کسی بھی عام شہری کے لیےجیل ایک خوفناک جگہ ہے، لیکن دیوانگنا، نتاشا اور آصف نے انتہائی عزم اور حوصلے سے جیل کے اندر ایک سال کاٹا۔ان کے تجربات جدوجہد آزادی کے سپاہیوں نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد کے جیل کی سرگزشت کی یاد دلاتے ہیں۔
دہلی کی تہاڑ جیل سے جمعرات شام کو آصف اقبال تنہا، دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
آج دیوانگنا کلیتا اورنتاشا نروال کے نام سے کون بیدار ہندوستانی واقف نہ ہوگا ۔ ایک سال کی جیل کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے تقریباً چار ہفتے ہوئے ہیں اور آنےوالا وقت بھی طویل جدوجہد کا ہے۔ یہی بات آصف اقبال تنہا کی بھی ہے، جو ان دونوں کے ساتھ ضمانت پر رہا ہوئے۔
آج ہم میں سے بہتوں کے دل میں ان کے لیے اس لیے عزت ہے کہ انہوں نے یہ ایک سال ثابت قدمی سے گزارا۔ مگر ہمیں یہ قطعی نہیں بھولنا چاہیے کہ ‘جیل’ کسی بھی عام شہری کے لیے خوفناک جگہ ہے۔ اس حوالے سے دیوانگنا، نتاشا اور ان کے ہم خیال جنہیں جیل جانا پڑا، استثنیٰ نہیں ہیں وہ ہماری ہی طرح کے عام ہندوستانی شہری ہیں۔
شاید اسی لیے ایک عام شہری کے طور پر پچھلے ایک سال کے دوران یہ خیال باربار دل میں آتا رہا کہ جیل کی زندگی ان کے لیے کیسی ہوگی، کیسے حالات میں وہ رہتے ہوں گے۔ خاص بات مگر یہ ہے کہ نظربندی کے مشکل دنوں میں بھی انہوں نے حوصلہ بنائے رکھا اور جن بھی حالات کا سامنا کرنا پڑا، ان میں سے بھی اپنے لیے بہتر کام نکال لیا اسی لیے ان کے بارے میں سوچتے وقت جدوجہد آزادی کے سپاہیوں کی بھی یاد آتی ہے جنہوں نے اپنی قید کے دن بھی ضائع نہیں ہونے دیے تھے۔
ضمانت پر رہائی کے بعد دیوانگنا، نتاشا اور آصف کی عوامی طور پر کہی گئی باتوں سے کچھ کچھ اندازہ ہوا کہ کیسے بسر ہوئے ہوں گے ان کے یہ جیل کے دن۔ دیوانگنا اور نتاشا کی باتیں سنتے ہوئے ذہن میں جواہر لال نہرو کی خودنوشت اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ‘
غبار خاطر’کے کچھ حصے یاد آتے رہے، جن میں ان کی جیل کی سرگزشت ہیں۔
مثال کے طور پر،جیل پہنچنے پر کس ماحول کا سامنا ہوتا ہے؟ 1942 میں احمد نگر کے قلعے میں قید کیے جانے کے دوران لکھے گئے خطوں پر مشتمل‘غبار خاطر’میں مولانا آزاد لکھتے ہیں؛
‘اچانک ایک نئی دنیا میں لاکر بند کر دیےگئے جس کا جغرافیہ ایک سو گز سے زیادہ پھیلاؤ نہیں رکھتا، اور جس کی ساری مردم شماری پندرہ زندہ شکلوں سے زیادہ نہیں۔ اسی دنیا میں ہر صبح کی روشنی طلوع ہونے لگی۔ اسی میں ہر شام کی تاریکی پھیلنے لگی؛
گویا نہ وہ زمیں ہے نہ وہ آسماں ہے اب!’
(غبار خاطر، ص:79،ساہتیہ اکادمی)
جیل جانے کے حالات اور سیاق الگ ہو سکتے ہیں، جیل جیل کا فرق بھی ہو سکتا ہے، مگر یہ تو طے ہے کہ آپ کو دنیا سے کٹ کر رہنا ہے۔ یہاں تک کہ قدرت کے نظاروں سے بھی کافی حد تک محروم رہنا ہے۔ اس کے باوجودمناظر فطرت ہی ہیں جو جیل میں بھی خوشی کی لہر لے آتے ہیں۔
یہ بات جواہر لال ہوں، چاہے ابوالکلام آزاد یا پھر دیوانگنا اور نتاشا، ان سب میں مشترک دکھائی دیتی ہے۔ دیوانگنا کا ایک خط اس پہلو پر بخوبی روشنی ڈالتا ہے۔
دیوانگنا اپنے اس
خط میں اپنے ایک غیرمعمولی تجربے سےواقف کرواتی ہیں۔ خط انگریزی میں ہے،اس لیےیہاں کچھ حصوں کا آزادانہ ترجمہ پیش کروں گا ۔ اس کا پہلا جملہ ہے – ‘ایک بہت ہی غیر معمولی واقعہ رونما ہوا کل شام جیل میں۔’
اس واقعہ کے مرکز میں بچے ہیں اور ان کا شوربھی۔ (یہ خیال کوندھتا ہے من میں۔ بچے؟ جیل میں؟)۔ یہ وہ بچے ہیں جن کے ساتھ دیوانگنا اور نتاشا نے ایک رشتہ بنا لیا ہے۔ وہ انہیں پڑھاتی ہیں، ان کے ساتھ کھیلتی ہیں، سوال وجواب کا سلسلہ چلتا ہے اور اسی سلسلے کی وجہ سے قوس وقزح اور جگنوؤں کی بات ہوئی تھی ان کے بیچ۔
اور اسی بات چیت کے دوران ایک بچہ پوچھتا رہا تھا –‘لیکن آسمان میں اتنے سارے رنگ کیسے ہو سکتے ہیں؟’ اسی غیر معمولی واقعے کو دیوانگنایوں رقم کرتی ہیں؛
‘اور پھر اچانک نہ جانے کہاں سے، کیسے، وہ ہوا کل شام۔ سورج کے غروب ہونے سے پہلے کا سماں تھا…۔ آسمان غیر معمولی طور پر نیلا اور صاف، شام کی نازک روشنی چھیڑ چھاڑ کرتی ہوئی سی،سورج بادلوں میں چھپتا اور کبھی ان میں سے جھانکتا ہوا سا، اور بہت ہی ہلکی سی بوندا باندی۔ ایک پل کو دل میں ایک امیدنے دستک دی، لیکن میں امید لیے ہوئے بھی ڈر رہی تھی۔
اور پھر ان میں سب سے بڑی عمر کا بچہ چیخ اٹھا ‘آنٹی دیکھو، قوس وقزح!’ …بچوں میں ایک تہلکہ سا مچ گیا۔ ہر بچہ چاہتا تھا کہ اسے گود میں اٹھایا جائے اور اسے قوس وقزح کا بہتر نظارہ دیکھنے کو ملے۔ خواتین بھی شور مچاتیں، ایک دوسرے کو باہر آکر یہ منظر دیکھنے کو بلا رہی تھیں… بہتوں کے لیے یہ پہلا قوس وقزح تھا – ‘کبھی سوچا نہیں تھا جیل میں آکر پہلی بار دیکھوں گی۔’
اور قوس وقزح کے غائب ہونے کے بعد نئے سوال آئے ‘آنٹی، وہ کہاں گیا؟’‘وہ کیوں چلا گیا؟’ ‘کل آئےگا کیا؟’‘کیوں ہمیشہ نہیں رہتا؟’
دیوانگنا کا مضمون نما خط پڑھتے ہوئے 1921 میں جواہر لال نہرو کے پہلی بارجیل جانے کے دوران لکھنؤ جیل کا ان کا تجربہ ذہن میں تازہ ہوا۔وہ لکھتے ہیں؛
‘جاڑے کی لمبی راتوں اور ہندوستان کے صاف آسمان نے ہماری توجہ تاروں کی جانب کھینچی، اور کچھ نقشوں کی مدد سے ہم نے کئی تارے پہچان لیے۔ ہر رات ہم ان کے طلوع ہونے کا انتظار کرتے تھے اور گویا اپنے پرانے شناساسے ملاقات کرتے ہوں، اس مسرت سے ان کا خیرم مقدم کرتے تھے۔’
(جواہر لال نہرو، میری کہانی)
جواہر لال کی خودنوشت کے اس اقتباس کا دھیان مجھے صرف قوس وقزح والا قصہ پڑھتے ہوئے ہی نہیں، مگر تب بھی آیا جب ایک انٹرویو میں دیوانگنا اور نتاشا بتا رہی تھیں کہ کس طرح وہ سلاخوں کے پاس کھڑیں، چاند کے نکلنے کا انتظار کرتیں اور آسمان میں ابھرتے چاند کو سلاخوں کے بیچ سے دیکھتی تھیں۔
قید میں اس کی اہمیت تب اور بھی زیادہ اثر چھوڑتی ہے جب جواہر لال کی آپ بیتی کا یہ حصہ پڑھنے کو ملتا ہے؛
‘مگر جیل میں تو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب دکھائی نہیں دیتے تھے۔ افق ہم سے پوشیدہ تھا اور صبح کا گرم سورج ہماری محافظ دیواروں کے اوپر دیر سے نکلتا تھا۔ کہیں عجیب و غریب رنگ کا نام ونشان نہیں تھا اور ہماری آنکھیں ہمیشہ انہیں مٹ میلی دیواروں اور بیرکوں کا منظر دیکھتے دیکھتے پتھرا گئی تھیں۔
وہ طرح طرح کی روشنی ، سایہ اور رنگوں کو دیکھنے کے لیے بھوکی ہو رہی تھیں اور جب برساتی بادل اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے، طرح طرح کی شکلیں بناتے ہوئے، طرح طرح کے رنگ اختیار کرتے ہوئے ہوا میں تھرکنے لگے تو میں پگلوں کی طرح حیرت اورخوشی سے انہیں نہارا کرتا۔
کبھی کبھی بادلوں کا تانتا ٹوٹ جاتا اور اس طرح جو سوراخ ہو جاتا، اس کے اندر سے بارش کے موسم کا ایک حیرت انگیز نظارہ دکھائی دیتا تھا۔ ان سوراخوں میں سے بے حد گہرا نیلا آسمان نظر آتا تھا، جو لامحدود کا ہی ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔’
(میری کہانی)
بات1921کی ہو یا2021 کی، تمام طرح کی مشینی دنیا کے باوجودفطرت کے ساتھ انسان کا رشتہ اب بھی قائم ہے۔ مولانا آزاد فطرت اور انسان کے اس رشتہ اور فطرت کافراخ دلی سے ذکر کرتے ہیں؛
‘قید خانے کی چار دیواری کے اندر بھی سورج ہر روز چمکتا ہے، اور چاندنی راتوں نے کبھی قیدی اور غیر قیدی میں امتیازنہیں کیا۔ اندھیری راتوں میں جب آسمان کی قندیلیں روشن ہو جاتی ہیں تو وہ صرف قید خانے کے باہر ہی نہیں چمکتیں… فطرت نے انسان کی طرح کبھی یہ نہیں کیا کہ کسی کو شاد کام رکھے، کسی کو محروم کر دے۔
وہ جب کبھی اپنے چہرے سے نقاب الٹتی ہے تو سب کو یکساں طور پرنظارہ حسن کی دعوت دیتی ہے۔ یہ ہماری غفلت اندیشی ہے کہ نظر اٹھاکر دیکھتے نہیں اور صرف اپنے گرد و پیش ہی میں کھوئے رہتے ہیں۔’
(غبار خاطر، ص: 69)
جیل میں رہتے ہوئے فطرت کے ساتھ یہ رشتہ بنتا ہے مگر رہنا تو جیل میں بھی انسانوں کے بیچ ہی ہوتا ہے۔ جواہر لال نہرو اس اذیت اور مسرت کا بھی ذکر کرتے ہیں، جس کا احساس انہیں لکھنؤ جیل میں ہوا اور ان کلاسز کا بھی، جن میں وہ ان پڑھ قیدیوں کو پڑھاتے تھے اور یہ سب پڑھتے ہوئے ہم ایک بار پھر نتاشا، دیوانگنا اور ان کے ہم سفروں کے تجرنے کے ساتھ جڑ پاتے ہیں، لگتا ہے کہ جواہر لال اپنے تجربے کی نہیں، 2020-21 کی بات کر رہے ہیں؛
‘جیل کی میری پہلی میعاد کے دن…میرے اور جیل ملازمین، دونوں ہی کے لیے اذیت اور بےچینی کے دن تھے۔ جیل کے افسر ان نئی طرح کے مجرموں کی آمد سے گھبرا سے گئے تھے۔ ان نئے آنے والوں کی محض تعداد ہی، جو دن بہ دن بڑھتی ہی جاتی تھی، غیر معمولی تھی… اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ تھی کہ نئے آنے والے لوگ بالکل نرالے ڈھنگ کے تھے۔
یوں آدمی تو تمام طبقےکے تھے، مگر متوسط طبقہ کے بہت زیادہ تھے۔ لیکن ان سب طبقوں میں ایک بات عام تھی۔ وہ معمولی سزایافتہ لوگوں سے بالکل دوسری طرح کے تھے اور ان کے ساتھ پرانے طریقے سے برتاؤ نہیں کیا جا سکتا تھا۔حکام نے یہ بات مانی تو، مگر موجودہ قاعدوں کی جگہ دوسرے قاعدے نہ تھے؛ اور نہ پہلے کی کوئی مثالیں تھیں، نہ کوئی پہلے کا تجربہ۔
معمولی کانگریسی قیدی نہ تو بہت دبو تھا اور نہ نرم۔ اور جیل کے اندر ہوتے ہوئے بھی اپنی تعداد زیادہ ہونے سے اس میں یہ خیال بھی آ گیا تھا کہ ہم میں کچھ طاقت ہے۔ باہر کی تحریک سے اور جیل خانوں کے اندر کے معاملوں میں عوام کی نئی دلچسپی پیدا ہو جانے کے سبب، وہ اور بھی مضبوط ہو گیا تھا۔ اس طرح کچھ کچھ تیز رخ ہوتے ہوئے بھی ہماری عام پالیسی جیل حکام سے تعاون کرنے کی تھی۔’
(میری کہانی)
اس اقتباس کو پڑھتے ہوئے آج کےحوالے سے دھیان اس طرف جاتا ہے کہ جیل حکام کے ساتھ اپنے اور دوسرے قیدیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کا کام نتاشا اور دیوانگنا کرتی رہی ہیں ان حکام کے لیے یہ ‘نئے آنے والے لوگ بالکل نرالے ڈھنگ کے’ رہے ہو ں گے اور یہ بھی شاید‘نہ تو بہت دبو…۔ اور نہ نرم’رہے ہوں گے، شاید ‘کچھ کچھ تیز رخ ہوتے ہوئے’ان کی بھی‘عام پالیسی جیل حکام سے تعاون کرنے کی’ رہی ہوگی۔
مولانا آزاد کی احمد نگر قلعے کی نظربندی کے دوران ہی ان کی اہلیہ کا انتقال ہوا تھا اور انہوں نے بیوی کی بیماری کے لیے بھی کسی طرح کی چھوٹ نہیں لی تھی۔ نتاشا کے والد بھی بیمار تھے، مگر عدالت سے وقت پر ضمانت نہیں ملی اور مہاویر نروال اس دنیا سے چلے گئے۔ جس حوصلے سے نتاشا نے اس خبر کو لیا اور دیر سے ملی ضمانت کے بعد ان کی آخری رسومات کی ادائیگی کی، وہ دلیری اور صبر کی بڑی مثالوں میں سے ایک ہے۔
مولانا آزاد کے اس لکھے کو پڑھتے وقت نتاشا یاد آتی ہیں اور وہ حالات جن سے وہ گزریں؛
‘دو بجے سپرنٹنڈنٹ نے گورنمنٹ بمبئی کا ایک تار حوالے کیا جس میں حادثے کی خبر دی گئی تھی… اس طرح ہماری چھتیس برس کی ازدواجی زندگی ختم ہو گئی اور موت کی دیوار ہم دونوں میں حائل ہو گئی۔ ہم اب بھی ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں، مگر اسی دیوار کی اوٹ سے۔ مجھے ان چند دنوں کے اندر برسوں کی راہ چلنی پڑی ہے۔ میرے عزم نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے پاؤں شل ہو گئے ہیں۔’
(غبار خاطر)
غورطلب ہے کہ ایک انٹرویومیں نتاشا اور دیوانگنا سے فیض احمد فیض کی نظم‘ہم دیکھیں گے’ کا ذکر ہوا تو انہوں نے اس کے بجائے حبیب جالب کی‘دستور’کو اپنے جذبے اور حالات کے زیادہ نزدیک پایا کیونکہ اس نظم کے بالخصوص اس حصہ کو گاتے وقت انہیں ایک عجیب سا احساس ہوتا ارے! زنداں کی دیوار کے سایے میں ہی یہ گیت گا رہے ہیں ہم:
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
جواہر لال نہرو اور مولانا آزاد کے ساتھ فیض اور
حبیب جالب کا یہ ذکر بھی شاید واجب ہی ہے کہ پاکستانی حکومتوں نے انہیں بھی جیل کے دورے کروائے تھےاور فیض کے لیے بھی قدرت کا کرشمہ اسی طرح معنی رکھتا تھا جیسے جواہر لال اور مولانا آزاد، اور نتاشادیوانگنا کے لیے۔ فیض کی نظم ‘زنداں کی ایک صبح’ یوں شروع ہوتی ہے؛
رات باقی تھی ابھی جب سر بالیں آکر
چاند نے مجھ سے کہا ‘جاگ سحر آئی ہے’
(رمنیک موہن سبکدوش پروفیسر ہیں۔)