اس سال مارچ میں الہ آباد ہائی کورٹ نے لکھنؤ انتظامیہ کے اس قدم پر سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے پوسٹر ہٹانے کےحکم دیے تھے۔ عدالت نے کہا تھا کہ عوامی مقامات پر پوسٹر لگانا غیر مناسب ہے اور یہ متعلقہ لوگوں کی پرائیویسی اورآزادی میں پوری طرح سے دخل اندازی ہے۔
اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں سی اے اےمخالف مظاہرہ کے ملزمین کے پوسٹر گزشتہ مارچ میں جگہ جگہ لگائے گئے تھے۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجودشہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف پچھلے سال دسمبر میں راجدھانی لکھنؤ میں ہوئےپرتشددمظاہرہ کے ملزمین کے پوسٹر نام اور پتے کے ساتھ ایک بار پھر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے لگوائے گئے ہیں۔
دو طرح کے پوسٹر لگائے گئے ہیں، ایک پوسٹر میں جنہیں پولیس کو تلاش (وانٹیڈ)ہے ان کی جانکاری ہے، جبکہ دوسری طرح کے پوسٹروں میں ‘فرار’ لوگوں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔پولیس ذرائع نے بتایا کہ سی اے اے کے خلاف پچھلے سال 19 دسمبر کو لکھنؤ میں ہوئے مظاہرہ میں شامل آٹھ لوگوں پر گینگسٹر ایکٹ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے انہیں بھگوڑا قرار دیا گیا ہے۔
پولیس نے راجدھانی کے کئی تھانوں اور عوامی مقامات پر ان مظاہرین کی تصویر والے پوسٹر لگائے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس نے دو الگ الگ پوسٹر جاری کئے ہیں۔ ایک پوسٹر میں ان مظاہرین کی تصویر اور پتے ہیں، جن پر گینگسٹر ایکٹ کے تحت کارروائی ہوئی ہے، جبکہ دوسرے میں وہ مظاہرین ہیں، جو فرار تو ہیں لیکن ان پر گینگسٹر ایکٹ نہیں لگا ہے۔
ان پوسٹروں پر یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ان مظاہرین کی جانکاری دینے والے کو پانچ ہزار روپے کا انعام دیا جائےگا۔
پہلے پوسٹر میں جن آٹھ فرار مظاہرین کی تفصیلات ہیں، ان پر گینگسٹر کے تحت کارر وائی کی گئی ہے۔ ان میں محمد عالم، محمد طاہر، رضوان، نائب عرف رفعت علی، احسن، ارشاد، حسن اور ارشاد شامل ہیں۔ ان سب پر ٹھاکرگنج تھانے میں معاملہ درج ہے۔
دوسرے پوسٹر میں شیعہ عالم مولانا سیف عباس، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سینئر نائب صدر مولانا قلب صادق کے بیٹے قلب سبطین نوری، اسلام، جمال، آصف، توقیر عرف توحید، مانو، شکیل، نیلو، حلیم، کاشف اور سلیم چودھری کے نام شامل ہیں۔
پولیس کے مطابق یہ مظاہرین پچھلے سال 19 دسمبر کو لکھنؤ میں سی اے اے کےخلاف ہوئےمظاہرے کے دوران تشدد میں شامل تھے اور تشدد بھڑکا رہے تھے۔
نیشنل ہیرالڈ کے مطابق، ایک پولیس افسر نے کہا کہ پوسٹر ان تمام جگہوں پر لگائے گئے ہیں، جہاں ان مظاہرین کے چھپے ہونے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ ملزمین کے گھروں میں پوسٹر اور نوٹس لگائے گئے ہیں۔
سماجی کارکنوں نے ان پوسٹروں کو غیراخلاقی اور قانون کا غلط استعمال بتایا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ وہ اس ‘عوامی ہتک’کے خلاف عدالت جا ئیں گےکیونکہ ان کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوئے ہیں۔سابق آئی پی ایس افسر اورسماجی کارکن ایس آر داراپوری نے کہا، ‘یوگی سرکار این ایس اے، غنڈہ ایکٹ اور جرائم کے لیے گینگسٹر ایکٹ کا غلط استعمال کر رہی ہے، جن سے بنیادی طور پر مسلم اور دلت ہراساں ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘اس طرح کے قوانین کا استعمال ان افراد کے خلاف کیا جانا چاہیے، جو مجرم ہیں۔ سرکار ان لوگوں کی کیسے توہین کر سکتی ہے جن کے جرم عدالت میں ثابت نہیں ہوئے ہیں۔’
غورطلب ہے کہ پچھلے سال 19 دسمبر کو لکھنؤ میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کے دوران تشدد بھڑک گیا تھا، جس میں ایک شخص کی موت ہو گئی تھی اور بڑے پیمانے پر عوامی املاک کا نقصان ہوا تھا۔اس معاملے میں بڑی تعداد میں مظاہرین کے خلاف الگ الگ تھانوں میں معاملے درج کرکے ان کی گرفتاری کی گئی تھی۔
مظاہرہ کے دوران ہوئے نقصان کے معاوضے کے لیے لکھنؤ ضلع انتظامیہ نے اس وقت بھی مظاہرین کے نام، پتے اور تصویروں کی ہورڈنگ لگوا دی تھی۔ اس پر کافی تنازعہ ہوا اور معاملہ عدالت میں چلا گیا تھا۔جن لوگوں کی ہورڈنگس میں تصویریں تھیں، ان میں سابق آئی پی ایس افسر ایس آر داراپوری، کارکن اور رہنما صدف جعفر، وکیل محمد شعیب، تھیٹر سے وابستہ فن کار دیپک کبیر جیسے لوگ شامل تھے۔
اس سال مارچ میں الہ آباد ہائی کورٹ نے انتظامیہ کے اس قدم پر سخت ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ہورڈنگ ہٹانے کے حکم دیےتھے۔ عدالت نے کہا تھا کہ اس طرح سے عوامی مقامات پر پوسٹر لگانا بالکل غیرمناسب ہے اور یہ متعلقہ لوگوں کی پرائیویسی اورآزادی پر پوری طرح سے دخل اندازی ہے۔
اس کے بعد اتر پردیش سرکار نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیا، جہاں یہ معاملہ ابھی زیر سماعت ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)