یتی نرسنہانند کی صدارت میں 17 سے 21 دسمبر تک وشو دھرم سنسد ہونے جا رہی ہے۔ اس کی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام اسلام کے خاتمے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ کیا ہندو دھرم کا بذات خود کوئی وجود نہیں ہے کہ یہ لوگ مذہب کی متضاد تعریفیں پیش کر رہے ہیں؟
دھرم سنسد ویب سائٹ کا ہوم پیج۔ (کریڈٹ: worldreligiousconvention.org)
آج پوری دنیا تشدد کی زد میں ہے۔ ہندوستان بھی اس سے اچھوتا نہیں ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ اس تشدد کی بنیاد میں نام نہاد مذہب ہے۔ ہر ماہ ہندوستان میں کہیں نہ کہیں دھرم سنسد کا انعقاد کیا جا رہاہے، جس کی خبریں میڈیا کے توسط سے آپ تک پہنچتی رہتی ہیں۔ ہری دوار جیسی مقدس جگہ پر؛ جس کا ہندوؤں میں بہت احترام کیا جاتا ہے، دسمبر 2021 میں نام نہاد سنیاسی یتی نرسنہانند کے نفرت انگیز بیان پر چرچہ ہوا، مقدمے درج ہوئے اور کیا کیا ہوا، وہ سب جانتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ کچھ سنتوں نے سامنے آکر احتجاج کیا، اکھاڑہ پریشد کے صدر مہنت رویندر پوری نے بھی اس کی تنقید کی۔
اسی سال پیغمبر محمد کے بارے میں مہاراشٹر کے رام گری اور ڈاسنہ، غازی آباد، اترپردیش کے یتی نرسنہانند کےتوہین آمیز بیانات نے ہندوستانی میڈیا اور معاشرے کو تیس دنوں سے زیادہ عرصے تک ہلچل میں مبتلا رکھا۔ بنگال کی ترنمول کانگریس کے مسلم لیڈر کا بیان ہو یا بی جے پی لیڈر متھن چکرورتی کا بیان، انہوں نے بھی سماج میں تفرقہ پیدا کیا۔ آخر، ہم کہاں جا رہے ہیں؟
اس مہینے میں عالمی مذہبی کنونشن (وشو دھرم سنسد) 17 سے 21 دسمبر تک یتی نرسنہانند کی صدارت میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ ابھی تک وزارت داخلہ نے اجازت نہیں دی ہے۔ ہم اس کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ اس کا جواب اس دھرم سنسد کی ویب سائٹ پر ہے۔
جہاں واضح طور پرلکھا گیا ہے کہ یہ پروگرام اسلام کے خاتمے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندو دھرم کا بذات خود کوئی وجودنہیں ہے کہ یہ لوگ مذہب کی متضاد تعریفیں پیش کر رہے ہیں؟ درحقیقت یہ پولرائزیشن کا ایجنڈا ہے۔
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں مذہب، جو کہ انسانیت کو متحد کرنے کا ذریعہ ہونا چاہیے، کچھ خود غرض قوتوں کے لیے تقسیم کا وسیلہ بن چکا ہے۔ اس تناظر میں ہمارا اخلاقی فرض ہے کہ آپ کو عالمی مذہبی کانفرنس کے انعقاد کے پس پردہ ممکنہ خطرات اور اس سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کریں۔
اگر اس کانفرنس کا مقصد واقعتاً مذاہب کے درمیان مکالمے اور ہم آہنگی کو بڑھانا ہوتا تو یہ بات لائق تحسین ہوتی۔ لیکن یتی نرسنہانند کی سرگرمیاں بتاتی ہیں کہ اس کا ایجنڈا اور نتائج ہمارے سماج کے اتحاد اور امن کے لیےمضر ہو سکتے ہیں۔
اس قسم کی کانفرنس کو مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جیسا کہ یتی کے کئی پروگراموں میں ہوتا رہا ہے۔ اس میں کچھ طاقتیں مذہب کو سیاست اور اقتدار کی کشمکش کا آلہ بنا سکتی ہیں، جس سے معاشرے میں امن اور ہم آہنگی درہم برہم ہو گی۔ ہندوستان جیسے کثیر مذہبی ملک میں اور انسانیت کے نقطہ نظر سے ایک دوسرے کے عقیدے، عقائد اور روایات پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر یہ کانفرنس کسی خاص مذہب یا نظریے کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے تو اس سے دوسرے مذاہب کے ماننے والوں میں عدم تحفظ اور ناراضگی پیدا ہوسکتی ہے۔ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ شاید اسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے ابھی تک اس کانفرنس کی اجازت نہیں دی ہے۔
درحقیقت ایسے پروگرام مذہب کی صحیح تعلیم کے بجائے شدت پسندی اور عدم برداشت کو فروغ دے سکتے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل گمراہی کا شکار ہو رہی ہے۔ بالخصوص مذہب کی سطحی تعلیم دے کر ان میں جنون پیدا کیا جا رہا ہے۔
آج کے دور میں دھرم سنسد کا رواج بڑھ گیا ہے۔ سادھوؤں کی مختلف تنظیمیں اس کا اہتمام کرتی رہی ہیں۔ جس میں مختلف سلسلے بھی زیر بحث آئے ہیں۔ قدیم آرش صحیفوں میں رشی منیوں کے غوروخوض کرنے سے متعلق اجلاس کے شواہد ملتے ہیں، لیکن ان میں لفظ ‘دھرم سنسد’ کا استعمال نہیں ملتا۔ بدری اور دوارکا دویا پیٹھوں کے شنکراچاریہ رہے سوامی سوروپانند جی نے سائی بابا کو ہندوؤں کی طرف سے ناقابل پرستش قرار دینے کے لیے ہندو مذہبی گروؤں کی ایک میٹنگ بلائی تھی، اس کو دھرم سنسدکا نام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے حمایت یافتہ سادھوؤں نے بھی اپنے سادھوؤں اور سادھویوں کے اجلاس کو دھرم سنسد کے نام سے مشتہر کیا اور آخرکار یہ ایک ٹرینڈ بن گیا۔
سنگھ کے حمایت یافتہ سادھوؤں کے اجتماع کو دھرم سنسد کا نام دینے پر اس وقت کے دیوے پیٹھادھیشور کے شنکراچاریہ سوامی سوروپانند کے جانشین اور اس وقت اترمنایا بدری پیٹھ کے شنکراچاریہ کے جانشین سوامی اویمکتیشورانند نے بھی تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ سیاسی ایجنڈوں کو مشتہر کرنے والے حقیقی دھرم سنسد نہیں کرتے، اور بعد میں اپنی دھرم سنسد کا نام 1008 دھرم سنسد رکھا۔
اگر ہم لفظ سنسد کے بارے میں بات کریں تو سنسکرت میں یہ نسائی جنس کا لفظ ہے جس کی خالص شکل ‘سنسد'(ہلنت) ہے۔ اس کا منبع ‘سنسیدنتیاسامیتی’ ہے جس کا مطلب ہے جہاں لوگ مہذب انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بیٹھتے ہیں۔ اس لفظ کی بنیاد میں ہے مہذب انداز میں بیٹھنا، اجتماعی طور پر بیٹھنا۔ امرکوش وغیرہ میں سبھا یا سمیتی اس کے مترادف ہیں۔
بدقسمتی سے اب دھرم سنسد اپنے اصل معنی کھو رہی ہے اور نفرت کے ایجنڈے کا شکار ہوتی جا رہی ہے، جہاں لوگوں کی بھلائی پر غور کرنے کے بجائے اسے دشمنی کو بڑھاوادینے کے لیے ایک ٹول کٹ کے طور پر اندھا دھند استعمال کیا جا رہا ہے۔
ہمارا ملک مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا سنگم ہے، تنوع میں اتحاد اس کی طاقت ہے۔ اس کانفرنس سے کسی ایک مذہب یا گروہ کے بارے میں کوئی بھی غلط تبصرہ ہماری اجتماعی ثقافت کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور اس طرح ہماری قومی یکجہتی اور سالمیت کو کمزور کر سکتا ہے۔
ایسے پروگرام کے اصل مقصد اور ایجنڈے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کسی پروپیگنڈے یا اشتعال انگیز نظریے سے متاثر نہ ہوں۔ مذہب کا مقصد انسانیت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے۔ اسے تشدد، تعصب اور تقسیم کے لیے استعمال نہ ہونے دیں۔ جھوٹی خبروں اور افواہوں سے پرہیز کریں۔ کسی بھی معلومات کو جانچے بغیر قبول نہ کریں۔ مذہب، ذات پات اور نظریے سے بالاتر ہو کر اپنے اردگرد کے لوگوں کے ساتھ بقائے باہمی اور ہم آہنگی کو فروغ دیں۔ ایسے پروگرام ہمیں متنبہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے اتحاد اور سماجی ڈھانچے کو بچانے کے لیے چوکنا رہنا ہوگا۔ مذہب کو انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ اقتدار، سیاست یا تقسیم کے لیے۔
(سوامی راگھویندر ستیہ دھرم سنواد کے کوآرڈینیٹر ہیں۔)