جہاں ساری دنیا کو اس بات کا احساس جلدہی ہو گیا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک قابل اعتماد ساتھی نہیں ہے، نریندر مودی نے اس کے باوجود ہندوستان کے واشنگٹن سے رشتے مضبوط کئے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کی قیمت کیا ہوگی۔
ان کے دوستانہ رشتے-جس کا تذکرہ ایک وقت پوری دنیا میں تھا-کے پھیکے پڑنے کے اشارے پہلے سے ملنے لگے تھے، لیکن اب یقیناً امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا رشتہ ایک فیصلہ کن نقطہ پر پہنچ چکا ہے۔سوموار کو ٹرمپ کا یہ کہنا کہ پاکستان کے ساتھ کشمیر مسئلے کو سلجھانے کے لئے مودی نے ان کی مدد مانگی تھی، ہندوستانی خارجہ پالیسی کی نظر سے دیکھیں، تو تقریباً پیٹھ میں چھرا گھونپنے جیسا تھا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ٹرمپ سچ بول رہے تھے، باتیں بنا رہے تھے یا محض تذبذب میں تھے۔
اس بات کو سنبھالنا اس لئے اور مشکل ہے کیونکہ ٹرمپ نے یہ بات پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ اس بیان پر ہندوستان کی سرکاری طور پرکی گئی تردیداندازہ کے مطابق ہی آئی اور اس سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو فوری طور پر تھوڑا سیاسی نقصان اٹھانا پڑےگا۔لیکن مودی اور ان کے صلاح کاروں کی اس تکلیف کا کوئی فوری علاج نہیں ہے، جو وہ ٹرمپ پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے محسوسکر رہے ہوںگے-وہی بھروسہ جس کی وجہ سے ایران اور وینزویلا سے لےکر ایشیا اور سمندری علاقے کی حدبندی کو ہندوستانی خارجہ پالیسیوں کو واشنگٹن کے مطابق لایا گیا۔
ٹرمپ نے کبھی چھپایا نہیں کہ ان کے لئے امریکہ کے مفادات (امریکہ فرسٹ) پہلے ہیں۔ حیرانی کی بات وہ تیزی تھی، جس سے ‘ انڈیا فرسٹ ‘ پر یقین کا دعویٰ کرنے والے ان کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کا وہ معصومانہ اعتماد کہ اس عمل میں کسی نہ کسی طرح ہندوستانی مفادات کو دھیان میں رکھا جائےگا۔چلیے، ٹرمپ کے بیان کے اس پورے واقعے پر ایک بار نظر ڈالتے ہیں اور پھر تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ ہمیں مودی کی حکومت میں ہندوستان-امریکہ تعلقات اور ان کے مستقبل کے بارے میں کیا بتاتے ہیں۔
واشنگٹن میں ٹرمپ نے جی-20 کانفرنس کے موقع پر اوساکا میں مودی سے ملنے کو لےکر چونکانے والا دعویٰ کیا :
میں دو ہفتہ پہلے وزیر اعظم مودی کے ساتھ تھا ہم نے اس موضوع پر بات کی۔ اصل میں انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ثالث یا آربٹریٹر (پنچ) بننا پسند کروںگا۔ میں نے پوچھا کہاں؟ تو انہوں نے کہا کشمیر، کیونکہ یہ مسئلہ سالوں-سال سے چلا آ رہا ہے۔ میں یہ جانکر حیران تھا کہ یہ کتنے سالوں سے چلا آ رہا ہے۔
جب عمران خان نے ان سے ‘ ثالث بننے اور اس مسئلے کو سلجھانے ‘ کی درخواست کی، تب ٹرمپ نے کہا، ‘ میں اس بارے میں ان سے [مودی سے] بات کروںگا اور دیکھوںگا ہم اس بارے میں کیا کر سکتے ہیں۔ ‘ ہندوستانی وزارت خارجہ کے ذریعے اس دعویٰ کو مسترد کردیا گیا، وزارت کے ترجمان نے اپنے ٹوئٹ میں صاف کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے امریکی صدر سے ایسی کوئی گزارش نہیں کی گئی ہے۔
ایسے میں چار امکانات بنتے ہیں-پہلا کہ ٹرمپ جان بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ دوسرا، ٹرمپ خیالوں میں رہنے والے شخص ہیں، جو بنا کسی بنیاد کے مودی کے ساتھ اپنی مبینہ بات چیت کے بارے میں بول رہے ہیں۔تیسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ اوساکا میں مودی اور ٹرمپ کے درمیان کوئی بڑی غلط فہمی ہوئی ہو۔ اور چوتھا یہ کہ ہندوستانی فریق کے ذریعے سچ نہیں بتایا جا رہا۔
ان تمام اختیارات میں سے میں چوتھے کو خارج کرنے کو تیار ہوں کیونکہ کسی بڑی طاقت کے ذریعے ثالثی کرنے کا ہندوستانی اقتدار کی مخالفت نہ صرف اعتماد کا مسئلہ ہے، بلکہ عملی سیاست کی ضرورت بھی ہے۔مودی اور ان کے صلاح کار بھلےہی ‘ لٹینس ‘ کی رائے سے اختلاف رکھتے ہوں، لیکن یہ سوچنا مشکل ہے کہ وہ خود کو اس غفلت میں مبتلا کریںگے کہ کشمیر کو لےکر اتنی طویل مدت سے چلے آ رہے اپنے اسٹینڈ کو بھولکر ٹرمپ کو اس میں شامل کرنے سے کوئی فائدہ ہوگا۔
اس کے بعد بھی تین اختیارات بچتے ہیں۔ ‘ غلط فہمی ‘ ان میں سب سے اچھا ہے لیکن پھر اس سے کئی عالمی سطح پر مودی کے ٹرمپ کے گلے لگنے کے اثر اور ان کی سمجھداری کو لےکر سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے۔ٹرمپ کے بیان کے بعد اقوام متحدہ امریکہ کی اسسٹنٹ سکریٹری آف اسٹیٹس ایلس ویلس نے ایک چھوٹا سابیان جاری کیا کہ ‘ حالانکہ کشمیر دو فریقوں کے درمیان کا دو طرفہ مدعا ہے، ٹرمپ انتظامیہ اس خیال کا استقبال کرتا ہے کہ ہندوستان-پاکستان ساتھ بیٹھیں اور امریکہ مدد کرنے کو تیار ہیں۔ ‘
اس سے ایسا لگ سکتا ہے کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنت اور وزارت خارجہ نے ٹرمپ کے بیان سے ہوئے نقصان کو کم کر دیا ہے، پر یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔اس پورے واقعہ سے ہندوستانی حزب کا ایک اصل مسئلہ سامنے آتا ہے : جہاں ساری دنیا کو اس بات کا احساس جلدہی ہو گیا تھا کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ ایک قابل اعتماد دوست نہیں ہے، مودی نے اس کے باوجود ہندوستان کے واشنگٹن سے تعلقات مضبوط کئے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کی قمیت کیا ہوگی۔
اگر ایک عالمی رہنما، جن کو مودی اتنی لگن سے مطمئن کرتے ہیں، کشمیر کو لےکر ہندوستان کے جگ ظاہر اسٹینڈ کے متعلق اتنے غیر جانب دار ہیں، تو یہ ہمیں مودی کے پرکھنے کی صلاحیت کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟
واضح طور پر کہیں تو، مودی نے وزیر اعظم بنتے ہی اسٹریٹجک ساجھےداری کو دو گنا کرنے کا عمل شروع کر دیا تھا، جب براک اوباما صدر تھے۔ اگست 2016 میں امریکہ کے ساتھ لاجسٹکس ایکس چینج میمورینڈم آف ایگریمنٹ (LEMOA) کا مطلب تھا کہ انہوں نے امریکی ملٹری طاقت کو اس خاص علاقہ میں ہندوستان کو استعمال کرنے کی اجازت دی۔یہ امریکہ کی ‘ ایشیا پیویٹ ‘(Asia Pivot) پالیسی کے ابھارکے دن تھے، جب امریکہ اور چین کے درمیان کولڈ وار کی آہٹ سنائی دے رہی تھی اور مودی اور ان کے صلاح کاروں نے بھولے پن میں یہ سوچ لیا کہ ایسے میں امریکہ کے ساتھ جاکر وہ سکیورٹی کو یقینی بنا سکتے ہیں ۔
گزشتہ ڈھائی سالوں میں جس طرح امریکہ کے قریبی معاون ایران کو لےکر امریکی پالیسی، کلائمیٹ چینج اور تجارت جیسے کلیدی مدعوں پر امریکی انتظامیہ کے رویے کو لےکر ہوشیار ہوئے ہیں، مودی اور شنجو آبے ہی شاید دو بڑے عالمی رہنما ہیں، جو ٹرمپ پر داؤ لگانے کو تیار ہیں۔پھر بھی جاپان نے فعال طور پر امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے، جبکہ ہندوستان دور سے حالات کو بگڑتے دیکھکر ہی مطمئن ہے۔
مغربی ایشیا میں ناپائیداری بڑھانے میں ٹرمپ کی حکومت والے امریکہ کے واضح ثبوتوں کے باوجود بھی مودی نے آگے بڑھکر کمیونی کیشن کمپیٹی بلٹی اینڈ سکیورٹی ایگریمنٹ (COMCASA) کرتے ہوئے ہندوستانی فوج کو امریکی وزارت دفاع کے اور قریب لا دیا۔
مودی اور ان کے صلاح کاروں کے ذریعے لگائے گئے تخمینہ میں بنیادی غلطی یہ تھی کہ ان کو لگا کہ نجی رشتوں سے ہندوستان کے لئے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں، جبکہ اس کے پیچھے چھپی حقیقت اس کے برعکس ہی اشارہ کرتی ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ مقصد کا پیچھا بھی اکثر غلط طریقے سے کیا گیا۔
مودی حکومت کی پہلے مدت کار میں ایس جئے شنکر، جو تب فارین سکریٹری تھے، نے مودی اور چین کے شی جن پنگ کے درمیان ایک تباہ کن اجلاس کروایا تھا، ان کو امید تھی کہ نیوکلیر سپلائرس گروپ (این ایس جی) میں ہندوستان کو شامل کرنے میں ان کو بیجنگ سے تعاون ملےگا۔اس حقیقت کے باوجود کہ اس وقت ہندوستان کو این ایس جی کی رکنیت ملنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، اس کو قومی ترجیح بنا دیا گیا، جس کا مقصد شاید گھریلو سیاست میں کسی طرح کا اشارہ دینا تھا۔
اس کا نتیجہ کیا ہوا : سالوں سے ہندوستان کو ذمہ دار اور پاکستان کو پرایا ثابت کرنے کے مقصد سے کی جا رہی نیوکلیر ڈپلومیسی تب ناکام ہو گئی جب بیجنگ کی طرف سے این ایس جی کی رکنیت کو لےکر ہندوستان اور پاکستان میں برابری کی بات کہی گئی۔
مسعود اظہر کا اقوام متحدہ (یو این) کے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونا بھی ایسا ہی ایک فریب تھا، جس کے لئے مودی 1.0 نے ضرورت سے زیادہ ڈپلومیٹک سرمایہ خرچ کیا۔ آخر میں ہوا یہ کہ ٹرمپ نے یہ بےمعنی کامیابی مودی کے نام تو کر دی، لیکن ایسا کرکے واضح طور پر یہ سوچا کہ اب ان کو ‘ ثالثی ‘ کرنے کی چھوٹ مل گئی۔
اس بارے میں پہلی جھلک انتخابی تشہیر کے دوران ملی تھی، جب ٹرمپ نے انڈین ایئر فورس کے پائلٹ ابھینندن ورتھمان، جن کے طیارےکو پاکستانی فوج نے مار گرایا تھا، کی قریبی رہائی کے بارے میں ٹوئٹ کیا تھا۔دوسری غلطی، جو مودی حکومت کر رہی ہے، وہ ان کا اس بارے میں صحیح اندازہ نہ کر پانا ہے کہ کس طرح اس کے ٹرمپ کی حکمت عملی-چاہے وہ ایران پر دباؤ بنانا ہو، روس کے ساتھ بڑھتی کشیدگی ہو یا چین کے ساتھ کولڈ وار کے ساتھ کھڑے ہونے – اصل میں اس علاقے میں پاکستان کو ہی مضبوط کیا ہے۔
ٹرمپ، جو دو سال پہلے تک پاکستان کو لےکر الگ راگ الاپ رہے تھے، ان کو اب احساس ہوا ہے کہ ایران اور افغانستان کو لےکر ان کی اسکیموں کے لئے امریکہ اور پاکستان کے نقطہ پر پائیداری کی ضرورت ہوگی۔ اصل میں یہی عمران خان کے امریکی دورے کا تناظر ہے اور ٹرمپ کی ثالثی کو لےکر دیا گیا بیان صاف طور پر اسی عمل کا نتیجہ ہے۔اس تنازعے کے ختم ہونے پر مودی اور ان کے صلاح کاروں کو دوبارہ شروع سے سوچنا چاہیے۔ امریکہ کے حق میں اتنے فیصلے لینا اور ماسکو، بیجنگ اور تہران سے اپنے رشتے کو اندیکھا کرنا سب سے بڑی غلطی تھی۔
ان سب کے علاوہ، پاکستان کو لےکر کوئی واضح اور منطقی پالیسی کی کمی نے جو صفر (ویکیوم) بنا دیا ہے، وہ ہندوستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ مودی کی قسمت اچھی ہے کہ دوسری مدت کار کی شروعات میں ہی ان کو خارجہ پالیسی میں تبدیلی کو لےکر یہ تنبیہ مل گئی۔ مودی کو اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔