امریکہ الیکشن : ٹرمپ کی دوبارہ جیت پر مختلف سربراہان مملکت کے ردعمل کے کیا معنی ہیں ؟

04:00 PM Nov 20, 2024 | شروتی شرما

ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت پر دنیا بھر کے رہنماؤں کے پیغامات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں دنیا کس سمت جا سکتی ہے۔

ڈونالڈ ٹرمپ پی ایم مودی کے ساتھ۔ (فائل فوٹو: X/@narendramodi)

نئی دہلی: امریکہ میں ایک بار پھر ڈونالڈ ٹرمپ کی سرکار ہے ۔ 6 جنوری 2020 کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا کے سب سے طاقتور  ملک میں ٹرمپ کا سیاسی سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ہے۔  ٹرمپ کی شکست کے بعد ریپبلکن پارٹی کے شدت پسند حامیوں کی کیپیٹل بلڈنگ کے اندر ہنگامہ آرائی کو امریکہ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا گیا۔ یہ کسی نے بھی سوچا نہیں تھا کہ ٹرمپ کو اب ملک کے اعلیٰ ترین عہدے کی امیدواری  کا موقع ملے گا۔

لیکن امریکہ میں ریپبلک پارٹی دوبارہ برسراقتدار آ گئی ہے، ایک بار پھر ملک کی کمان ٹرمپ کے ہاتھوں  میں ہے۔

امریکہ میں 5 نومبر کو انتخابات ہوئے۔ جیت کے لیے 270 کا ہندسہ درکار تھا، ٹرمپ کو 295 جبکہ ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس کو 226 سیٹیں ملیں۔

امریکہ کا الیکشن اس بار اس لحاظ سے  اہم تھا کہ یہ عالمی امن کی سمت کا تعین کر سکتا ہے۔ انتخابات کے نتائج روس‘ یوکرین‘ اسرائیل‘ فلسطین سمیت مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ کی جیت پر دنیا بھر کے رہنماؤں کے پیغامات اس بات کی طرف اشارہ  کرتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں دنیا کس سمت  جا سکتی ہے۔

ٹرمپ کی جیت پر کس نے کیا کہا؟

ٹرمپ کی جیت کے بعد دنیا بھر کے رہنما انہیں مبارکباد دے رہے ہیں۔ ہندوستان کے  وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ٹرمپ کی جیت اچھی خبر ہے۔ پی ایم مودی ٹرمپ کو اپنا دوست کہتے ہیں، وہیں  امریکہ کے نو منتخب صدر بھی اکثر پی ایم مودی کی تعریف کرتے ہیں اور انہیں اپنا دوست کہتے ہیں۔

ٹرمپ کی جیت کے بعد پی ایم مودی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ‘میرے دوست ڈونالڈ ٹرمپ کو ان کی تاریخی انتخابی جیت پر دلی مبارکباد۔ جیسا کہ آپ اپنی پچھلی میعاد کی حصولیابیوں کو آگے بڑھا ئیں گے، میں ہندوستان اور امریکہ کی عالمی اور اسٹریٹجک شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اپنے باہمی تعاون کی تجدید کے لیے پرجوش ہوں۔ آئیے …ہم مل کر اپنے لوگوں کی بھلائی اور عالمی امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے کام کریں۔’

اس کے بعد پی ایم مودی نے ایک اور پوسٹ میں بتایا کہ انہوں نے ٹرمپ کو فون کرکے ان کی جیت پر مبارکباد دی۔

مودی نے لکھا، ‘میرے دوست ٹرمپ کے ساتھ اچھی بات ہوئی، انہیں ان کی شاندار جیت  پر مبارکباد دی۔ ٹکنالوجی، دفاع، توانائی، خلائی اور دیگر کئی شعبوں میں ہندوستان-امریکہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک بار پھر مل کر کام کرنے کو لے کر پر جوش ہوں۔’

ٹرمپ کی جیت ہندوستان اور پی ایم مودی کے لیے اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس کا براہ راست اثر ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر پڑ سکتا ہے۔ ٹرمپ کے  گزشتہ دور حکومت میں روس کے تئیں ان کے رویہ کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روس کے ساتھ ہندوستان کے مضبوط تعلقات کی وجہ سے امریکہ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

واضح ہو کہ اس سال نریندر مودی کی روسی صدر پوتن سے ملاقات امریکی صدر جو بائیڈن کو ناگوار گزری تھی ۔

دوسری جانب یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکہ کینیڈا اور ہندوستان  تنازعہ  کے حوالے سے کینیڈا کے ساتھ اتنی  مضبوطی  سے ‘نہیں کھڑا ہو گا۔’

تاہم ٹرمپ کی جیت کے بعد کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ٹوئٹ کرتے ہوئے ٹرمپ کو مبارکباد دی اور لکھا کہ ،’ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکہ کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد ۔ کینیڈا اور امریکہ کی دوستی دنیا کے لیے باعث’ رشک’ ہے۔ صدر ٹرمپ اور میں اپنے دونوں ملکوں کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع، خوشحالی اور سلامتی کے لیے مل کر کام کریں گے۔’

ماضی میں دیکھا جائے  تو ٹرمپ اور ٹروڈو کے تعلقات خوشگوارنظرنہیں آتے ۔ ایک وقت میں ٹرمپ نے ٹروڈو کو ‘شدت پسند لیفٹسٹ سنکی’ کہا تھا۔ اور سال 2019 میں ناٹو رہنماؤں کے اجلاس میں کینیڈین وزیراعظم ٹرمپ کا مذاق اڑاتے نظر آئے تھے۔

ہندوستان اس بات پر نظر رکھے گا کہ ٹرمپ اپنی دوسری میعاد کے دوران کینیڈا کے ساتھ اپنے تعلقات کیسے برقرار رکھتے ہیں۔

ڈونالڈ ٹرمپ کو جیت پر مبارکباد دیتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ایکس پر لکھا، ‘تاریخ کی سب سے بڑی واپسی پر مبارکباد۔ وہائٹ ہاؤس میں آپ کی تاریخی واپسی امریکہ کے لیے ایک نئی شروعات اور اسرائیل اور امریکہ کے عظیم اتحاد کے لیے ایک مضبوط عزم فراہم کرے گی۔  یہ ایک بہت بڑی فتح ہے۔’

فلسطین پر مسلسل حملے کرتا اسرائیل ایران اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کے ساتھ جنگ کے دہانے پر ہے ۔ جو بائیڈن کی قیادت میں امریکی حکومت نے ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کی ہے، لیکن نیتن یاہو کے ساتھ بائیڈن کے تعلقات اتار چڑھاؤ سے بھرے رہے ہیں۔ فلسطینی شہریوں کے مصائب کا حوالہ دیتے ہوئے بائیڈن نے دھمکی دی تھی کہ اسرائیل کو امریکہ سے مل رہی  فوجی امداد کو کم کر دے گا۔

بائیڈن حکومت نے اسرائیل کو ایک خط بھیج کر مطالبہ کیاتھا کہ وہ اگلے 30 دنوں کے اندر غزہ میں انسانی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے، بصورت دیگر وہ غیر ملکی فوجی امداد کو کنٹرول کرنے والے امریکی قوانین کی خلاف ورزی کا جوکھم اٹھائے گا اور امریکی کی جانب سے دی جا رہی فوجی مدد  خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

ایسے میں نیتن یاہو کو اپنے پرانے اتحادی کی اقتدار میں واپسی سے مثبت توقعات ہوں گی۔ ٹرمپ ایران اور فلسطین کے معاملےمیں اسرائیل کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے نظر آ سکتے ہیں۔ اس کا براہ راست اثر مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر پڑ سکتا ہے۔

روس یوکرین جنگ

ڈونالڈ ٹرمپ کی واپسی کا سب سے زیادہ اثر روس یوکرین جنگ پر پڑ سکتا ہے۔ امریکی اقتدار  میں تبدیلی یوکرین کے لیے تشویش کا باعث بن سکتی ہے۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ ٹرمپ روس کے ساتھ امن مذاکرات پر اصرار کریں گے، اور یوکرین کو دی جانے والی مالی اور فوجی امداد میں کمی کر دیں گے۔

تاہم، ٹرمپ کی جیت کے بعد یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے انہیں مبارکباد دینے میں وقت ضائع نہیں کیا، انہوں نے ایکس  پر ایک طویل پوسٹ لکھ کر ٹرمپ کو مبارکباد دی۔ عالمی امن کے لیے ٹرمپ کے ‘عزم’ کا ذکر کیا، اور اس سال کے شروع میں ان کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کیا، جہاں انھوں نے ٹرمپ سے یوکرین-امریکہ کی شراکت داری اور یوکرین پر روس کے حملے کو ختم کرنے کے بارے میں بات کی تھی۔

ایک اور پوسٹ میں زیلنسکی نے کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کو فون کیا اور ان کی جیت پر مبارکباد دی۔

نارتھ اٹلانٹک ملٹری الائنس (ناٹو) کے سکریٹری جنرل مارک روٹ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا ، ‘میں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو صدر منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ ان کی قیادت ایک بار پھر ہمارے اتحاد (ناٹو) کو مضبوط بنائےرکھنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ میں ان کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرجوش ہوں۔’

تاہم، اپنی پہلی مدت کے دوران ٹرمپ ناٹو کے سخت ناقد تھے، اور اس کے دیگر ارکان پر امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اس سال کے شروع میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ ناٹو کے ان ارکان کا دفاع نہیں کرے گا جو دفاعی اخراجات کے اہداف کو پورا نہیں کرتے۔

اے پی نیوز کے مطابق، ٹرمپ چاہتے ہیں کہ یورپی اتحادی امریکہ پر انحصار کم کرتے ہوئے اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کریں۔

ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کہا، ‘نو منتخب صدر ٹرمپ کو ان کی تاریخی انتخابی جیت پر مبارکباد۔ میں آنے والے سالوں میں آپ کے ساتھ کام کرنے کے لیے پرجوش  ہوں۔ قریبی اتحادیوں کے طور پر، ہم آزادی اور جمہوریت کی اپنی مشترکہ اقدار کے دفاع میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ یو کے اور یو ایس  تعلقات آنے والے سالوں تک بحر اوقیانوس کے دونوں اطراف میں ترقی کرتے رہیں گے۔’

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے بدھ (6 نومبر) کو ڈونالڈ ٹرمپ کو امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی ۔ یونس نے ایک خط میں کہا، ‘بنگلہ دیش اور امریکہ کئی شعبوں میں دوستی اور تعاون کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔’

یونس نے اپنے خط میں کہا، ‘ایک پرامن اور جامع معاشرے کے لیے ہمارے عزم کے مطابق، بنگلہ دیش کی حکومت اور اس کے امن پسند لوگ امن، ہم آہنگی، استحکام اور خوشحالی کے لیے عالمی مسائل  سے نمٹنے کے لیے آپ کی کوششوں میں آپ کے ساتھ شراکت اورتعاون کے لیے منتظر ہیں۔’

واضح ہو کہ امریکی صدارتی انتخابات سے چند روز قبل 31 اکتوبر کو ٹرمپ نے ایکس  پر ایک طویل پوسٹ میں بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر ہو رہےحملوں کی مذمت کی تھی۔ ٹرمپ کا یہ تبصرہ بین الاقوامی امور پر ان کے چند تبصروں میں سے ایک تھا۔

ٹرمپ نے لکھا تھا، ‘میں بنگلہ دیش میں ہندوؤں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف وحشیانہ تشدد کی شدید مذمت کرتا ہوں، جن پر ہجوم کے ذریعے حملہ اور لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال مکمل انارکی کی حالت ہے۔’

ٹرمپ مزید لکھتے ہیں،’یہ میری نگرانی میں  کبھی نہیں ہوتا۔ کملا اور جوبائیڈن  نے پوری دنیا اور امریکہ میں ہندوؤں کو نظرانداز کیا ہے۔’