پہلگام حملہ: ’بلڈوزر جسٹس‘، مصنوعی حب الوطنی کے سہارے مودی حکومت اپنی ناکامی پر پردہ نہیں ڈال سکتی

01:15 PM Apr 29, 2025 | سدھارتھ وردراجن

جب کوئی معاشرہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے بجائے، نمائشی  اور کھوکھلے ‘انصاف’ کا انتخاب کرتا ہے تو اس کا فائدہ دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو ہوتا ہے۔

سری نگر کے لال چوک پر تعینات سیکورٹی اہلکار۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

پہلگام میں وحشیانہ دہشت گردانہ حملے کے ملزمین کوقانون کی رو سے مالیگاؤں دہشت گردانہ بم بلاسٹ کے ملزمین کی طرح دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن دونوں معاملوں میں حکومت کا رویہ بالکل مختلف ہے۔

کشمیر میں، پچھلے تین چار دنوں میں، انتظامیہ نے نو افراد (جن میں سے صرف دو کو پولیس نے پہلگام حملے کے معاملے میں نامزد کیا ہے) کے گھروں کو مسمار کر دیا۔

کیا آپ کو یاد ہے کہ مالیگاؤںمعاملے کی کلیدی ملزم پرگیہ ٹھاکر کے گھر کو مسمار کیا گیا تھا یا دیگر چھ ملزمین – لیفٹیننٹ کرنل شری کانت پرساد پروہت، میجر رمیش اپادھیائے (ریٹائرڈ)، اجئے راہیرکر، سدھاکر دویدی، سدھاکر چترویدی اور سمیر کلکرنی کے گھروں پر کوئی کارروائی کی گئی تھی؟

میں یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ دہشت گردی کے ملزمین کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتی جانی چاہیے۔ جرم کی تحقیقات کریں، شواہد اکٹھا کریں اور ان پر مقدمہ چلائیں۔ اگر مقدمہ ٹھوس ہے تو ان کوقصوروار ٹھہرائیں اور قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

کسی بھی مہذب ملک میں دہشت گردی سے اسی طرح نمٹا جاتا ہے۔ ہم نے کشمیر میں جس طرح مکانات کی مسماری دیکھی ہے، اس سے خطرہ یہ ہے کہ وہ ہندوستانی عوام کو گمراہ کر رہے ہیں کہ انصاف مل رہا ہے –  وہ بھی ایسے وقت میں جب معاملے کی تفتیش کرنے والے حکام درحقیقت اس جرم کو حل کرنے یا دہشت گردوں کو پکڑنے اور ان پر کسی قسم کامقدمہ چلانے سے کوسوں  دور ہیں۔

یاد کیجیے کہ 2000 میں جموں و کشمیر کے چھتی سنگھ پورہ میں تین درجن سکھوں کو ہلاک کرنے والے لشکر کے دہشت گردکبھی نہیں پکڑے گئے۔ دو پاکستانی شہریوں – سہیل ملک اور وسیم احمد کو گرفتار کیا گیا اور ان پر مقدمہ چلایا گیا، لیکن ‘ان کے خلاف کوئی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بری کر دیا گیا۔’ سال 2012 میں دہلی ہائی کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا ۔

آپ جاننا چاہتے ہیں کہ چھتی سنگھ پورہ قتل عام کے لیے کسی کو کیوں نہیں پکڑا گیا اور اسے سزا  کیوں نہیں دی گئی؟

کیونکہ فوج اور پولیس نے اس قتل عام کے فوراً بعد اننت ناگ اور آس پاس کے علاقوں سے پانچ شہریوں کو اٹھا یا اور انہیں قتل کر دیا، انہیں وردی پہنائی  اور پتھری بل میں ان کی لاشوں کو جلا دیا۔ پھر دنیا سے کہا کہ سکھ شہریوں کو ہلاک کرنے والے خونخوار دہشت گردوں کو گھیرے میں لے کر انکاؤنٹر میں مار دیا گیا ہے۔

میں اس بھیانک معاملے کی گہرائی میں نہیں جاؤں گا، لیکن جب سی بی آئی کو پتھری بل کیس کی تحقیقات سونپی گئی اور اس نے ملوث افسران اور سپاہیوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تو ثابت ہوا کہ مارے گئے لوگ بے قصور تھے۔ لیکن پھر بھی ملزم فوجیوں پرکبھی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، چھتی سنگھ پورہ دہشت گردانہ حملے کی فائل کبھی دوبارہ نہیں کھولی گئی اور نہ ہی اس پر کوئی کارروائی کی گئی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ پہلگام میں ہندو سیاحوں پر فائرنگ کرنے والے شرپسندوں میں کچھ ایسے دہشت گرد بھی شامل تھے جنہوں نے 25 سال قبل چھتی سنگھ پورہ میں سکھوں کو قتل کیا تھا۔

یہاں یہ بات بھی کہنی چاہیے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی حکومت کی بلڈوزر کارروائی کے حوالے سے ایک قانون بنا چکی ہے، لیکن اس کے باوجود حکومت کو لگتا ہے کہ وہ اس قانون کو نظر انداز کر سکتی ہے۔

درحقیقت، آج سب سے بڑا مسئلہ قومی سلامتی کی پالیسی کا ہے۔ جب کوئی معاشرہ انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے بجائے،نمائشی اور کھوکھلے ‘انصاف’ کا انتخاب کرتا ہے تواس کا فائدہ  دہشت گردوں اور ان کے آقاؤں کو ہوتا ہے۔

ایسا ہمیشہ اور ہر بار ہواہے۔