ستمبر-نومبر 2022 میں ہوئی اگنی ویر بھرتی کے دوران منتخب امیدواروں کے مارکس ناکام امیدواروں سے کم تھے۔ لیکن مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے آرڈر کے چار ماہ گزرنے کے بعد بھی فوج نے درخواست گزاروں کے سامنے تمام امیدواروں کےمارکس ظاہر نہیں کیے ہیں۔
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا فیصلہ(تصویر بہ شکریہ: مدھیہ پردیش ہائی کورٹ)۔
نئی دہلی: کیا اگنی ویر کی بھرتی میں بھی ‘دھاندلی’ ہوئی ہے؟ چند ماہ قبل
دی وائر نے مدھیہ پردیش میں ایک معاملے کی تحقیقات کی تھی جو اگنی ویر کی بھرتی پر سوالیہ نشان قائم کرتی ہے۔ یہ سوالات آج بھی برقرار ہیں۔
رواں برس ایک جولائی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جسٹس وشال دھگٹ نے فوج کو ہدایت کی تھی کہ وہ 2022 میں ہوئی جبل پور بھرتی کے دوران منتخب ہونے والے تمام امیدواروں کےمارکس کی جانکاری 15 دنوں کے اندر ان درخواست گزاروں کو فراہم کرے جو محسوس کرتے ہیں کہ انہیں ‘منتخب امیدواروں کی فہرست’ میں شامل امیدوار سے کہیں زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں منتخب نہیں کیا گیا۔
ہائی کورٹ کے فیصلے کو چار ماہ گزر چکے ہیں، لیکن فوج نے درخواست گزاروں کو یہ جانکاری نہیں دی ہے۔ اس کے برعکس ایک رٹ اپیل کے ذریعے فوج یکم جولائی کے فیصلے پر روک لگوانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
مایوس امیدواروں کا کہنا ہے کہ دھاندلی کو چھپانے اور معاملے کو طول دینے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔
معاملہ کیا تھا؟
مدھیہ پردیش کے جبل پور میں ستمبر سے نومبر 2022 کے درمیان اگنی ویر بھرتی کے لیے فزیکل ٹیسٹ اور تحریری امتحان کا انعقادکیا گیا تھا۔ نتائج 26 نومبر کو آئے، جس نے بہت سے امیدواروں میں شکوک و شبہات کو جنم دیا۔
امیدواروں کی طرف سے داخل کردہ آر ٹی آئی درخواستوں کے جوابات سے پتہ چلتا ہے کہ کٹ آف 169گیا ہے۔ دی وائر نے اپنی پچھلی
رپورٹ میں بتایا تھا کہ منتخب امیدواروں کی فہرست میں شامل نتیش کمار تیواری کو 159 نمبر ملے تھے، یعنی کٹ آف سے کم۔
تاہم، نتیش کمار تیواری کو میڈیکل ٹیسٹ کے دوران باہرکردیا گیا تھا۔
آر ٹی آئی کے جواب نے امیدواروں کے شکوک و شبہات کو تقویت دی۔ انہوں نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کرتے ہوئے فوج سے تمام منتخب امیدواروں کے نمبروں کی جانکاری مانگی۔
اس کے بعد ہائی کورٹ نے درخواست گزاروں کا موقف لیتے ہوئے فوج کو 15 دن کے اندر تمام منتخب امیدواروں کے نمبر پبلک کرنے کا
حکم دیا تھا ۔
ایک جولائی 2024 کو جسٹس وشال دھگٹ کا حکم
حکومت کے حکم کے بعد بھی فوج نے معلومات کیوں نہیں دی؟
ایک جولائی کے فیصلے کے ٹھیک ایک ماہ بعدیعنی یکم اگست کو حکومت ہند، محکمہ دفاع اور فوج کے جبل پور بھرتی ہیڈ کوارٹر (مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ) کے سکریٹری نے مدھیہ پردیش میں ایک رٹ اپیل (1748/2024) دائر کی۔
گزشتہ 23 اگست کو جسٹس سشرت اروند دھرمادھیکاری اور جسٹس انورادھا شکلا نے جسٹس وشال دگھٹ کے فیصلے پر اگلی سماعت تک کے لیے
روک لگا دی ۔
ڈویژن بنچ کے جسٹس سشرت اروند دھرمادھیکاری اور جسٹس انورادھا شکلا کا اسٹے آرڈر
حکومت کی طرف سے دائر کی گئی اس رٹ اپیل میں امن دویدی، سجیت کمار راوت، سوربھ سنگھ، وکاس سنگھ، ابھیشیک کمار راوت، نیرج کمار پٹیل، آشیش کمار پٹیل، سمت یادو اور شیوم نام دیو نامی امیدواروں کو مدعا علیہ بنایا گیا ہے۔
غورطلب ہے کہ جسٹس سشروت اروند دھرمادھیکاری وہی جج ہیں
جن کے حالیہ فیصلے نے سرکاری ملازمین کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔
اُس معاملے میں جسٹس سشروت اروند دھرمادھیکاری اور جسٹس گجیندر سنگھ کی بنچ نے
کہا تھا ، ‘ آر ایس ایس میں شامل ہونے پر پابندی کی وجہ سے کئی طرح سے ملک کی خدمت کرنے کی مرکزی حکومت کے ملازمین کی خواہشات کم ہو گئیں… مرکزی حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہونے میں تقریباً پانچ دہائیوں کا عرصہ لگ گیا۔ حکومت کو یہ ماننے میں اتنا وقت لگا کہ آر ایس ایس جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیم کو غلط طریقے سے ملک کی کالعدم تنظیموں (کی فہرست) میں رکھا گیا تھا اور اسے وہاں سے ہٹانا ضروری ہے۔’
امیدواروں کے پاس اب کیا راستہ ہے؟
دی وائر سے بات کرتے ہوئے مدعا علیہان کے وکیل نوتیج سنگھ روپراہ نے کہا، ‘وہ (فوج) کہتے ہیں کہ ہم یہ حساس جانکاری (امیدواروں کے مارکس) نہیں دے سکتے۔ اب ہمیں ڈویژن بنچ کے سامنے دوبارہ ثابت کرنا ہے کہ ہم جو جانکاری مانگ رہے ہیں اس میں کچھ بھی حساس نہیں ہے۔’
پچھلی بار ڈپٹی سالیسٹر جنرل پشپیندر یادو نے عدالت میں کہا تھا کہ مانگی گئی معلومات ذاتی معلومات کے زمرے میں آتی ہے، جو نہیں دی جا سکتی۔ عدالت نے اس دلیل کو مسترد کر دیا تھا۔
جسٹس وشال دھگٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا، ‘درخواست گزاروں نے دوسرے مقابلہ کرنے والے امیدواروں کے نمبر مانگے ہیں۔ تمام امیدواروں نے عوامی امتحان میں حصہ لیا تھا۔ امتحان میں امیدواروں کے حاصل کردہ نمبر عوامی سرگرمی کا حصہ ہیں اور ہر امیدوار کو دوسرے امیدواروں کے حاصل کردہ نمبروں کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔ اگر دوسرے امیدواروں کے مارکس ظاہر کیے جاتے ہیں تو اس سے کسی امیدوار کی ذاتی معلومات کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔’
اگنی ویر کے بھرتی امتحان میں ‘گھوٹالے’ کا الزام لگا کر عدالت سے رجوع کرنے والے تمام امیدوار ریواکی بہادر فزیکل اکیڈمی میں تیاری کر رہے تھے۔
اکیڈمی کے ڈائریکٹر اور سابق فوجی لال بہادر گوتم نے دی وائر کو بتایا، ‘ہمیں منتخب امیدواروں کے نتائج نہیں دکھائے جا رہے ہیں کیونکہ فوج اس معاملے میں پھنس چکی ہے۔ میں نے نتیش کمار تیواری (رول نمبر- 140241) کی کاپی دکھا دی ہے، جو 159 نمبر حاصل کرنے کے باوجود منتخب امیدواروں کی فہرست میں شامل ہے، جبکہ کٹ آف 169 ہے۔’
گوتم کہتے ہیں، ‘اگر آرمی نمبر ظاہر کرتی ہے تو بہت سے ایسے بچے کا پتہ چل جائے گا، جنہیں کم نمبر آنے کے باوجود بھرتی کر لیا گیا ہے۔ اسی لیے معاملے کو طول دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘اگنی ویر کی نوکری ہی چار سال کی ہے اور کیس 10 سال تک چلتا رہے گا۔’
اگنی ویر کے امیدوار سوربھ سنگھ فوج کی اپیل سے مایوس ہیں، ‘میری عمر نکل چکی ہے، اب میں اگنی ویر کی نئی بھرتی میں بھی حصہ نہیں لے سکتا۔ فوج والوں نے تو عدالت کا حکم بھی نہیں مانا ۔’
پڑھائی لکھائی چھوڑچکے سوربھ اب کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ سوربھ کے والد بہت کم تنخواہ والی ایک پرائیویٹ نوکری کرتے ہیں۔ سوربھ اس انتظار میں ہیں کہ عدالت کا فیصلہ ان کے حق میں آئے گا اور اگنی ویر کی نوکری مل جائے گی۔ آر ٹی آئی کے مطابق، سوربھ سنگھ کے نمبر (167) نتیش کمار تیواری کے نمبروں سے کہیں زیادہ ہیں۔
ایک اور امیدوار وکاس سنگھ نے بھی سرکاری نوکری کی تیاری چھوڑ کر پرائیویٹ کمپنی میں کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کو سپریم کورٹ تک لے کر جائیں گے۔ وکاس کو 165 نمبر ملے تھے۔
جب دی وائر نے فوج اور حکومت کا موقف جاننے کے لیے ان کے وکیل اور ڈپٹی سالیسٹر جنرل پشپیندر یادو سے رابطہ کیا، تو انھوں نے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔