٹ کے دونوں کے درمیان کہیں مقابلہ نہیں ہوا ۔ دونوں ہی پارٹیوں نے متحد ہو کر زمیندار پارٹی کا مقابلہ کیا تھا ۔
مسلم لیگ کا مطالبہ تھا کہ اگر اگر چھ وزیروں پرمشتمل وزارت ہو تو اس کے دو نمائندے لیے جائیں اور اگر وزراء کی تعداد 9 ہو تو اس کے تین نمائندے لیے جائیں ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ؛
اگر وزارت سازی کا معاملہ صرف مولانا ابوالکلام آزاد کے ہاتھ میں ہوتا تو یوپی میں کانگریس اور مسلم لیگ کی مخلوط حکومت بن جاتی لیکن یوپی پنڈت جواہر لعل نہرو صدر کانگریس کا صوبہ تھا اور یوں بھی صدر کی مرضی و منشا کے خلاف کوئی بات ہو بھی نہیں سکتی تھی ۔ پنڈت جی اس کے لیے تیار نہ ہوئے کہ وزارت میں مسلم لیگ کے دو نمائندے لیے جائیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ پنڈت جی ان دنوں کمیونسٹ لیڈروں کے زیر اثر تھے جنہوں نے مسلم لیگ کا مطالبہ قبول نہ کرنے کا انہیں مشورہ دیا اور پنڈت جی نے مولانا آزاد کی بات نہ مانی ۔ نتیجتاً دونوں ہی پارٹیوں کے درمان اختلافات شدید سے شدید تر ہوئے اور ڈاکٹر صاحب کے بقول ؛
سارے ملک میں کانگریس اور مسلم لیگ کشیدگی نے ہندو مسلم کشیدگی ہی کی نہیں بلکہ منافرت کی شکل اختیار کر لی ۔
ڈاکٹر صاحب نے دلچسپ انداز میں مسلم لیگ کے پاکستان کے قیام کے مطالبے کا اور کمیونسٹوں کے ذریعے اس مطالبے کی حمایت کا ذکر کیا ہے ۔ کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قیام پاکستان کے ملزمان میں کمیونسٹ بھی شامل ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب قوم پرور مسلمان تھے اور آخر دم تک پکے کانگریسی رہے، راجیہ سبھا میں بھی کانگریس کی نمائندگی کی لیکن کانگریس کے اندر فرقہ پرستی کا جو زہر پھیل رہا تھا وہ اسے نظر انداز نہیں کر سکے اور ایک سچے مؤرخ کی طرح انہوں نے حقائق سامنے رکھ دیے ۔ ایک جگہ، لکھنؤ کے کانگریس کے 1936 کے عام اجلاس میں شرکت کے بعد ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ؛
اس کانفرنس میں مجھے دو چیزوں کا شدت سے احساس ہوا کہ کانگریس والے اردو کے ساتھ سوتیلا سلوک کر رہے ہیں اور دوسرا یہ کہ مسلمان اس کانفرنس میں بہت کم تعداد میں شریک ہوئے تھے ۔
ایک جگہ مزید وضاحت کے ساتھ تحریر کرتے ہیں کہ ؛
بدقسمتی سے کانگریسی وزیروں کے قیام کے ساتھ احیاء ہندویت کو بڑا فروغ حاصل ہوا ۔ ان وزارتوں نے بھی مذہبی احیاء ہندویت کے جذبے کے تحت کام کیے ۔ مثلاً یوپی میں اسکولوں کا نام ودیا مندر رکھا گیا ۔ بندے ماترم جس کے بعض حصے مسلمانوں کے لیے دل آزار تھے سرکاری تقریبوں کے آغاز میں گایا جانے لگا ۔ سنسکرت آمیز ہندی کو عملاً سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا اور اردو کے ساتھ برابر ہے انصافی کی جانے لگی ۔ نصابی کتابوں میں ہندی دیومالا کو نمایاں جگہ دی گئی، ان باتوں سے مسلمانوں میں کانگریس کے متعلق بے زاری بڑھنے لگی ۔
ڈاکٹر صاحب نے کانگریس کے ایک اور مرض کو اجاگر کیا ہے، مسلمانوں کو الیکشن میں کم ٹکٹ دینے کا مرض ۔ 1937 کے الیکشن میں رفیع احمد قدوائی، یونس امام اور قاضی عبدالطیف کانگریس کے امیدوار تھے مگر کانگریس انہیں جتوا نہیں پائی ۔
کتاب میں کئی دلچسپ واقعے ہیں مثلاً علامہ عنایت اللہ مشرقی، جو خاکسار تحریک کے بانی تھے، کا لکھنؤ شیعہ سنّی مفاہمت کے لیے آنے اور ہنگامے کرکے شہر کی فضا کو کشیدہ کرنے اور اس وقت کے یو پی کے کارگزار وزیراعلیٰ رفیع احمد قدوائی کی کارروائی پر بھیگی بلی بن کر معافی مانگنے کا واقعہ ۔ جناح اور نہرو کا ایک ہی اسٹیج پر آنے اور طالب علموں کو آٹو گراف دینے کا واقعہ ۔ ساتھ ہی یہ کتاب اُس دور کے سماجی اور تہذیبی حالات پر بھی روشنی ڈالتی ہے ۔
ڈاکٹر سلیم قدوائی نے بڑی محنت سے اسے مرتب کیا ہے جس کے لیے وہ شکریہ کے مستحق ہیں ۔ مسودہ کے شکستہ اور بوسیدہ ہونے کے باوجود انہوں نے کوشش کی ہے کہ غلطیاں نہ ہونے پائیں لیکن کچھ غلطیاں در آئی ہیں ،مثلاً ایک جگہ ضمنی انتخاب کو حتمی انتخاب لکھ دیا گیا ہے، دو جگہ مینی فیسٹو کی جگہ فنڈ لکھا گیا ہے، امبیڈکر کی جگہ امبیاٹکر ہو گیا ہے، ایک جگہ مولانا ظفر علی خان کو طنز علی خان لکھ دیا گیا ہے ۔
کئی جگہ جملے غیر مربوط ہو گئے ہیں انہیں درست کیا جاسکتا ہے ۔ امید ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں یہ غلطیاں درست ہو جائیں گی ۔ کتاب اردو بک ریویو نے بہت دیدہ زیب چھاپی ہے، کاغذ سفید اور قیمت مناسب ترین ہے ۔ کتاب میں ڈاکٹر صاحب کی مختلف مواقع کی تصویریں بھی ہیں جن سے کتاب کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔